''میں ایک فیمنسٹ ہوں۔ میں ایک مدت سے اس سماج میں بطور عورت زندہ ہوں۔ یہ بڑی بے وقوفی کی بات ہو گی اگر میں خود اپنا ساتھ نہ دوں‘‘ یہ بات مشہور شاعرہ، دانشور اور ادیب مایہ انجیلو نے کہی تھی۔ مگر آج کے دور میں عورت کی طرف داری کے لیے عورت یا فیمنسٹ ہونا ضروری نہیں۔ دنیا بھر میں لاکھوں مرد عورتوں کے حقوق کی لڑائی میں ان کے طرفدار اور پُرجوش حامی ہیں۔ ان میں بڑے بڑے سیاستدان، شاعر، ادیب اور دانشور ہی نہیں، عام لوگ بھی شامل ہیں۔
گزشتہ دنوں باقی دنیا کی طرح ٹورانٹو شہر میں بھی خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ شہر میں مختلف الخیال خواتین نے مختلف تقاریب منعقد کیں۔ زندگی کے مسائل پر اپنے اپنے نقطۂ نظر سے روشنی ڈالی۔ اپنے دکھ درد بیان کیے۔ اپنا اپنا غصہ اتارا‘ اور زندگی کے بارے میں اپنی بصیرت اور تخیل کا اظہار کیا۔
گزشتہ کئی برسوں سے مجھے ایسی تقریبات میں جانے کا اتفاق ہوتا رہا ہے، جہاں مردوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ اور جو اکا دکا مرد ہوتے ہیں، ان کو بھی غالباً محض ''پنچنگ بیگز‘‘ کے طور پر ہی بلایا جاتا ہے۔ ان تقاریب میں کئی خواتین بڑی پُرمغز اور پُرجوش تقاریر سے یہ ثابت کرتی ہیں کہ اس دنیا کے تمام غموں اور دکھوں کا سرچشمہ صرف مرد ہیں۔ اور اگر مرد نہ ہوتے یا ایسے ہوتے، جیسا ان عورتوں کے خیال میں ان کو ہونا چاہیے تھا، تو یہ دنیا رہنے کے لیے ایک مختلف جگہ ہوتی۔ ان کے خیال میں کائنات کی ساری بے رنگیوں اور اداسیوں کا ذمہ دار فقط مرد ہے۔
مجھے گزشتہ برسوں میں ایسی تقریبات میں بھی جانے کا اتفاق ہوا، جہاں زیادہ تر کھانا گرم کرنے، برتن دھونے جیسے گھریلو اور ذاتی قسم کے مسائل زیر بحث تھے۔ یہ تقریبات زیادہ تر پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور مشرق وسطیٰ کی خواتین پر مشتمل تھی۔ میں نے ایک خاتون سے سوال کیا: مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ لوگ کھانا گرم والا مطالبہ کیوں کر رہی ہیں‘ کھانا گرم کرنے سے پہلے پکانا پڑتا ہے‘ جو گرم کرنے سے مشکل اور وقت طلب کام ہے۔ اس نے بتایا کہ ابھی مردوں سے کھانا پکانے والا مطالبہ کرنا بہت اگلی بات ہے‘ ہم ایک وقت میں صرف ایک قدم اٹھا رہے ہیں‘ ہمارے خیال میں مرد ابھی اس قابل نہیں ہوا کہ اس سے اتنا بڑا سنجیدہ کام لیا جا سکے۔ ان تقاریب میں گاہے مغربی عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں، مگر ان کا معاملہ اب کھانا گرم کرنے سے آگے بڑھ چکا ہے کہ محنت کی تقسیم کاری میں برابری کے اصول کو عمومی طور تسلیم کیا جاتا ہے۔ اب ان کے درمیان وجۂ تنازعہ وفا اور بے وفائی، جمالیاتی و جذباتی معاملات تک محدود ہوتا جا رہا ہے۔
میں نے کچھ ایسی تقریبات بھی دیکھی ہیں، جن میں مرد اور عورتیں‘ دونوں بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ مل بیٹھ کر کھلا مکالمہ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں دنیا کو مرد اور عورت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے ایک انسان کے نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اس طرح وہ مسائل سمجھنے میں مدد ملتی ہے‘ جن کا بنی نوع انسان کو مشترکہ طور پر سامنا ہے۔ غربت، بھوک، ننگ، ظلم، ناانصافی، جنگ اور محرومیاں ایسے سنگین مسائل ہیں، جو انسان کو بلا امتیازِ جنس درپیش ہیں۔
آج عورتوں کی طرف سے گوناگوں اور ریڈیکل قسم کے مطالبات کرنے پر جو لوگ عورتوں کا مذاق اڑاتے ہیں یا ان پر تنقید کرتے ہیں وہ حق بجانب نہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں‘ عورت تاریخی اعتبار سے مرد کی نسبت کم خوش قسمت رہی ہے۔ جب سے روئے ارض پر پدرسری سماج قائم ہوا ہے‘ اس کے ایک بہت بڑے حصے میں عورت ظلم اور ناانصافی کی چکی میں پستی آ رہی ہے۔ اس کے دکھ درد دوہرے ہیں۔ ایک وہ دکھ درد ہیں جو وہ مرد کے ساتھ مل کر سہتی ہے۔ یہ سماج کے اندر موجود غربت، پسماندگی اور طبقاتی ناہمواریوں جیسے دکھ ہیں۔ دوسرے وہ دکھ ہیں جو مرد اسے دے رہا ہے یا مرد کی وجہ سے وہ کچھ دکھ سہنے پر مجبور ہے۔
