ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں رہتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپیوٹر سائنسدانوں کی تخلیق ہے۔ انتہائی دانش مند اور سائنسی اذہان کے مالک ان لوگوں کو مگر اب اپنی اس مفید ایجاد پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ اب اس ایجاد نے خود اپنی الگ زندگی اختیار کر لی ہے۔ اب اس کے درست یا غلط استعمال کا فیصلہ سماج میں موجود مختلف قوتوں کے پاس ہے۔ اب یہ لوگ طے کرتے ہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو کب، کہاں اور کیسے استعمال کیا جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ہمارے ارد گرد کی دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہماری نسل کے لوگوں کے لیے یہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے۔ ہمارے زمانے میں ہم پہاڑی لوگوں کے لیے ہمارے پہاڑوں پر ذرائع ابلاغ بہت سادہ اور محدود تھے۔ پہلا اور بنیادی ذریعہ ڈاک تھا۔ اطلاعات، جذبات اور احساسات کے اظہار کا ذریعہ خط و کتابت تھی۔ ہنگامی حالات میں تار کے ذریعے بھی اطلاع پہنچائی جاتی تھی، مگر یہ سہولت صرف بڑے قصبوں میں ہی میسر تھی۔
اطلاعات کا ایک بڑا ذریعہ ریڈیو تھا۔ ہمارے ہاں دو ریڈیو سٹیشن سنے جا سکتے تھے۔ ایک ریڈیو پاکستان تھا اور دوسرا ریڈیو آزاد کشمیر تراڑ کھل، جو راولپنڈی سے نشر ہوتا تھا۔ فریکوینسی بہتر ہونے اور بہتر ریڈیو سیٹ آنے کے بعد بی بی سی لندن اور آل انڈیا ریڈیو بھی سنے جا سکتے تھے۔ بعد میں ٹی وی بھی آ گیا۔ یہ ابلاغ کا یک طرفہ سلسلہ تھا۔ ہم خاموش اور غیر متحرک سامعین تھے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس کو بدل کر رکھ دیا۔
تقریباً پانچ سو ستر برس قبل انسان نے پرنٹنگ پریس ایجاد کیا تھا۔ اس ایجاد نے ہماری دنیا ہی بدل کر رکھ دی تھی۔ پھر کئی صدیوں بعد اسی کی دہائی میں ابلاغ کے میدان میں اس طرح کی ایک نئی ایجاد ہوئی۔ یہ انٹرنیٹ تھا۔ شاید اس کے موجد بھی یہ تصور نہ کر سکتے تھے کہ یہ ٹیکنالوجی کیا کیا رنگ جمائے گی، اور ہماری دنیا میں ابلاغ کو ایک نیا ڈھنگ بخش دے گی۔
انٹرنیٹ نے خیالات اور معلومات کی ترسیل اور حصول کے نئے طریقے ایجاد کیے۔ اس سے پہلے اخبارت، ٹی وی یک طرفہ خبریں اور تبصرے دیتے تھے۔ لو گ ان کو پڑھ، دیکھ اور سن لیتے تھے۔ انٹرنیٹ نے فیس بک ، یو ٹیوب، ٹویٹر اور انسٹا گرام متعارف کروا دئیے۔ اب عام آدمی صرف پڑھتا نہیں، وہ جواب بھی لکھ سکتا ہے۔ انٹرایکٹ کر سکتا ہے۔ اب اس ٹیکنالوجی میں نیا موڑ آ رہا ہے، جس میں شاید براڈ کاسٹر آپ کو دیکھ سکتا ہے، آپ کے ساتھ براہ راست انٹرایکٹ کر سکتا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی میں یہ انقلاب راتوں رات نہیں آ گیا۔ اس کے پس منظر میں صدیوں کی تاریخ ہے۔ انسان کی اجتماعی جدوجہد، غور و فکر اور آگے بڑھنے کی خواہش ہے۔
دنیا میں ترقی کا نقطہ آغاز یورپ میں احیائے علوم ہے۔ یورپ میں نشاۃ ثانیہ یا احیائے علوم کے ساتھ ہی نئی ایجادات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ احیائے علوم کا سب سے بڑا اثر ادب پر مرتب ہوا۔ اس سے پہلے یورپ میں جو ادب تخلیق ہوتا‘ وہ زیادہ تر مذہب کے بارے میں ہوتا تھا۔ مذہبی ہیروز کی کہانیوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ احیائے علوم کے ساتھ اوریجنل اور حقیقی ادب بھی تخلیق ہونا شروع ہوا۔ اس سے پہلے عام طور پر اس بات پر زور دیا جاتا تھا کہ انسان خدا کے لیے کیا کر سکتا ہے، مگر اب یہ گفتگو شروع ہوئی کہ انسان خود اپنے لیے کیا کر سکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا مائنڈ سیٹ بدلنا شروع ہوا اور وہ تیزی سے جدید سائنس کی طرف متوجہ ہوئے۔
نشاۃ ثانیہ سے یورپ میں سماجی انقلاب کے ساتھ ساتھ سائنس کی دنیا میں بھی انقلاب برپا ہونا شروع ہوا‘ جس کے نتیجے میں گلیلیو، کوپرنیکس اور نیوٹن جیسے نابغہ روزگار سائنسدان سامنے آئے، جنہوں نے معاشرے کے سوچنے کا انداز ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس سے نئی دریافتیں، نئی ایجادات اور ذہنی تخلیق کا دور شروع ہوا۔ چنانچہ یورپ میں سوچ میں تبدیلی صنعتی انقلاب پر منتج ہوئی۔ صنعتی انقلاب سے زندگی کے ہر شعبے میں حیرت انگیز تبدیلیوں کا دور شروع ہوا۔ صنعتی انقلاب زراعت، صنعت و حرفت، کان کنی سمیت زندگی کے دوسرے شعبوں میں نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک بڑا انقلاب لانے کا باعث بنا۔
