'دانش کی کمی خطرناک ہے مگر دانش کی کمی سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ انسان اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ اس کے پاس علم و دانش ہے‘ کسی نا معلوم دانشور کا یہ قول ہمارے نظام تعلیم پر صادق آتا ہے۔ ہمارا فرسودہ نظام تعلیم ہمیں دانش کی غلط فہمی میں مبتلا کرتا ہے۔ ہمارے پاس ڈگریاں تو ہوتی ہیں، مگر علم و دانش نہیں ہوتا۔ موجودہ حکومت کی تشکیل سے پہلے نیا پاکستان بنانے والوں کا خیال تھا کہ ہمارا تعلیمی نظام فرسودگی کا شکار ہے۔ یہ نظام کوئی مثبت نتائج نہیں دے سکتا‘ لہٰذا اس کو بنیاد سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے نظام تعلیم میں بنیادی تبدیلی کے کئی وعدے کیے تھے۔ اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ پہلی حکومت نہیں، جس نے نظام تعلیم میں تبدیلی کی بات کی۔ اس سے پہلے بھی ہر ایک حکومت کی طرف سے ایسے وعدے ہوتے رہے، اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ زور و شور اور یقین کے ساتھ ہوتے رہے۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان سے پہلے یعنی تحریک پاکستان کے دوران ہی شروع ہو گیا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد اس میدان میں پہلی بڑی کوشش تعلیمی کانفرنس سے ہوئی، جو نومبر انیس سو سینتالیس میں کراچی میں ہوئی۔ اس کانفرنس کے کنوینر خود قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ ناساز طبیعت کے باعث وہ خود تو اس کانفرنس میں شریک نہ ہو سکے، مگر اپنے تحریری پیغام میں انہوں نے اس کانفرنس میں ایک جدید تعلیمی نظام کی ضرورت پر زور دیا تھا، جو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ کانفرنس کی اہم ترین سفارشات یہ تھیں کہ پاکستان میں تعلیم مفت اور لازمی ہونی چاہیے۔ مگر مفت اور لازمی تعلیم کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں ہوئے۔ اور بد قسمتی سے خود قائد اعظم کی سربراہی میں ہونے والی اس پہلی تعلیمی کانفرنس کی سفارشات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔
قائد اعظم نے اس بھر پور کانفرنس کے ذریعے ایک واضح تعلیمی پالیسی اور سمت کا تعین کر دیا تھا، جس کی بنیاد مفت اور لازمی تعلیم پر قائم تھی۔ مگر اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس سے طلبہ کے اندر بے چینی پیدا ہوئی۔ انیس سو پچاس میں کراچی میں طلبہ کے مظاہروں کی ایک وجہ یہی تھی۔ ان مظاہروں میں اہم مطالبات مفت اور لازمی تعلیم کی سفارشات پر عمل درآمد تھا۔ مگر طلبہ کے جائز تعلیمی مطالبات کو سننے کی بجائے اس وقت کے وزیر تعلیم فضل الرحمان نے طلبہ پر تشدد، گرفتاریوں اور لاٹھی چارج کا راستہ اختیار کیا۔
سال انیس سو انسٹھ کے موسم سرما میں جنرل ایوب خان نے نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس پالیسی کی کچھ نکات بڑے اہم تھے۔ ایک اہم نکتہ دس سال تک مفت اور لازمی تعلیم تھی۔ بچوں اور بچیوں کے مساوی تعلیمی حقوق کو قانونی طور پر تسلیم کیا گیا تھا، مگر اس کا عملی اطلاق کبھی نہیں ہوا۔
مارچ انیس سو ستر میں نئی قومی تعلیمی پالیسی اپنائی گئی، جو بنگلہ دیش کی علیحدگی اور دیگر ہنگامہ خیز واقعات رونما ہونے کی وجہ سے پس پشت ڈال دی گئی۔
سال انیس سو اناسی میں جنرل ضیا کی قیادت میں ایک نئی تعلیمی پالیسی بنائی گئی، پھر انیس سو بانوے، اٹھانوے، دو ہزار نو اور دو ہزار سترہ میں مختلف قومی تعلیمی پالیسیوں کا اعلان ہوا۔ ہر پالیسی اس وقت کے حکمران طبقات کے نظریات اور رجحانات کی عکاس تھی۔ کسی نے اسلامی تعلیم کا وعدہ کیا، اور کسی نے سائنس و ٹیکنالوجی کو فوقیت دینے کی بات کی، مگر پالیسی خواہ کوئی بھی ہوئی ہو، اس کے عملی اطلاق کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
