جمہوریت ایک عظیم نظام ہے۔ بہترین طرز زندگی ہے۔ اس کی ان گنت برکات ہیں۔ اس نظام کی برکات سے عوام کو بہت فائدہ ہوتا ہے، مگر یہ سیاست دان ہیں، جو اس سے سب سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں۔
سیاست دان بھی عوام کا حصہ ہیں۔ مگر عوام کے بر عکس انہیں ایک مقررہ مدت کے لیے دوبارہ عوام کے پاس جانا پڑتا ہے۔ گویا جس طاقت اور اقتدار کا وہ لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں، اس کو جاری رکھنے کے لیے ہر بار عوام کی تائید و حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضرورت کے پیش نظر بسا اوقات سیاست دان خود غرضی پر اتر آتے ہیں، اور جمہوریت کی رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔
جمہوریت میں عوام کی حمایت اور تائید ہی واحد چیز ہے، جو اقتدار کی ضمانت ہے۔ اقتدارکے لیے سیاست دان کہاں تک جا سکتے ہیں؟ اس کی دنیا کی جمہوریتوں میں بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اور آج جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے، اس عمل کی ایک اہم مثال ہے۔ حزب اختلاف جو الزامات نریندر مودی پر لگا رہی ہے، اگر وہ درست ہیں تو یہ بھارتی جمہوریت کے لیے بہت بری خبر ہے۔
اگرچہ بھارتی جمہوریت جم چکی ہے‘ اور گزشتہ ستر سال کی مسلسل مشق کے بعد یہ جڑ پکڑ چکی ہے‘ مگر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ یہ تمام آلائشوں سے پاک ہو چکی ہے۔ اس میں کیا آلائشیں ہیں۔ کیا کیا نا ہمواریاں ہیں؟ اس کے مختلف مظاہر کا اندازہ آنے والے انتخابات کے تناظر میں سیاست دانوں کی حرکات و سکنات، بیانات، الزامات اور جوابی الزامات سے ہو رہا ہے۔ اس کی ایک جھلک میڈیا پر بھی دیکھ جا سکتی ہے، جو اپنی مرضی کی پارٹی کے لیے گلا پھاڑ کر چیخنے چلانے کا میچ کھیل رہے ہیں۔
سیاست دان اقتدار کی خاطر کہاں تک جا سکتے ہیں؟ اس کی ایک جھلک وہ الزامات ہیں جو بھارتی حزب مخالف مودی پر لگا رہی ہے۔ ان میں سے کچھ الزامات بہت سنگین ہیں۔ بھاری اکثریت سے عوام کے ووٹ لے کر پانچ سال تک ملک پر حکومت کرنے کے بعد دوبارہ انتخابات جیتنے کے لیے کسی سیاست دان پر اس طرح کے الزام دھرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایک برسر اقتدار سیاست دان پر یہ الزام لگائے جا رہے ہیں کہ وہ انتخابات کے لیے اپنے ہی فوجیوں کو مروانے کی سازش کر سکتا ہے‘ اور پھر ان کی موت کو بہانہ بنا کر پورے ملک کو جنگ کی بھٹی میں جھونک سکتا ہے‘ نیوکلیائی ہتھیاروں سے لیس دو ملکوں کے درمیان ایک خوفناک جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ ان الزامات میں اگر ایک فیصد بھی سچائی ہے تو یہ بڑی خوفناک بات ہے۔ انتخابات مختلف گروہوں اور افراد کے درمیان عام لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کا میچ ہوتا ہے۔ یہ میچ جیتنے کے لیے دونوں اطراف کے کھلاڑی کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ تاہم اگر وہ اس میچ کو ایک خون آلود کھیل میں بدل کر اپنی جیت یقینی بنانا چاہیں تو یہ پریشان کن عمل ہے، جو جمہوریت کی روح پر حملے کے مترادف ہے۔ میچ کھیلنے والے سیاست دان حزب اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں‘ دونوں پر جھوٹ بولنے یا مخالفین پر جھوٹے الزامات لگانے کا الزام لگتا رہا ہے۔
سیاست دان جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟ اس موضوع پر حال ہی میں میں نے ایک امریکی ماہر نفسیات کا مضمون پڑھا ہے۔ اس نفسیات دان نے سیاست دانوں کے جھوٹ بولنے کی کئی وجوہات بیان کی ہیں۔ اس نے جن چیزوں کی نشاندہی کی ہے وہ ہمارے سیاست دانوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
پہلی وجہ نرگسیت پسندی ہوتی ہے۔ نرگسیت پسند سیاست دان مغرور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو سپیشل یعنی خاص الخاص سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی تعریف کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہیں‘ اور وہ اپنے آپ کو اس کا بہت زیادہ حق دار سمجھتے ہیں۔ وہ دوسروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے‘ بلکہ اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایسا کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ نرگسیت پسندی کی وجہ سے انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ سچ پر ہیں‘ اور اگر سچ پر نہیں ہیں تو پھر بھی ان کو یقین سا ہوتا ہے کہ ان کا جھوٹ یا فریب کبھی پکڑا نہیں جائے گا، اور ان کو اپنے کیے کی سزا یا نتیجہ نہیں بھگتنا پڑے گا۔ ان کی نرگسیت پسندی ان کو مسلسل یقین دلاتی رہتی ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں، اور اس کے نتائج کنٹرول کر سکتے ہیں۔
