''لوٹ کھسوٹ کے راج کو بدلو۔ چہرے نہیں سماج کو بدلو‘‘ ساٹھ اور ستر کی دھائی میں یہ نعرہ بہت مقبول تھا۔ یہ نعرہ ان لوگوں کی تخلیق تھا ، جن کا خیال تھا کہ اس وقت کی مروجہ سیاست میں انتخابات کا مطلب فقط چہرے بدلنا ہے۔ نئے انتخابات میں ایک سیاست دان، جو عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہتا ہے، اس کی جگہ اس جیسا دوسرا آجاتا ہے۔ مگر یہ صرف چہرے کی تبدیلی ہوتی ہے۔ انتخابات کے ذریعے نظام کو نہیں چھیڑا جاتا۔ محض ایک شخص کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرے کو بٹھا لیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں 'انتخاب نہیں، انقلاب‘ کا نعرہ بھی مقبول ہوا۔ چنانچہ یہ خیال بڑا عام ہوا کہ کسی سماج میں حقیقی تبدیلی کے لیے انقلاب ناگزیر ہے۔ یہ صرف خیال ہی نہیں تھا ، بلکہ عملی طور پر ساٹھ اور ستر کی دھائی میں دنیا میں انقلابی نظریات بہت مقبول ہوئے۔ اور دنیا کے کئی ممالک میں قومی جمہوری اور عوامی جمہوری انقلاب برپا بھی ہوئے۔
پاکستان میں بھی اس سوچ کے اثرات بڑے گہرے تھے۔ یہاں بنیادی تبدیلی کی خواہش عوام میں موجود تھی۔ ستر کی دہائی میں اس خواہش سے پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور عوامی لیگ نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ یہ تینوں پارٹیاں اپنے منشور میں کسی نہ کسی شکل میں بنیادی تبدیلی کی بات کر رہی تھیں، جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنے اپنے حلقہ اثر میں عوام سے بھاری تعداد میں ووٹ بھی لیے۔ اگرچہ ان کے منشور کے گہرے تجزئیے سے یہ ثابت کیا جا سکتا تھا کہ یہ لوگ کوئی حقیقی تبدیلی لانے میں ناکام رہیں گے، مگر یہ تجزیہ کرنے کے لیے میدان میں کسی حقیقی انقلابی پارٹی کی ضرورت تھی، جو اس وقت موجود نہ تھی۔ اگر ایسی کوئی چھوٹی موٹی پارٹی تھی بھی تو وہ زیرِ عتاب تھی یا زیرِ زمین، یا اسے سرکاری دھونس دھاندلی کے ذریعے کنارے کر دیا گیا تھا۔
بد قسمتی سے مذکورہ بالا پارٹیاں عوامی مینڈیٹ کے باوجودکوئی تبدیلی اس لیے بھی نہ لا سکیں کہ جمہوری عمل کے ذریعے حکومتیں بدلتی ہیں، مگر ارباب اختیار نہیں۔ سالہاسال کے مسلسل عمل میں نظام اپنی الگ جڑیں بنا چکا ہے۔ بیشتر جمہوری ممالک میں حقیقی اختیارات اداروں کے پاس ہیں۔ کوئی بھی نئی حکومت، خواہ وہ کتنی ہی انقلابی کیوں نہ ہو، اقتدار میں آنے کے بعد کوئی قابلِ ذکر یا نظر آنے والی تبدیلی نہیں لا سکتی۔ چنانچہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، مگر وہ کوئی دکھائی دینے والی تبدیلی لانے سے قاصر ہی رہتی ہیں۔
نئی آنے والی حکومت اپنی کار گزاری دکھانے کے لیے بہت کرے توکسی محکمے کو اضافی فنڈنگ دے دیتی ہے، افرادی قوت میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، جس سے لٹکے ہوئے معاملات میں تیزی آجاتی ہے ، یا کھٹائی میں پڑے ہوئے مسئلے تھوڑے جلدی حل ہو جاتے ہیں۔ مگر کوئی بھی حکومت جزوی طور بھی اہل حکم کے مزاج اور ان کی نفسیاتی ہیئت ترکیبی کو نہیں بدلتی۔
چنانچہ نئے آنے والے حکمران ایک طرح کی کاسمیٹک تبدیلی لاتے ہیں، اور نیچے گہرائی میں روز مرہ کا کاروبار پہلے کی طرح چلتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی حکومت کی کارگزاری اور پرانی حکومت کی کارگزاری میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ عملی طور پر حکومت اور ریاست کے بیشتر کام کاج وہی لوگ کر رہے ہوتے ہیں، جو پچھلی حکومت میں کرتے تھے۔ ان لوگوں کو نوکر شاہی، افسر شاہی یا کسی اور نام سے پکار لیں۔
پاکستان میں ہر آنے والی حکومت جو سیاسی لوگ ساتھ لے کر آتی ہے، ان میں بہت کم لوگ اس لفظ کے حقیقی معنوں میں نئے لوگ کہلائے جا سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روایتی طور پر پاکستان کی سیاست خاص قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ لوگ مختلف علاقوں اور نظریات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ مختلف سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر آتے ہیں، مگر بنیادی طور پر ان کا تعلق کہیں نہ کہیں جاکر اشرافیہ اور بالادست طبقات سے ہی جڑتا ہے۔ یہ جاگیردار یا بڑے زمیندار ہوتے ہیں، یا پھر وہ سیاست دان جو نسل در نسل اقتدار میں رہے ہوتے ہیں، جن کے اپنے طے شدہ حلقہ انتخاب ہوتے ہیں۔ یہ لوگ گاہے پارٹی بھی بدل کر آتے ہیں۔ پارٹی بدلنے کے باوجود ان کے حقیقی رویّے نہیں بدلتے۔ ان کے اپنے حلقے سے جڑے مفادات نہیں بدلتے۔ اور نہ ہی وہ طور طریقے بدلتے ہیں، جن کے ذریعے وہ اپنے حلقہ انتخاب میں اپنی گرفت قائم رکھتے ہیں۔