موجودہ حکومت نے حلف اٹھانے سے پہلے اس طویل پس منظر میں نئی تعلیمی پالیسی اور نیا تعلیمی نظام لانے کا اعلان کیا تھا۔ کیا موجودہ حکومت اس باب میں کوئی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو گی؟ اس سوال کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ موجودہ حکومت ماضی کی ناکام پالیسیوں سے کوئی سبق سیکھتی ہے یا نہیں۔ اگر ماضی کی ان پالیسیوں کا بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو بیشتر پالیسیوں میں وہی نکات اجاگر کیے گئے، جو دوسری کامیاب اور ترقی یافتہ اقوام کی تعلیمی پالیسیوں میں موجود ہیں۔ فرق صرف عملدرآمد کا ہے۔ ان پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے مالی وسائل کی فراہمی بنیادی شرط ہے۔ مالی وسائل کی وافر مقدار میں فراہمی کے بغیر مفت و لازمی تعلیم کا خواب صرف چند شہروں یا اہم علاقوں تک ہی محدود رہ جاتا ہے اور آبادی کا ایک بڑا حصہ اس سے استفادہ نہیں کر سکتا۔ مالی وسائل کی فراہمی کے لیے خود ملک کے اندر مالی وسائل کی منصفانہ تقسیم ایک بنیادی شرط ہے۔ اس کے لیے ملک کی معاشی و سماجی پالیسیوں کا منصفانہ ہونا لازم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجٹ کے حوالے سے ترجیحات کا تعین ضروری ہے۔ پارلیمان ان ترجیحات کا تعین کرتے وقت تعلیم کے لیے اتنا بجٹ منظور کرنے اور مختص کرنے کی پوزیشن میں ہو، جو مفت اور لازمی تعلیم کے تصورات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے لازمی ہے۔
تعلیمی پالیسی کے باب میں کچھ چیزیں ایسی ہیں، جن کے لیے وسائل لازم اور ناگزیر ہیں۔ مگر اس سے بھی کچھ زیادہ اور ضروری چیزیں ایسی ہیں، جن کے لیے وسائل سے زیادہ عزم، ارادے اور شعور کی ضرورت ہے۔ ان میں نظام تعلیم، نصاب تعلیم اور ذریعۂ تعلیم شامل ہیں۔ پاکستان میں ان بنیادی چیزوں پر آج تک مکمل اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ موجودہ وسائل کے اندر تعلیم کو زوال اور پستی میں گرنے سے بچانے کے لیے بہت سارے ایسے اقدامات کیے جا سکتے تھے، جن کے لیے وسائل سے زیادہ عزم کی ضرورت ہے۔
تعلیم کے ساتھ کچھ مسائل ہر دور میں رہے ہیں، اور کچھ معاملات ہر دور میں متنازعہ رہے ہیں، مگر اس کے باوجود تعلیم میں پستی اور گراوٹ کی یہ شکل کبھی نہیں رہی جو آج ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں جو بھی نظام تعلیم یا ذریعہ تعلیم متنازعہ رہا‘ آبادی کے ایک بہت ہی محدود طبقے کو تعلیم تک رسائی رہی ہے، مگر اس دور میں معیار تعلیم آج کے دور سے بہتر تھا۔ یہ نظام قیام پاکستان کے بعد آہستہ آہستہ رو بہ زوال ہوا۔ یہاں تک کہ اسی کی دہائی تک اس نے پستی کی گہرائیوں کو چھو لیا۔
نقل، امتحانی سوالات کا آئوٹ ہونا، امتحانی پرچوں کی مارکنگ میں رشوت، سفارش، دھونس اور دھاندلی کا استعمال یہاں تک کہ پیپر تک بدلنے کی کہانیاں حقیقت کا روپ دھار کر سامنے آتی رہی ہیں۔
ساتویں دہائی کے آخر اور آٹھویں دہائی کے ابتدا میں امتحانی مراکز کے ارد گرد لوگوں کے ہجوم جمع ہونے شروع ہوئے، جو میرٹ کے منہ پر طمانچہ اور میرٹ کے تصور کی ہی نفی تھی۔ پرائمری سکول کے امتحانات سے لے کر یونیورسٹی تک بعض والدین خود اپنے بچوں کو نقلیں مہیا کرنے کے لیے امتحانی مراکز کے گرد منڈلاتے ہوئے اور کھڑکیوں پر چڑھتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ یہ سلسلہ صرف طلبہ تک ہی محدود نہیں رہا، ملک کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے اساتذہ پر علمی اور تحقیقی مواد کے سرقہ اور دوسرے کے لکھے ہوئے پورے پورے ریسرچ پیپر چوری کرنے تک کے الزامات لگ چکے ہیں۔ میرٹ کی یہ پامالی تعلیمی اداروں سے ہوتی ہوئی زندگی کے ہر شعبے میں آ گئی، جس سے ایک کرپٹ کلچر نے جنم لیا۔ یہ کرپٹ کلچر سرکاری محکموں سے لے کر مقتدر سیاست دانوں تک ہر جگہ پر واضح دکھائی دینے لگا۔
نظام تعلیم میں بنیادی تبدیلی شاید کسی حد تک وسائل سے مشروط ہے۔ مگر کرپٹ کلچر کا خاتمہ وسائل سے مشروط نہیں۔ ماضی میں تقریباً ہر قوم کو یہ مسئلہ درپیش رہا ہے۔ ترقی یافتہ مغربی دنیا میں تو اس قباحت پر بہت پہلے بڑی حد تک قابو پایا لیاگیا تھا۔ نقل اور علمی سرقہ بازی پر قابو پانے کے کئی طریقے موجود ہیں، جن کو اپنے اپنے حالات کے مطابق استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایک کامیاب اور آزمودہ طریقہ، اوپن بک ، یا کھلی کتاب امتحانات کا بھی ہے۔ جہاں طلبہ کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ ہر قسم کا مواد اپنے ساتھ کمرہ امتحان میںلے جا سکتے ہیں۔ مگر امتحانی سوالات اس طریقے سے تیار کیے جاتے ہیں کہ اگر طلبہ کو مضمون کی پوری تیاری نہیں ہے، وہ مضمون کو گہرائی سے سمجھتے نہیں تو وہ اس مواد سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ یہ طریقہ نا صرف نقل کا توڑ ہے ، بلکہ رٹے سے چھٹکارے میں مدد دے سکتا ہے، جو ہمارے تعلیمی نظام کا گہرا روگ ہے۔