دوسری وجہ سیاست دانوں کا اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ ان کے پیروکار ان کے خلاف ناقابل تردید ثبوت ہونے کے باوجود بھی ان کی بات کا یقین کر لیں گے۔ سیاست دان اور ان کے حامی ایک ایکو چیمبر میں رہتے ہیں۔ اس ایکو چیمبر میں وہ ایک ہی طرح کے نیوز چینل دیکھتے ہیں، ایک ہی طرح کا ریڈیو سنتے ہیں، ایک ہی طرح کے اخبارات پڑھتے ہیں۔ ایک ہی طرح کی ویب سائٹس دیکھتے ہیں۔ اور یہ ہر وقت صرف اپنے ہم خیال لوگوں کے جھرمٹ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ارد گرد ایک حفاظتی دیوار بنائی ہوتی ہے، جو کسی بھی مخالفانہ رائے کو ان تک پہنچنے سے روکتی رہتی ہے؛ چنانچہ نہ تو وہ مخالفانہ رائے سننے کے عادی ہیں، اور نہ ہی اس پر یقین کرتے ہیں۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ اکثر سیاست دان سچ سننا پسند نہیں کرتے۔ سچ سب کو برا لگتا ہے۔ کوئی بھی ایسی بات نہیں سننا چاہتا، جو اس کے وجود کے لیے خطرہ ہو، اس کے نظریات و عقائد کے خلاف ہو، اور جو بات اس کو بے سکون کر سکتی ہو۔ اس کو پریشان کر سکتی ہو۔ اس لیے سیاست دان عوام سے ہمیشہ وہ بات کرتے ہیں، جو انہیں اچھی لگے۔ انہیں سکون، اطمینان اور امید بخشے۔ بری خبر دینے والے سیاست دان کو کون ووٹ دے گا؟ ووٹ تو اکثر اس شخص کو جاتے ہیں، جس کی ہر کہانی کا اختتام ہیپی اینڈنگ ہوتا ہے۔
چوتھی وجہ انٹر نیٹ ہے۔ انٹر نیٹ میں ایک دفعہ جو چیز آ گئی وہ مستقل طور پر وہاں رہ جاتی ہے۔ عام لوگ مخالف امیدوار کے خلاف موجود جھوٹے بلاگ اور ای میل پر سچ کی طرح یقین کرتے ہیں۔ اس بات کا سیاست دان کو علم ہے؛ چنانچہ وہ مخالفین کے خلاف جھوٹی افوائیں پھیلاتے ہیں کہ کچھ لوگ تو ان پر یقین کریں گے۔
پانچویں وجہ یہ ہے کہ سیاست دان جانتے ہیں کہ اگر جھوٹ کثرت سے بولا جائے تو کچھ لوگ اسے سچ مان لیتے ہیں۔ کثرت اور تسلسل سے جھوٹ بول کر عوام کو سچ منوانے کے حوالے سے تاریخ میں بے شمار واقعات ہیں۔ اور پھر اس اپنے تخلیق کردہ سچ کی روشنی میں تباہ کن فیصلے کرنے کی مثالوں سے بھی تاریخ بھری پڑی ہے۔ صدام حسین کی ملکیت میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار اس کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ سال دو ہزار دو میں صدر بش نے دنیا کو بتایا کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی اور بائیولوجیکل ہتھیار ہیں، اور وہ نیوکلیئر بم بنا رہا ہے۔ دو ہزار تین میں عراق کے خلاف اسی بنیاد پر اعلان جنگ کر دیا گیا۔ اس جنگ میں ہزاروں عراقیوں اور امریکیوں کی جانوں کے علاوہ ایک اندازے کے مطابق دو اعشاریہ پانچ کھرب ڈالر کا نقصان بھی ہوا تھا۔
ویت نام جنگ میں امریکی سیاست دان، سرکاری اہل کار اور دانشور جانتے تھے کہ یہ جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ مگر صدر جانسن اور ان کی رخصتی کے بعد صدر نکسن عوام کے سامنے جان بوجھ کر جنگ جیتنے کا جھوٹا دعویٰ کرتے رہے۔ کئی سال بعد پینٹاگون پیپرز کے سامنے آنے کے بعد یہ واضح ہوا کہ دونوں صدور عوام سے اصل بات چھپاتے رہے کیونکہ وہ ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس جنگ میں نوے ہزار کے قریب امریکی مارے گئے، جسے کبھی شروع ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔
یہ صرف امن اور جنگ کی ہی بات نہیں ہے، معاشی‘ سیاسی اور سماجی معاملات میں بھی کئی سیاست دانوں کے غلط فیصلوں، غلط بیانی یا حقائق کو درست طور پر بیان نہ کرنے کے عمل سے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں؛ چنانچہ ایک جمہوریت میں عوام کا کردار محض حکمرانوں کے انتخابات تک محدود نہیں۔ اس کا اصل کردار حکمرانوں کے روزمرہ کے فیصلوں پر بھی کڑی نظر رکھنا ہے۔ عوام کی لا تعلقی سے جمہوریت ایک منتخب طبقے کی آمریت میں ڈھل سکتی ہے۔