ہم سائنس کے محتاج کیوں ہیں؟ اس لیے کہ سماج کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لیے سائنسی علوم ناگزیر ہیں۔ اس کے بغیر کسی بھی معاشرے میں انسان کا معیار زندگی بلند کرنا تو ایک طرف‘ زندہ رہنا تک مشکل ہے۔
سائنس کے بغیر سماج، حکومتیں اور ریاستیں یکسر بے بس اور ناکارہ ہیں۔ اس کے بغیر انسان ایک معمولی سی انفیکشن، نزلے اور بخار جیسے معمولی امراض کے آگے بے بس ہے۔ مہلک ترین بیماریوں اور تباہ کن قدرتی آفات کا مقابلہ سائنس کے بغیر ناممکن ہے۔ تمام قدرتی آفات اور بلائوں سے تحفظ یا ان کے ما بعد اثرات سے بچنے کے لیے سائنسی علوم و ایجادات پر تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ گویا انفرادی طور پر پیدائش سے لے کر لحد تک اور انسانی سماج کی ایک چھوٹی سی اکائی یعنی گھرانے سے لے کر ریاست جیسی عظیم اور پیچیدہ مشین تک ہم سب اپنی بقا کے لیے سائنس کے محتاج اور مرہون منت ہیں۔
ہماری تاریخ کے کئی عظیم المیے ہیں، جن میں کئی سال موت اور بیماری کے سال کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ موت اور بیماری کے ان سالوں میں برصغیر میں کئی بار ہزاروں لوگ ان معمولی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر گئے، جن کا آج ہم چٹکی بجانے میں علاج کرتے ہیں۔ ہیضہ، ملیریا اور ٹی بی سے ہر سال ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن جاتے تھے۔ ایک معمولی مچھر کئی کئی گائوں خالی کر دیتا تھا۔ رفتہ رفتہ سائنس نے ان حقیر وائرسز، بیکٹیریاز، مچھروں اور کیڑے مکوڑوں کے زہر کے تریاق دریافت کر لیے۔ اب صرف آٹھ دس مہلک بیماریاں باقی ہیں، جن کے علاج کی جستجو اور دریافت میں سائنس مصروف ہے، اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ آئندہ دس برسوں میں انسان کو ان موذی امراض سے بھی نجات مل جائے گی۔
گویا سائنس ہے تو سانس ہے۔ سانس ہے تو ہم ہیں۔ مگر بدلے میں سائنس کے بارے میں ہمارا کیا رویہ ہے۔ پاکستان میں صرف ان پڑھ ہی نہیں آبادی کی ایک بہت بڑی پڑھی لکھی اکثریت بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ یہ سب سائنس کا اعجاز ہے، اور سائنس انسانی زندگی کے تحفظ میں اتنا کلیدی کردار رکھتی ہے۔
میرا کئی پڑھے لکھے لوگوں سے اس موضوع پر کئی بار تفصیلی مکالمہ ہوا۔ ان میں سائنس میں پی ایچ ڈیز، میڈیکل ڈاکٹرز اور یونیورسٹی پروفیسرز شامل ہیں۔ بعض کے جوابات پر مجھے حیرت اور افسوس ہوا۔ ان میں سے کچھ کا خیال ہے کہ سائنس کچھ نہیں، جو کچھ کرتا ہے، وہ خدا کرتا ہے۔ یعنی وہ خدا تعالیٰ کی ذات کی برتری پر اپنے ایمان و ایقان کا اظہار کرنے کے لیے سائنس کی نفی کرتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو سائنس کو ایک مغربی اور مادی تصور قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارے ہاں جو علاج معالجے کے متبادل ذرائع ہیں، وہ سائنس اور مغربی ادویات سے زیادہ اثر رکھتے ہیں۔ ان متبادل ذرائع میں دھاگے تعویز سے لے کر جڑی بوٹیوں تک سب ذرائع شامل ہیں۔ مجھے ایک دفعہ بڑی حیرت ہوئی جب ایک پیشہ ور ڈاکٹر نے مجھے ایک معمولی مرض کے لیے دوا کے ساتھ ساتھ احتیاطاً ایک روحانی شخصیت سے تعویز لینے کی ہمدردانہ صلاح بھی دی۔
ہمارے ہاں ایک بڑے طبقے میں سائنس کے خلاف بغض موجود ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سماج کو ترقی یافتہ دنیا کے برعکس ابھی تک سائنس پر پورا بھروسہ اور یقین نہیں ہے۔ سائنس پر اس عدم اعتماد کا اظہار ہمارے تعلیمی اداروں اور تعلیمی نصاب میں صاف جھلکتا ہے۔ ہماری نصاب کی کتابوں سے زندگی، تخلیق، ارتقا اور نشوونما کے نظریات کو نکال دینا یا اس سے متعلق بحث نہ ہونا قابل اعتراض سہی، مگر سمجھ میں آنے والی بات ہے‘ مگر اگر بائیولوجی کا ایک پروفیسر اپنے شاگردوں کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ بائیولوجی ضرور پڑھو، مگر اس پر یقین مت کرو تو یہ عجیب بات ہے۔ یہی کیفیت دوسری قدرتی اور سوشل سائنسز کے بارے میں ہے۔ کیمیا، طب اور دوسرے شعبوں میں اساتذہ اس طرح کا تاثر دے کر طلبہ کو شک میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جب آپ کسی علم، نظریے یا عقیدے پر دل سے یقین ہی نہیں رکھتے، اس کے بارے میں شک و شبہات کا شکار ہیں تو اس کا عملی اطلاق کتنی دلجمعی اور یکسوئی سے کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو سائنس دشمن ماحول پایا جاتا ہے، اس کی موجودگی میں ہم سائنسی علوم سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے ، جو ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک نے اٹھایا ہے۔
آج کے دور میں ہمارے ہاں سائنس کی تعلیم میں جن چیلنجز کا سامنا ہے، وہ شاید نصف صدی پہلے نہیں تھا۔ ہمارے ہاں اب زندگی کے کسی بھی شعبے میں آزادانہ ریسرچ، مباحث اور مکالمے کی بہت کم گنجائش رہ گئی ہے اور سائنس کے خلاف تو ایک خاص تعصب پیدا کیا گیا ہے۔ یہ تعصب و بغض اسی صورت میں کم ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جائے کہ سائنس ایک ناگزیر ضرورت ہے جس نے انسانی تہذیب و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور سائنس کا آپ کے مذہب یا عقیدے سے کوئی تصادم نہیں۔
گویا اس وقت عقل و سائنس پر یقین رکھنے والوں کو دو محاذوں پر جہدوجہد کی ضرورت ہے۔ پہلا محاذ ہے‘ سائنس کے خلاف مروجہ ماحول کو بدلنا ہے‘ کیونکہ یہ ماحول بدلے بغیر سائنس سماج میں وہ جگہ نہیں لے سکتی جو اس کا حق ہے۔
دوسرا محاذ آزاد سائنس کا تحفظ ہے۔ ہمارے ہاں آزاد سائنس کا کوئی تصور نہیں۔ یہ ریاستیں ہیں جو سماجی اور معاشی ترقی کے اہداف مقرر کرتی ہیں‘ اور ان اہداف کے پیش نظر سائنٹیفک ریسرچ کے لیے فنڈنگ کرتی ہیں۔ چونکہ یہ فنڈنگ سماجی و معاشی ضروریات کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے، اس لیے ان سائنس دانوں کو ریسرچ کے لیے فنڈنگ نہیں دی جاتی ، جو حکومتی منصوبوں یا ایجنڈوں کے مطابق نہیں، یا جو سرکار کے لیے کام نہیں کر رہے ہوتے۔ اس طرح سائنس میں آزادانہ تحقیق کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، جو کھلا رہنا چاہیے۔
مگر اس سے بھی بڑھ کر سائنس کے ساتھ سماج کی سطح پر بہت ہی ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ سائنس پڑھنے اور پڑھانے والے خود اس پر یقین نہیں رکھتے۔ ہمارے بڑے بڑے سائنس دانوں کے رویے غیر سائنسی ہیں، جن کا برملا اظہار ان کی تحریر و تقریر میں ہوتا ہے۔ سائنس کو تعصبات سے آزاد کرنا ضروری ہے، جس کے بغیر سائنس ہماری سماجی و معاشی ترقی میں وہ کردار ادا نہیں کر سکتی ، جو اس نے ترقی یافتہ دنیا میں کیا ہے۔
ہمارے ہاں اس وقت سائنسی ریسرچ اور مباحث کے لیے وہ آزادی بھی میسر نہیں جو اسلامی دنیا میں آج سے کوئی ہزار سال پہلے تھی۔ اس وقت سائنسی نظریات اور سائنسی تعلیم کے لیے جو ساز گار ماحول میسر تھا، جسے ہم اسلام کا سنہری دور کہتے ہیں، وہ کیا تھا ؟ آٹھویں سے تیرہویں صدی کے دوران آرٹ اور سائنس کو پروان چڑھانے کے لیے ساز گار ماحول فراہم کیا گیا۔ تقریباً چار سو سال تک ریاست کا رجحان جنگوں کے بجائے امن اور باہمی تجارت کی طرف رہا، جس کی وجہ سے ایک روادار سماج معرض وجود میں آیا۔ اس دوران تعلیم کے میدان میں جو حیرت انگیز ترقی ہوئی، وہ ریاست کے اس رجحان کی مرہون منت تھی۔ علم کا ایک عقلی تصور اپنایا گیا جو یونانی فلاسفروں کے زیر اثر تھا؛ چنانچہ بغداد، دمشق اور قرطبہ میں ہر عقیدے، مذہب اور مکاتب فکر کے سکالر مباحث میں آزادانہ طور پر حصہ لیتے تھے۔ یونانی علم و فلسفے کا عربی زبان میں ترجمہ ہو رہا تھا۔ علم ، ادب اور سائنسی ترقی کے اعتبار سے یہ ایک آئیڈیل دور تھا۔ مگر بد قسمتی سے سن بارہ سو اٹھاون میں بغداد پر حملے اور تباہی کے بعد اس دور کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد قدامت پسند مکاتب فکر کو غلبہ حاصل ہو گیا، جو اب تک کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے۔ ہمار ے سائنس دشمن ماحول کی وجہ انہی قدامت پرست نظریات کا غلبہ ہے۔