کھانا گرم کرنا ایک علامتی بات ہے‘ جو دراصل محنت کی منصفانہ تقسیم کا سنجیدہ مسئلہ ہے؛ چنانچہ عالمی دن کے موقع پر عورتوں نے جتنے مطالبات یا شکوے کیے، وہ سب جائز ہیں۔ ان میں سے کچھ بہت ہی سنگین ہیں۔ یہ مسائل خواتین کے نا گفتہ بہ حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانے کا پیمانہ اس رد عمل بلکہ مزاحمت سے ہوتا ہے، جو ہمیں سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں عالمی دن کے موقع پر نظر آتا ہے۔ یہ رد عمل ڈرا دینے والا ہے۔ اس رد عمل کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کو تو چھوڑیں ہمارے دانشوروں کے دل میں بھی عورت کے خلاف کس قدر نفرت ہے۔ ان کی آزادی اور مساوی حقوق کی بات پر وہ کس قدر غضبناک ہو جاتے ہیں۔ اس پدرسری معاشرے میں مردوں نے عورت کے خلاف ظلم کا جو نظام قائم کر رکھا ہے، وہ ان کے لیے کس قدر مقدس ہے۔ اور اس سماج میں جہاں مردوں کا غلبہ ہے، کس طرح ان مردوں نے بھی‘ جو شعور رکھتے ہیں‘ عورتوں کے حقوق کے سوال پر خاموشی کی سازش میں شرکت کی۔ چنانچہ خاموشی کی اس سازش کو توڑنے اور عورتوں کے کم از کم حقوق کی بحالی کے کے لیے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ عورت حقیقتاً ہمارے معاشرے میں ناانصافی کا شکار ہے، اور اس کے سب مطالبات جائز ہیں۔ کوئی مسئلہ چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ جس کو جو مسئلہ درپیش ہوتا ہے، وہی اس کے لیے سب سے سنگین مسئلہ ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ بعض کم سنگین مسائل پر زیادہ توجہ سنگین مسائل سے توجہ ہٹا دیتی ہے۔
ہمارے سماج میں عورت کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں ایک بڑا مسئلہ غیرت کے نام پر قتل ہے۔ اگرچہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، جس میں عورت اور مرد‘ دونوں متاثر ہوتے ہیں، مگر یہ مسئلہ براہ راست عورت سے جڑا ہے، جس کا پہلا اور آخری شکار ہمیشہ عورت ہی ہوتی ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ جنسی زیادتی ہے۔ ایسی زیادتی کی کئی شکلیں اور روپ ہیں۔ اس جرم کا ارتکاب عورت کے خلاف گھر کی چاردیواری سے لے کر دفاتر تک مختلف جگہوں پر ہوتا ہے۔ اس میں جنسی طور پر ہراساں کرنے سے لے کر ریپ جیسا سنگین جرم شامل ہے۔ اس معاملے کو دبا دینا اور عورت کو خاموش رہنے کی تلقین کرنا یا مجبور کرنا اس جرم کی سنگینی کو بڑھا دیتا ہے۔
عورت کو مختلف قسم کے ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا بھی ہمارے ہاں عام ہے۔ ہمارے ہاں نام نہاد علما بیوی کو پیٹنے کے حق میں فتوے دینا اور پیٹنے کے طریقے بتانا عام سی بات سمجھتے ہیں۔ اس طرح ہمارے سماج میں گھریلو تشدد سے لے کر عورتوں کے چہروں پر تیزاب پھینکنے تک جیسے سنگین ترین جرائم‘ عام بات تصور کی جاتی ہے۔
ہمارے سماج میں جنسی بنیاد پر ناانصافی کے عام مظاہر میں بچیوں کو اولاد نرینہ کے مقابلے میں تعلیم کے کم مواقع میسر ہونا ایک عام ناانصافی ہے۔ کم عمری میں زبردستی بچیوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دینے کا بھی عام چلن ہے۔ مذہب اور ثقافتی روایات میں عورتوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے کافی مواد موجود ہے۔ مگر اس مواد کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف مذہب اور ثقافت کے نام پر عورت کو وراثت سے محروم کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائی جاتی۔ دوسرے سماجی اور قانونی معاملات میں بھی یہی رویہ اپنایا جاتا ہے۔
سماج میں بڑے پیمانے پر سرکاری اور نجی ملازمتوں میں شدید نابرابری، اور معاوضے میں وسیع فرق ایک ایسا موضوع ہے، جس پر ابھی ہمارے ہاں بحث کا آغاز ہی نہیں ہوا۔
یہ ساری نا انصافیاں اور سماجی نا ہمواریاں بہت سنگین اور حقیقی ہیں۔ مختلف قسم کی سمتوں اور ترجیحات سے قطع نظر ان نا انصافیوں اور نا ہمواریوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ گلوریا سٹائنم نے کہا تھا: عورت کی مساوات کے لیے جہدوجہد کی کہانی کسی ایک نسوانیت پرست یا کسی ایک تنظیم کی کہانی نہیں ہے، یہ ان سب کی اجتماعی کوشش ہے جو انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں۔