شام، یمن اور افغانستان میں بچوں کی ہلاکت کا برا ہ راست ذمہ دار امریکہ ہے۔ یہ بات کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے کہی ہے۔ پوپ نے یہ بات ویٹیکن سٹی میں گزشتہ دنو ں امریکی طلبہ اور اساتذہ کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ پوپ فرانسس کی ذات یا ان کے نظریات سے بہت لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر پوپ نے جو بات کی ہے، وہ نا صرف اہم ہے، بلکہ جدید دور کے تمام اعداد و شمار کی روشنی میں سچ بھی ہے۔ حقائق کی روشنی میں نا قابل تردید حقیقت ہے۔
امریکہ اس وقت اسلحہ فروخت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اسلحہ فروخت کرنے والے دس ممالک کی فہرست میں امریکہ، روس، چین، فرانس، جرمنی، برطانیہ، سپین، اٹلی، یوکرین اور اسرائیل شامل ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک کی فہرست میں ملکوں کی درجہ بندی کے حوالے سے تبدیلی آتی رہتی ہے‘ لیکن گزشتہ پانچ چھ دہائیوں کے دوران ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا نام اس فہرست میں ہمیشہ پہلے یا دوسرے نمبر پر رہا ہے۔ دنیا میں سب سے زیاد ہ اسلحہ فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں جنگوں میں ملوث ہونے اور بذات خود جنگی ہتھیار استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں بھی امریکہ کا نام ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔
دنیا بھر میں اسلحہ فروخت کرنے والے بڑے ممالک کی آمدنی اور روزگار کا قابل ذکر حصہ اس کاروبار پر انحصار کرتا ہے۔ جنگی ساز و سامان، اسلحہ سازی اور اس کی تجارت میں مصروف بیشتر کمپنیاں انہی ترقی یافتہ ممالک میں قائم ہیں۔ ان کمپنیوں میں لوک ہیڈ، بوئنگ، ائیر بس، بی اے ای سسٹم، یونائیٹڈ ٹیکنالوجیز جیسی کارپوریشنز سر فہرست ہیں۔ ان کمپنیوں سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ ان کمپنیوں کا تعلق امریکہ ، برطانیہ، اٹلی، فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک سے ہے۔
تاریخی طوردنیا کے مختلف خطوں میں پائے جانے والے تنازعات اور اسلحہ کی تجارت کا آپس میں گہرا تعلق رہا ہے۔ اس معاملے میں صرف امریکہ اکیلا نہیں، بلکہ فہرست میں موجود بیشتر ممالک کسی نہ کسی طریقے سے ان تنازعات کا حصہ رہے ہیں۔ ان میں وہ ممالک بھی ہیں، جو اقوام متحدہ میں ویٹو کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔ عالمی سیاست میں اس اہم ترین قانونی اختیار کے علاوہ ان ممالک کو دیگر کئی حوالوں سے عالمی سیاست میں ایک اہم مقام اور خاص وزن حاصل ہے؛ چنانچہ یہ دنیا بھر میں امن و جنگ کے سوال پر فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ویٹو کے اختیار اور اقوام متحدہ میں غیر معمولی اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ اس عالمی ادارے کی قوت کو استعمال کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ عالمی ادارے میں اپنی اس طاقت کو یہ ممالک کئی طریقوں سے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس قوت کو ایک طرف تو مذمتی یا سفارشی قراردادوں کے ذریعے استعمال کر سکتے ہیں۔ اور دوسری طرف اہم اور فوری نوعیت کے معاملات میں طاقت کے استعمال، فوج کشی اور سخت پابندیوں جیسے اقدامات بھی کر سکتے ہیں۔ عالمی ادارے میں اپنے اثر و رسوخ کے استعمال کے علاوہ یہ انفرادی حیثیت میں بھی دنیا کے کئی ممالک پر اثر رکھتے ہیں۔ اس اثر و رسوخ کی بنیاد‘ دو طرفہ تعلقات میں بہت سارے معاملات میں دوسرے ممالک کا ان بڑے ممالک پر انحصار ہے۔ اس میں تعلیم، صحت، سائنس، ٹیکنالوجی، معاشی امداد سمیت کئی دوسرے عوامل شامل ہیں۔
یہ ممالک عالمی مالیاتی اداروں پر بھی خاص اثر و رسوخ رکھتے ہیں، جو غریب ممالک کی ایک مستقل ضرورت ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کو ان ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ عالمی ادارے کے ذریعے اور پھر براہ راست دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ رکھنے کے باوجود یہ ممالک مختلف تنازعات کا پُر امن حل نکالنے میں بہت کم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں، یا اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
