نیا پاکستان بہت سے لوگوں کی نئی امید ہے۔ ایک نئی آس ہے، جس کے سہارے کچھ لوگ اپنے شب و روز کی تلخیاں برداشت کر رہے ہیں۔ غربت کے اندھے کنوئیں میں ان کو روشنی کی چند کرنیں نظر آ رہی ہیں۔ ان میں ایک یکساں نصاب تعلیم ہے۔ غریب کو یہ آس دلائی جا رہی ہے کہ اس کا بچہ بھی وہی نصاب پڑھے گا ، جو اس دیس کے سب امیر و غریب بچے پڑھ رہے ہوں گے۔
غریب کو یہ امید بھی دلائی جا رہی ہے کہ مستقبل میں اس کے بچے کو بے روزگار ی کا سامنا بھی نہیں ہو گا۔ اس امید کی ایک وجہ یکساں نصاب تعلیم ہے۔ یکساں نصاب تعلیم کا مطلب یہ ہے‘ معاشرے کے کم خوش نصیب اور پسماندگی کا شکار طبقات کے بچے بھی مقابلے کے امتحانات میں خوش قسمت لوگوں کے بچوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ دوسری وجہ میرٹ ہو گا۔ چونکہ بقول ارباب اختیار ملک میں میرٹ کی حکمرانی ہو گی، اس لیے روزگار کے باب میں جو رشوت، سفارش اور اقربا پروری کا راج ہے، اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یکساں نظام تعلیم سے پڑھ کر آنے والے بچوں کو روزگار کے مساوی مواقع میسر آئیں گے۔
حکومت عام آدمی کو ایک صحت کارڈ کی خوش خبری بھی سنا رہی ہے۔ اس کارڈ پر ایک غریب یا بے وسیلہ شخص ملک کے کسی بھی شفا خانے سے علاج کرا سکے گا۔ چنانچہ بیمار کو یہ امید ہو چلی ہے کہ اسے ہسپتال میں ایک مناسب بستر میسر ہو گا‘ دوا دارو ملے گا‘ اچھی طرح سے تربیت یافتہ، قابل اور ہمدرد ڈاکٹرز اور نرسز میسر ہوں گے۔ غریب ہونے کی وجہ سے اسے شفا خانوں سے دھتکارے جانے، اور بیماری سے مر جانے کا خوف نہیں ہو گا۔
حکومت لاکھوں گھر تعمیر کرنے کی بات کر رہی ہے۔ ان گھروں کے وہ لوگ بھی مالک بن سکتے ہیں، جو کبھی اپنے گھر کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ حکومت بڑے شہروں میں پناہ گاہیں بھی قائم کرنے میں لگی ہے۔ اس طرح کچھ بے گھر افراد کو چھت میسر آ گئی ہے، اور کئی ایک کو اس کی امید ہو چلی ہے۔
حکومت مدینے جیسی ریاست کی بات کر رہی ہے۔ ظاہر ہے مدینے کی ریاست کے لیے ایک فلاحی ریاست ہونا لازم ہے۔ اس ریاست میں مجبور اور بے بس لوگوں کی دستگیری حکومت پر لازم ہو گی۔ یہاں یتیم، بیوہ اور معذور افراد کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔ حکومت نیا اور تیز رفتار نظام انصاف فراہم کرے گی۔ مال پٹوار، دھونس دھاندلی اور ظلم و نا انصافی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
یہ اچھی اچھی خبریں صرف کم خوش قسمت لوگوں کے لیے ہی نہیں ہیں۔ نئے پاکستان میں کاروباری لوگوں، سرمایہ کاروں، بالا دست طبقات اور اشرافیہ کے لیے بھی خوش خبری ہے کہ نئے پاکستان میں ان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ کاروباری حضرات کو کاروبار کے لیے مزید ساز گار ماحول دیا جا ئے گا۔ سرمایہ کار کو سرمایہ کاری کے لیے راستے میں کسی ریڈ ٹیپ یا رکاوٹ کا سامنا نہیں ہو گا۔ ان لوگوں کی سہولت کے لیے نئے اور نرم قوانین بنائے جائیں گے۔ غرضیکہ ملک میں ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے گا ، جس میں سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔ یہ وہ منزل ہے، جسے انگریز لوگ ، ہیپی اینڈنگ، کہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک مکمل قومی جمہوری انقلاب کے بغیر مروجہ سست رفتار روایتی نظام میں سب کچھ ممکن ہے یا یہ وعدے ماضی کے ان گنت وعدوں کی طرح محض دھوکے بن کر یادداشت میں باقی رہ جائیں گے؟
اکثر سیاسی جماعتوں پر عوام دھوکہ دہی کا الزام کیوں لگاتے ہیں؟ اس لیے کہ عوام کو سادہ زبان میں بات کھول کر سمجھائی ہی نہیں جاتی کہ ان سے جو وعدہ کیا جا رہا ہے اس کی تکمیل کے لیے کتنا وقت چاہیے ؟ کتنے وسائل چاہئیں؟ اور درکار وسائل کہاں سے آئیں گے؟ مثال کے طور پر اگر کوئی مقبول سیاسی جماعت عوام کو کوئی جھوٹی لوری سنانے کے بجائے ان کو کھل کر بتا دے کہ غربت ایک ایسی بدنما حقیقت ہے، جس کا کوئی فوری یا جادوئی حل نہیں بلکہ یہ وقت اور وسائل طلب کام ہے تو عوام کیا کریں گے؟ اس مقبول جماعت کو چھوڑ دیں گے ؟ کارل مارکس کا فلسفۂ انقلاب اپنا لیں گے؟ کسی انقلابی جماعت میں شامل ہو جائیں گے؟ یا پھر اپنی غربت کو مقدر کا لکھا سمجھ کر بدستور اسی جماعت کے ساتھ چلتے رہیں گے۔ یہ غور کرنے کی بات ہے۔