دنیا میں کئی نئی ایجادات ہوئیں اور اس کے نتیجے میں کئی تبدیلیاں آئیں۔ مگر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے جو انقلاب برپا کیا وہ ناقابل یقین ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے دنیا بھر کی معلومات اور اطلاعات تک رسائی کو ایک بٹن چھونے سے ممکن بنا دیا۔ صرف اطلاعات اور معلومات تک رسائی ہی نہیں، اطلاعات و معلومات کی دنیا بھر میں ترسیل بھی ایک بٹن میں سمو دی۔ اس انقلاب کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیجنڈ سامنے آئے۔ برطانوی کمپیوٹر سائنسدان ٹم برنرز لی نے ورلڈ وائیڈ ویب کے ذریعے معلومات اور اطلاعات کی دنیا ہی بدل ڈالی۔ سٹیو جاب نے ایپل ون کے نام سے پہلا مؤثر کمپیوٹر ایجاد کیا، جس نے کمپیوٹر کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ بل گیٹس نے مائیکرو سافٹ کے ذریعے ایک نئی دنیا تخلیق کی۔ ان حضرات کی شہرت دنیا کے دولت مند لوگوں کی حیثیت میں زیادہ ہے، جس کی وجہ سے ان کا اصل تاریخی کردار پس منظر میں چلا جاتا ہے ، جو انہوں نے انسانی سماج کو مکمل طور پر بدلنے میں ادا کیا، ان سب ایجادات کی وجہ سے ہم اس دور کو انفارمیشن ایج یا انفو ٹیک کا دور کہتے ہیں۔
اب اس انفارمیشن کے دور سے ہر کسی نے اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کیا۔ عام آدمی میں پہلے سے زیادہ آگاہی اور شعور آیا۔ وہ پہلے سے زیادہ آسانی سے باقی دنیا کے ساتھ معلومات کے تبادلے اور انٹرایکشن کے قابل ہوا۔ اس کے لیے کام اور روزگار کے زیادہ اور وسیع تر مواقع پیدا ہوئے۔ اور اس کے سماجی و معاشی حالات میں مثبت تبدیلیاں آئیں۔
اس ٹیکنالوجی کا کچھ نہ کچھ فائدہ سب کو ہوا مگر منظم گروہوں اور جماعتوں نے اس ٹیکنالوجی سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا۔ سیاست میں اپنے نظریات کے پرچار، لابنگ اور پیروکاروں کے جمع کرنے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے مدد دی۔ اور شاید سب سے زیادہ فائدہ مذہبی گروہوں نے اٹھایا، جن کو اس ٹیکنالوجی کے بغیر اتنے وسیع پیمانے پر ابلاغ کا موقع نہیں مل سکتا تھا۔ حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جو شروع میں اس ٹیکنالوجی کے سخت خلاف تھے۔ یا پھر ان قدامت پرستوں نے فائدہ اٹھایا جو اس ٹیکنالوجی کو شیطان کی ایجاد قرار دیتے تھے، جو صرف فحاشی پھیلا سکتی ہے۔ اور وہ اس کے کٹر دشمن تھے۔
زیادہ وسائل ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے اس ٹیکنالوجی کا سب سے زیادہ فائدہ حکومتوں نے اٹھایا۔ حکومتوں نے اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے گورننس کا نظام بہتر کیا۔ عام لوگوں تک ان کو براہ راست رسائی مل گئی۔ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے انہوں نے ریاستی اداروں کی کارکردگی اور صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کیا۔
ان بے پناہ جائز فوائد کے ساتھ ساتھ دنیا میں کچھ حکومتیں اس مفید ٹیکنالوجی سے ناجائز فائدے بھی اٹھانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی طاقت کو دیکھتے ہوئے انہیں یہ خدشہ رہتا ہے کہ کہیں یہ ٹیکنالوجی حکومتوں کی ناکامیوں کو بے نقاب کرنے میں نہ استعمال ہو؛ چنانچہ دنیا بھر میں بڑی تیزی سے سائبر قوانیں بنائے گئے۔ ان قوانین میں سائبر کرائمز کے خلاف قوانین قابل تعریف ہیں ۔ مگر ان قوانین کی آڑ میں حکومتوں نے یہ اختیار بھی لے لیا کہ وہ اپنے مخالفین کی زبان بندی کے لیے ان قوانین کا سہارا لیں۔ ناقد اور غیر مقبول آوازوں کو سامنے آنے سے روک سکیں۔ ظاہر ہے اس کے لیے وہی ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں، جو اس سے پہلے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی آواز دبانے کے لیے کیے جاتے تھے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو قدیم یونانی اور رومن سلطنتوں سے لے کر جدید دور کے حکمرانوں تک کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ ہر نئی ٹیکنالوجی، نئی سوچ اور نئے خیالات سے خوف زدہ رہے ہیں۔ پرنٹنگ پریس جب ایجاد ہوا تو ترکوں نے اس پر فوراً پابندی عائد کر دی تھی۔ علما نے اس کے خلاف فتوے دئیے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ مگر جو لوگ اس کے آگے بند باندھنے میں ناکام ہو چکے، اب وہ اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ تاریخ میں ہر جدید ٹیکنالوجی کے بڑے دشمن بالآخر اس سے سمجھوتہ کرتے رہے ہیں۔