ان دس ممالک کی فہرست میں اگر اسلحہ کی تجارت میں ملوث کچھ دوسرے درجے کے ممالک کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد تقریباً پندرہ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح آج ایک طرف تو دنیا میں یہ دس پندرہ ممالک ہیں، جو جدید ٹیکنالوجی رکھتے ہیں، اور ان کے پاس اسلحہ سازی کے کارخانے اور مہارت ہے۔ اور دوسری طرف اسلحہ خریدنے والے دس پندرہ ممالک ہیں۔ دنیا کی سیاست ان بیس تیس ممالک کے گرد گھومتی ہے۔
اسلحہ خریدنے والے دس بڑے ممالک کی صورت حال کافی پیچیدہ ہے۔ دنیا میں اسلحہ خریدے نے والے دس ممالک میں بھارت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عوامی جمہوریہ چین، آسٹریلیا، الجیریا، ترکی، عراق، پاکستان اور ویت نام شامل ہیں۔ اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ یہ فہرست سال دو ہزار سولہ کی ہے، جو دنیا کے مستند اداروں نے اپنی رپورٹوں میں تسلیم کی ہے۔
سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ان دس ممالک میں پانچ مسلم ملک ہیں، جن کو صرف ملک کے اندر دہشت گردی اور دوسری مسلح قوتوں کا سامنا ہے، بلکہ ان ممالک کے اڑوس پڑوس میں مختلف مسلح تحریکیں اور مسلح تصادم چل رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ممالک کو اپنے ہی پڑوسی مسلم ملکوں یا ان کے اندر موجود مسلح گروہوں اور دہشت گردوںسے خطرہ ہے۔ ان میں ترکی، پاکستان، سعودی عرب اور عراق وغیرہ شامل ہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ کے خریدار ان ممالک میں وہ ملک بھی شامل ہیں، جہاں دنیا کے غریب ترین لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ ان ممالک میں پاکستان، بھارت اور چین سر فہرست ہیں؛ اگرچہ بھارت اور چین بڑی تیز رفتاری سے ترقی کے راستے پر گامزن ہیں۔ ان دو ممالک نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اپنی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو غربت سے باہر نکالا بھی ہے اس کے باوجود ابھی تک چین اور بھارت میں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ اگرچہ غربت کی پیمائش کے فارمولے پر اختلاف موجود ہے، جس کی وجہ سے چین اور بھارت کا خیال ہے کہ ان ممالک میں غریب اتنی تعداد میں موجود نہیں، جتنے دکھائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ تعداد جو بتائی جا رہی ہے، اگر اس سے تھوڑی کم بھی ہے تو پھر بھی غربت یہاں کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ پاکستان میں بھی غریبوں کی تعداد پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے، مگر غربت ایک سنگین مسئلہ ہے، جس پر عام طور پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ اعدا و شمار پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ ملک میں حکومت سمیت تمام دانشور اور محقق غربت کو ایک بڑا مسئلہ تسلیم کرتے ہیں، جس کے حل کے لیے تیز رفتار اقدامات کی ضرورت ہے۔
دنیا میں اسلحہ کی خرید و فروخت کا کاروبار دو چیزوں پر چلتا ہے۔ ایک تو کچھ ممالک کے درمیان حل طلب تنازعات ہیں۔ ان تنازعات میں سرحدی یا علاقائی تنازعات شامل ہیں۔ ان تنازعات کی موجودگی حکومتوں کو اسلحہ کی خریداری کا جواز مہیا کرتی ہے۔ ان تنازعات کی وجہ سے وسائل کا ایک بڑا حصہ عوامی مسائل کے حل کے بجائے اسلحہ کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے۔
یہ جاننا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ دنیا بھر میں تنازعات کا حل صرف باہمی گفت و شنید اور پُر امن بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت ہی نکالا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ دنیا میں بے شمار جنگیں ہو چکی ہیں، مگر ان جنگوں سے تاریخ میں کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ تنازعات کا آخری اور حتمی حل بہرحال ہمیشہ باہمی گفت و شنید یا ثالثی ہی رہا ہے۔ اگر اس تاریخ سے کچھ سبق سیکھا جائے اور باہمی تنازعات کا حل گفت و شنید سے نکالا جائے تو غریب ممالک کے بے تحاشا وسائل‘ جو اسلحے کی تجارت پر خرچ ہو رہے ہیں، ان ممالک کے غریب لوگوں پر خرچ کیے جا سکتے ہیں۔
پوپ سچ کہتا ہے۔ امریکہ ذمہ دار ہے۔ مگر محض یہ کہنا سننا کافی نہیں۔ دنیا کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ امن کا واحد اور حتمی راستہ گفت و شنید ہے۔ اور غریب ممالک کی بقا اور ترقی جنگ میں نہیں امن میں مضمر ہے۔