یہ جس کو ہم عوام کہتے ہیں، اس سے زیادہ صابر، شاکر اور سیانی مخلوق کوئی نہیں ہے۔ وہ اشرافیہ اور بالا دست طبقات سے زیادہ سیانے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اجتماعی دانش ہے۔ اشرافیہ کے بر عکس انہوں نے تاریخ میں کبھی کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا ۔ انہوں نے جب کبھی اجتماعی دانش بروئے کار لانے کی ضرورت محسوس کی تو بڑے بڑے تخت اچھالے اور تاج گرا دئیے۔ جب چاہا افتادگان خاک کو اٹھا کر تخت پر بٹھا دیا۔ اس لیے عوام سے جھوٹ بولنے والوں کا انجام برا ہوتا ہے۔
نیا پاکستان بنانے والوں کو اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے کہ نیا پاکستان بنانا ایک وقت طلب کام ہے۔ یہ کوئی راتوں رات ہونے والا کام نہیں ہے۔ اگر نئے پاکستان کے لیے تمام ذرائع اور اسباب میسر ہوں، تو پھر بھی غریب اور مصیبت زدہ لوگوں کو اپنی زندگیوں میں اس کا اثر دیکھنے کے لیے طویل عرصہ انتظار کرنا پڑے گا۔ اس کی ایک مثال یکساں نصاب تعلیم ہے۔ یکساں نصاب تعلیم بلا شبہ پاکستان کے غریب اور پسماندہ لوگوں کے لیے اس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی خوش خبری ہے‘ مگر اس خوش خبری کو مادی شکل میں ڈھال کر غریب کی زندگی تک پہنچانے اور اسے بدلنے کے لیے کم از کم بیس سال کا عرصہ درکار ہے۔ اب اگر یہ تلخ حقیقت غریب کو بتا دی جائے تو اس بات میں خوش خبری کہاں رہ جاتی ہے؟
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ پنجاب میں یکساں نصاب تعلیم سال دو ہزار تیئس تک رائج کر دیا جائے گا۔ حکومت کو یہ نصاب مرتب کرنے اور اسے رائج کرنے کے لیے کم از کم پانچ سال کا عرصہ چاہیے۔ گویا نئے نصاب کے آغاز کے پندرہ بیس سال بعد یہ بچے اس نئے نظام تعلیم کے تحت حاصل کی گئی اسناد اور ڈگریاں لے کر روزگار کی تلاش میں باہر نکلیں گے‘ اور اس وقت کے حالات کے مطابق اگر کوئی روزگار ان کو میسر ہو گا، تو اس دن سے یکساں نظام تعلیم کے مادی اثرات سماج کے غریب یا کم خوش قسمت طبقات کی زندگیوں میں ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔ یہ ایک لمبا اور تکلیف دہ انتظار ہے۔
چنانچہ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام سے سچ بولا جائے۔ ان کو اعتماد میں لیا جائے۔ جو کچھ ہے ان سے بانٹ برت کر کھایا جائے۔ جو کچھ نہیں ہے یا نہیں ہو سکتا ، اس راز میں بھی ان کو شریک کیا جائے۔ ان کوکار ریاست اور کار سرکار میں شریک کیا جائے۔ ان کی اجتماعی دانش سے فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ سب کچھ ایک کھلی، شفاف اور آزاد جمہوری حکومت میں ہی ممکن ہے۔ حکومتوں اور ریاستوں کو عوام سے صرف وہ راز چھپانے کا اختیار ہوتا ہے ، جن کا تعلق ملکی سلامتی سے ہو۔ یہ زیادہ تر عسکری اور فوجی راز ہوتے ہیں‘ جن کا تعلق جنگی ضروریات اور ملک کو بیرونی حملہ آوروں سے بچانے تک ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جمہوری سماج میں کوئی راز، راز نہیں ہوتا۔ کسی کو کوئی بات چھپانے یا نہ بتانے کا حق نہیں ہوتا۔
اگر ریاست عوام کے ساتھ ایک خاندان جیسا سلوک کرے۔ ان سے اپنے مسائل کھل کر بیان کرے۔ اپنے وسائل اور ان کے امکانات ان کے سامنے رکھے، تو عوام ریاست کے ساتھ ایک خاندان کے افراد کی طرح تعاون کر سکتے ہیں‘ اور تبدیلی کی جنگ میں بے پناہ ایثار، قربانی اور صبر سے کام لے سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ریاست کے لیے ماں جیسا ہونا لازم ہے۔ جو سب کے ساتھ انصاف، برابری اور شفقت کرے۔ جس کے پاس تبدیلی کا محض خواب ہی نہیں، ایک واضح نقشہ بھی ہو۔ اور وہ اس نقشے پر چلنے کے لیے درکار وسائل کے حصول کا عزم اور قدرت رکھتی ہو۔