کشمیر میں موسم بہار کی آمد آمد ہے۔ پھول کھلنے اور پرندوں کے چہچہانے کا موسم ہے۔ مگر اب کے یہ بہار اپنے جلو میں خوف اور جنگی جنون لائی ہے۔ بھارت میں کچھ لوگوں پر اس وقت جنگی جنون طاری ہے۔ جنگ باز قوتیں اس جنون کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ یہ جنون پھیلانے میں کئی قسم کے لوگ شامل ہیں‘ مگر ہندو قوم پرست اور شدت پسند قوتیں اس میں کئی امکانات دیکھتی ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر وہ ہندو قوم پرستی کا ایجنڈا آگے بڑھانا چاہتی ہیں‘ اور آنے والے انتخابات میں اس کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ ووٹ سمیٹنے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔
جنگ تاریخِ انسانی کا پرانا المیہ ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں جنگ باز قوتیں مختلف اشکال میں موجود رہی ہیں۔ ان قوتوں کا ایک بیانیہ رہا ہے، جس کا اظہار مختلف الفاظ میں ہوتا رہا ہے۔ تاریخ انسانی میں بے شمار جنگجو اور تشدد پسند حکمران گزرے۔ ان حکمرانوں نے بار بار اپنے ارد گرد کا امن برباد کیا۔ تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ معمولی معمولی باتوں پر جنگ کے میدان گرم کیے۔ لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کیے۔
صدیوں تک حکمران ہوس زر و زمین، ہوس ملک گیری اور طاقت کے حصول کے لیے وحشت و بربریت کے اس کھیل میں مصروف رہے۔ جنگ کسی دور میں بھی کوئی خوشگوار عمل نہیں رہا۔ خواہ یہ جنگ کسی بھی مقصد کے لیے لڑی گئی ہو، اور اس کا کوئی بھی نتیجہ نکلا ہو۔ جنگ ہر فریق کو زخم، دکھ اور مصائب دیتی رہی۔ اس میں فاتح و مفتوح سب شامل رہے ہیں۔
تاریخ میں بے شمار جنگیں توسیع پسندانہ عزائم کا نتیجہ تھیں۔ یہ جنگیں جیتنے والے تو جشن فتح مناتے تھے کہ اس وقت کئی منظم گروہوں اور ریاستوں کا ایک بڑا ذریعہ آمدن یہ جنگیں اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والا مال و دولت تھا‘ جس میں سونے چاندی کے ساتھ ساتھ، زمین، عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے، جنہیں فتح کے بعد لونڈیاں اور غلام بنا لیا جاتا تھا۔
وحشت و بربریت کے باوجود ہر زمانے میں ایسے لوگ موجود رہے، جو اس جنگ و جدل اور لوٹ مار کے خلاف تھے، جو عقل اور انسانیت کی بات کرتے تھے، مگر ان وحشیانہ ادوار میں ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں بیسویں صدی تک جاری رہا۔ بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے یہ جنگیں مال و دولت لوٹنے کی بجائے منڈیوں کے حصول، طاقت اور قدرتی وسائل کی تقسیم کی جنگیں بن چکی تھیں۔ بیسویں صدی میں پہلی اور دوسری‘ دونوں عظیم جنگیں منڈیوں کی تقسیم کی واضح مثالیں تھیں۔ ان جنگوں میں ماضی کے بر عکس جدید ٹیکنالوجی اور بیک وقت کئی ممالک کی فوجوں کی شمولیت کی وجہ سے وسیع پیمانے پر خون خرابہ ہوا۔ یہ جنگیں ایک ایسے وقت میں لڑیں گئیں، جب دنیا میں امن کی سوچ پیدا ہو رہی تھی۔ دنیا میں امن پسند تحریکیں شروع ہو چکی تھیں، جنگ کے خلاف نفرت اور امن کا شعور پیدا ہونا شروع ہو چکا تھا۔
اس شعور کے باوجود حکمران طبقات نے یہ سامراجی جنگیں چھیڑنے اور ان کو جواز دینے کے لیے جنون کا ماحول پیدا کیا۔ یہ جنون اس حد تک بڑھ گیا کہ کئی مغربی ممالک کے بڑے بڑے امن پسند اور جنگ دشمن شاعر، ادیب اور دانشور ان جنگوں میں عملی طور پر شریک ہونے پر مجبور ہوئے۔ کہیں ان جنگوں کو وطن پرستی یا وطن دوستی کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ کہیں ان کو انسانیت کی بقا کا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا۔ ان غیر منصفانہ سامراجی جنگوں میں شرکت پر مجبور ہونے والے کئی دانشور ان جنگوں میں حصہ لینے پر ساری زندگی معذرت اور تاسف کا اظہار کرتے رہے۔
اگرچہ جنگ میں بسا اوقات غیر سرکاری جنگجو گروہ اور تنظیمیں بھی شامل ہوتی رہی ہیں، لیکن اکثر جنگیں سرکاری اور ریاستی سطح پر لڑی جاتی رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایک سرکاری بیانیہ ترتیب دیا جاتا رہا ہے‘ جس میں کسی مخالف قوم، ریاست یا گروہ کو دشمن یا خطرہ قرار دیا جاتا ہے، جس سے جنگ ایک ناگزیر ضرورت قرار دی جاتی ہے۔ اس بیانیے کی بنیاد پر عوام کی حمایت لی جاتی ہے۔ یہ بیانیہ اتنا طاقت ور اور غالب حیثیت اختیار کر لیتا تھا کہ اکثریت اسے بلا چون و چرا تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی۔
یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہمارے زمانے میں ہو سکتا ہے کہ بیانہ تخلیق کرنے اور پھیلانے کے طریقہ کار یا شکل میں تھوڑی تبدیلی آئی ہو، مگر بنیادی طور پر اب بھی ملکوں اور قوموں کے درمیان جنگ و امن کے سوال پر سرکاری خواہش اور اس خواہش پر مبنی بیانیہ جنگ کے لیے بنیادیں فراہم کرتا ہے۔
حالیہ برسوں کی انسانی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ سال دو ہزار تین کے موسم بہار میں جب صدر بش اور اس کے ساتھیوں نے عراق پر حملے کا فیصلہ کیا تھا تو ''ویپن آف ماس ڈسٹرکشن‘‘ کا بیانیہ سامنے آیا۔ حالانکہ اس وقت دنیا میں کئی دوسرے ممالک ایسے تھے، جن کے پاس سچ مچ ''ویپن آف ماس ڈسٹرکشن‘‘ موجود تھے، اور وہ ان سے دوسروں کو دھمکاتے بھی تھے۔ امریکہ میں کچھ امن پسند اور جنگ مخالف دانشور ایسے تھے، جنہوں نے اس بیانیے کے خلاف آواز اٹھائی، مگر امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت سرکاری بیانیہ قبول کرنے پر مجبور ہوئی۔ جنگ مخالف لوگ یا تو خاموش ہو گئے یا ان کی آواز کو زیادہ پذیرائی نہ ملی۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری بیانیہ غلط ثابت ہو گیا، اور اس ذیل میں ایسے انکشافات ہوئے کہ خود سرکار کو سر عام اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ ان کی اطلاع اور بیانیہ غلط تھا۔ مگر اس اعتراف تک اتحادیوں کے ہاتھوں عراق کی تباہی کا عمل مکمل ہو چکا تھا۔ اس لیے اس اعتراف پر کوئی خاص رد عمل ہوا‘ نہ ہی اس وقت عراق پر نازل ہونے والی تباہی کا کوئی مداوا کیا جا سکتا تھا۔
پلوامہ دھماکے کے بعد بھارت کے اندر بھی کچھ اسی طرح کا رد عمل ہوا ہے۔ اس دھماکے کی وجہ سے بھارت سرکار اور سماج کے اندر موجود ہندو قوم پرست، شدت پسند اور جنگ باز قوتوں کو بہت فائدہ ہوا۔ انہوں نے اس واقعے کو بنیاد بنا کر اپنا بیانیہ بڑی قوت سے آگے بڑھایا۔ اس دھماکے کی وجہ سے بھارت کے اندر جو جذباتی فضا پیدا ہوئی اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہوں نے دو قسم کا ایجنڈا آگے بڑھایا۔ ایک تو خود بھارتی ریاست و سرکار پر دبائو کہ وہ رد عمل میں پاکستان کے خلاف کھلی طاقت کا استعمال کرے‘ یعنی اعلان جنگ کرے، جو برِ صغیر میں جنگ باز قوتوں کا دیرینہ خواب رہا ہے۔ اور دوسرا اس فضا کو بنیاد بنا کر بھارت کے اندر ایسا ماحول بنایا جائے، جس میں امن پسند اور انسان دوست قوتوں کو ہمیشہ کے لیے دیوار سے لگا دیا جائے۔ اس ایجنڈے کے دوسرے نکتے پر جنگ باز قوتوں کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ بلا استثنا پوری قوت سے جنگ باز قوتوں کے بیانیے کی حمایت پر مجبور ہو گئے۔ سماج میں عام سطح پر بھی ایسے اقدامات اور واقعات سامنے آئے، جو جنگ باز قوتوں کے ایجنڈے کو تقویت دینے کا موجب بنتے ہیں۔ ان میں جموں میں ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں پر حملے، بھارت میں کشمیری طلبہ اور دیگر کاروباری افراد کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اور ایسے دوسرے واقعات شامل ہیں۔ اس طرح بر صغیر میں امن و دوستی کی بات کرنے والے لوگوں کو بڑی حد تک دیوار سے لگا دیا گیا۔ ایسی سیاسی جماعتیں جن کا ایجنڈا برِ صغیر میں امن و آشتی رہا ہے، وہ بھی مجبوراً خاموشی اختیار کرنے یا جنگ باز قوتوں کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوئی ہیں۔ یہ وہ کیفیت ہوتی ہے، جس میں جنگ باز قوتوں کا بیانیہ ایک غالب بیانیہ بن جاتا ہے‘ اور جنگ مخالف قوتیں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے اور مباحثے کے محاذ پر پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ بھارت میں اس وقت یہی ہو رہا ہے۔ میدان بلا شرکت غیرے جنگ باز قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔ جس قوت سے اس وقت جنگی جنون کو ہوا دی جا رہی ہے، اس سے جنوبی ایشیا میں امن کی کوششوں کو شدید دھچکا لگے گا، اور جنگ باز قوتیں مضبوط ہوں گی۔ یہ جنوبی ایشیا کے امن و خوشحالی کے لیے بری خبر ہے۔