اس کی ایک تاریخی مثال ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ابھرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی تھی، اس پارٹی کے متعارف کردہ سوشلزم کے بینر تلے کئی بڑے جاگیر داروں اور زمینداروں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ منتخب ہو کر پارلیمان میں گئے۔ کچھ وزیر بھی بنے، مگر اپنے حلقۂ انتخاب کو انہوں نے جمہوریت سماجی و معاشی برابری ا ورشہری آزادیوں کی ہوا تک نہ لگنے دی۔
ستر کی دہائی کی قوم پرست نیشنل عوامی پارٹی کا معاملہ بھی مختلف نہیں تھا۔ اس پارٹی نے بائیں بازو کی انقلابی سیاست میں کئی قبائلی سرداروں کو شامل کیا، مگر ان نظریات کی کوئی جھلک ان کے سرداروں کے اطاعت گزاروں تک نہ پہنچ سکی۔ چنانچہ ہر نئی حکومت میں اول تو کوئی نیا چہرہ خال خال ہی ہوتا ہے ، اگر کوئی ہو بھی تو وہ کوئی باہر کا آدمی نہیں ہوتا، بلکہ وہ طاقت کی راہداریوں میں پہلے سے موجود کسی شخص کی جگہ لے لیتاہے۔
موجودہ حکومت کو شاید اس میں تھوڑا سا استثنادیا جا سکتا ہے، کہ کچھ نئے ممبران جو اس ملک کے ابھرتے ہوئے نئے دولت مند طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کو ان کے حصے کی جگہ دے دی گئی، مگر ان معدودے چند ممبران کے علاوہ، جن کے پاس کوئی قابل ذکر اختیار بھی نہیں، فیصلہ کرنے کا اختیار انہی لوگوں کے پاس ہے، جو خود یا ان کے خاندان گزشتہ تین چار دہائیوں سے اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کے وزرا کی اچھی خاصی تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے ، جو مشرف دور میں وزیر رہے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو کئی بار مختلف اور متضاد نظریات رکھنے والی حکومتوں کے نمایاں اور پسندیدہ وزیر رہ چکے ہیں۔ یہ کبھی تبدیلی والوں کے ساتھ ہوتے ہیں، اور کبھی کبھی تبدیلی دشمن حکمرانوں کے ادوار میں مستقل وزیر رہتے ہیں۔ اور وہ لوگ سب سے زیادہ جمہوریت، تبدیلی اور عوامی راج کی بات کرتے ہیں، جو جمہوری تحریکوں کو کچلنے اور تبدیلی کے راستے روکنے والی آمریتوں کے پسندیدہ اور پر جوش کارکن رہے ہیں۔
ان لوگوں کو اس راز کا پتہ ہے کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے۔ اور سیاسی معاملات میں تو ان کی یادداشت بہت ہی قلیل مدتی ہے۔ چنانچہ انہیں اپنی کارگزاری کی بنیاد پر مستقبل میں عوام کی طرف سے مسترد کیے جانے کا خوف نہیں ہوتا۔ گویا انہیں دوبارہ عوامی عدالت میں پیش ہونے اور ان کے احتساب کا ڈر نہیں ہوتا۔
ان ساری خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ جمہوریت کا کوئی متبادل نہیں ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ امر یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے یہ جمہوریت ہی ہے۔ اور ہم جمہوریت کے نام پر کسی فریبِ مسلسل کا شکار تو نہیں؟ جن ملکوں میں جمہوریت ایک مثالی اور لاجواب نظام بن کر ابھری ان میں دو کام ہوئے۔ ایک جمہوری نظام سے پہلے وہاں انقلاب کے ذریعے جاگیرداری اور قبائلی نظام کو بدلا گیا، اور ان سماجی و معاشی زنجیروں سے لوگوں کو آزاد کرا کر یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ کا استعمال کریں۔
دوسرے وہ ملک تھے، جہاں جمہوریت ایک سلسلۂ عمل میں سچی سماجی جمہوریت میں تبدیل ہوئی، جہاں انسان کو ووٹ کے ذریعے خود جمہوری عمل میںآزادی اور اعتماد بخشا گیا۔ یہ وہ عمل ہوتا ہے، جس میں لوگ اپنے تجربات سے سیکھتے ہیں۔ قدم بقدم اصلاح کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اپنی غلطیاں دہرانے سے گریز کرتے ہیں۔ اور بالآخر ایک کامیاب جمہوریت لانے میں کامیاب ہوتے ہیں، جس میں وہ اپنا مقدر اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں۔