خواب دیکھنا دکھانا اچھی بات ہے۔ خواب زندگی میں رنگ بھرتے ہیں۔ ورنہ خوابوں کے بغیر زندگی محض ایک مشقت اور اکتا دینے والی چیز ہے۔ مگر خواب دکھانے اور دھوکہ دینے کے درمیان باریک لکیر ہے۔ سیاست میں بسا اوقات یہ لکیر مٹ جاتی ہے۔ ارباب اختیار جوش خطابت میں کئی ایسے وعدے کر دیتے ہیں، جو کبھی پورے نہیں ہو سکتے۔ لوگ انہیں بھول جاتے ہیں۔ مگر جو وعدے تحریری طور پر کیے جاتے ہیں۔ جو حکمران جماعت کے منشور میں رقم ہوتے ہیں۔ جو کتابچوں اور پوسٹرز میں لکھے جاتے ہیں۔ جن کا سرکاری سطح پر اعلان کیا جاتا ہے۔ ان کو بھلانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
یہ صرف ہمارے ہاں ہی نہیں ہے کہ سیاستدان مقبولیت حاصل کرنے یا ووٹ لینے کے لیے عوام سے کچھ ایسے وعدے کرتے ہیں، جن کے پورا ہونے کا خود ان کو بھی یقین نہیں ہوتا۔ ایسا دنیا بھر کے پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے۔ جہاں عوام گمبھیر مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ سیاست دان نسل در نسل ان سے مختلف مسائل کے حل کے وعدے کرتے رہتے ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ دور دراز قصبے میں آباد لوگوں کو ایک پل کی ضرورت ہے، تو وہاں کی تیسری نسل اس پل کی تعمیر کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ یا اس پل کے لیے سیاست دانوں کی تیسری نسل کے وعدے سن رہی ہوتی ہے۔ ایک ٹیوب ویل، ایک پانی کا کنواں، چند کلومیٹر سڑک، ڈسپنسری یا دیہی شفا خانے کا قیام جیسے چھوٹے سے چھوٹے منصوبے کا ستر ستر سال سے انتظار ہو رہا ہوتا ہے۔ کچھ جگہوں پر مقامی لوگ اپنے سپاس نامے میں کسی نوجوان سیاست دان کو بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ اسی جگہ پر کھڑے ہو کر آپ کے داد جان نے ایک ڈسپنسری کے قیام کا اعلان کیا تھا‘ مگر اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی مخالف پیشرو حکومتوں نے یہ کام نہیں ہونے دیا‘ اور اب ہمیں قوی یقین ہے کہ آپ کے دورِ اقتدار میں ہماری یہ دیرینہ خواہش ضرور پوری ہو گی۔
یہ دعوے کرنے اور توڑنے کا سلسلہ مشرق و مغرب میں ہر جگہ ہے، مگر ہماری نسبت مغرب میں سیاست میں بڑے دعوے اور وعدے کرنے کا رواج کم ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں لوگوں کو ایسے بنیادی مسائل کا سامنا ہی نہیں ہوتا۔ دوسری وجہ عوام کا ترقی یافتہ شعور اور بلند شرح خواندگی ہے۔ ایک وجہ کھلا مکالمہ اور مباحثے بھی ہیں‘ جو عوامی سطح پر رہنمائوں کو ایک دوسرے اور عوام کے آمنے سامنے کھڑے ہو کر کرنے پڑتے ہیں۔ عوام کی ایک بڑی تعداد ان مباحثوں کے انتظار میں ہوتی ہے۔ یہ مباحثہ سن کر وہ اپنے ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ قومی اور سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے اس مباحثے میں کوئی رہنما کوئی ایسا وعدہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا، جو وہ پورا کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو‘ کیونکہ اگر وہ وعدہ توڑنے پر مجبور ہو جائے یا پورا کرنے میں ناکام رہے تو اس کے دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں، اور اس کی پارٹی کا مستقبل دائو پر لگ جاتا ہے۔
مگر مغرب میں بھی اور خصوصاً امریکہ میں کچھ استثنائیں ضرور ہیں۔ کچھ امریکی صدور نے تاریخ میں ایسے وعدے کیے جو وہ پورے نہ کر سکے۔ ان میں سر فہرست صدر ٹرمپ ہیں۔ کئی دوسرے کاموں کے علاوہ افغانستان سے فوجوں کا انخلا ان کا اہم انتخابی وعدہ تھا، جو انہوں نے عسکری قیادت کے مشورے پر توڑا۔ مگر میرے نزدیک صدر ٹرمپ تو ہر معاملے میں ایک استثنا ہیں۔ روایتی معنوں میں ان کو کسی طرح بھی مغربی سیاست کا کوئی مثالی کردار نہیں سمجھا جا سکتا، کیونکہ ان کے بیشتر ارشادات اور حرکات مسلمہ مغربی سیاسی اخلاقیات سے متصادم ہیں؛ چنانچہ ان کو مکمل استثنا دینا ہی بہتر ہے۔ مگر کچھ دوسرے ایسے بھلے مانس صدر بھی گزرے ہیں، جنہوں نے وعدے توڑے یا پورا کرنے میں نا کام رہے۔ سال انیس سو سولہ میں جس وقت پوری دنیا پہلی جنگ عظیم میں جتی تھی، اس وقت امریکہ اس سے باہر تھا۔ اس بات کا کریڈٹ امریکی صدر وڈرو ولسن نے لیا۔ صدر وڈرو ولسن اس نعرے پر دوبارہ انتخاب جیتے تھے کہ انہوں نے امریکہ کو پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے بچا کر رکھا۔ مگر ایک سال بعد امریکہ کو ان کی قیادت میں اسی جنگ میں کودنا پڑا۔ اگرچہ ان کے پاس یہ دلیل تھی کہ ایک سال میں دنیا میں حالات بدل چکے، اور بدلتے حالات میں امریکہ کا مفاد جنگ میں شرکت میں ہی محفوظ ہے۔ صدر لنڈن جانسن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں کو امریکہ سے دس ہزار میل دور ایک ایسی جگہ لڑنے کے لیے نہیں بھیجیں گے، جہاں وہاں کے ایشیائی فوجیوں کو خود لڑنا چاہیے‘ مگر ان کے دورِ صدارت میں امریکی ویتنام کی جنگ میں شامل ہو گئے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لنڈن جانسن دوسری بار انتخابات میں کھڑے ہی نہیں ہوئے۔ اور کھڑے ہوتے تو شاید ہار جاتے۔ اسی طرح رونلڈ ریگن نے انتخابات کے دوران یہ وعدہ کیا کہ وہ سکولوں میں دعا کی اجازت کے لیے امریکی قانون میں تبدیلی کریں گے۔ انہوں نے ایک کوشش ضرور کی، مگر وہ اس میں ناکام رہے۔ امریکہ کی سیاسی تاریخ میں یہ وعدہ شکنی کی تین سنگین ترین مثالیں ہیں۔ مگر ہمارے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں۔
سوویت اور چینی لیڈروں کی بھی وعدے توڑنے کی ایک تاریخ ہے‘ مگر ان کو اس کا یہ فائدہ تھا کہ ان کو دوبارہ منتخب ہونے کے لیے عوام کے پاس جانے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی تھی، کیونکہ ان دونوں کے ہاں پیپلز کانگرس یا پولٹ بیورو جیسے اداروںکے ذریعے لیڈر شپ کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ روس میں نام نہاد جمہوریت کے بعد وعدے توڑنے کے واقعات کم نہیں ہوئے۔ پوٹن نے قومی ٹیلی وژن پر بیٹھ کر کیے گئے وعدے بھی توڑنے میں کوئی عار نہیں محسوس کی۔
پاکستان کی تاریخ میں عوام کو انسانی تاریخ کا ہر معلوم خواب دکھایا گیا۔ کئی خواب تو مناظر اور نام بدل بدل کر بار بار دکھائے جاتے رہے۔ ایک خواب وہ تھا جو اس قوم نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں دیکھا تھا۔ سماجی انصاف پر مبنی ایک روادار اور جمہوری ریاست کا خواب۔ یہ خواب بار بار چکنا چور ہوا۔ آمریتیں بار بار کرپشن کے نام پر اس ملک کے آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرتی رہیں۔ مذہب کے نام پر رواداری کا مذاق اڑاتی رہیں۔
پھر اس ملک کے بھوکے ننگے عوام کو روٹی اور کپڑے کا خواب دکھایا گیا۔ سوشلزم کے نام پر انہوں نے چشم تصور سے دیکھا کہ غریب کے دن بدلنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اب پیٹ میں روٹی، تن پر کپڑا اور سر پر چھت اس کا بنیادی حق ہے، جو آئین میں لکھ دیا جائے گا۔ تو اب اسے اس سے کون محروم کر سکتا ہے۔ یہ خواب پورا تو نہیں ہوا، مگر اس کی وجہ سے دو کام ضرور ہوئے۔ ایک سوشلزم بدنام ہوا۔ اور دوسرا غریب مایوس ہوا۔ پھر ایک مرد مومن آیا، جس نے نفاذِ اسلام کا خواب بیچا۔ پھر اسلام کے نام پر اللہ کی اس دھرتی پر جو کچھ ہوا اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اسلام کے نام پر عوام کو لوٹا گیا۔ سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارے گئے۔ رشوت و سفارش کا بازار گرم ہوا۔ جعلی ریفرنڈم ہوئے۔ نوے دن کا وعدہ کیا اور ایک عشرہ مسلط رہے۔ یہ مرد مومن گیا تو ملک ایک زندہ لاش تھا، جو خون میں لت پت تڑپ رہی تھی۔ پھر سیاست دان آئے، عوام میں جمہوریت کے سائے میں خوابوں کی نئی دنیا آباد کی‘ مگر بد قسمتی سے جمہوریت کے شاہین کو ہر بار اڑان بھرنے سے پہلے ہی مارگرا دیا جاتا رہا۔
ایسا ایک بار نہیں ہوا۔ بار بار ملک کی منتخب جمہوری حکومتوں کے ساتھ ایسا ہوا؛ چنانچہ ان سیاست دانوں کے پاس اپنے وعدے پورے نہ کرنے کا ایک معقول عذر رہا ہے کہ انہیں مناسب وقت ہی نہ مل سکا۔ مگر جب آنے والی حکومتوں کو یکے بعد دیگرے پانچ سال پورے کرنے کا موقع ملا تو تب بھی عوام کے ساتھ کیا گیا کوئی خاص وعدہ پورا نہ ہوا۔ اس بار عذر یہ تھا کہ ہم تو مجبور محض ہیں۔ ٹوٹے ہوئے وعدوں کا یہ سلسلہ مستقبل قریب میں بھی رکتا نظر نہیں آتا۔