''ہر سچ کو تین مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے پر اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ دوسرے مراحلے پر اس کی پر تشدد مخالفت کی جاتی ہے۔ اور اسے تیسرے مرحلے پر اسے اظہر من الشمس سمجھ کر تسلیم کر لیا جاتا ہے‘‘۔ جرمن فلسفی آرتھر شاپن ہاور کے اس قول کے عین مطابق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل کا سچ بھی کچھ انہی مراحل سے گزر کر ہم تک پہنچا ہے۔
فوج کے ترجمان نے جو کہا‘ اس میں کئی لوگوں کے لیے حیرت کا سامان تھا۔ یہ سچائی کا اعتراف تھا۔ پریس کانفرنس کا ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ اگر سال انیس سو ستر اکہتر میں ذرائع ابلاغ آج کی طرح آزاد ہوتے تو بنگلہ دیش نہ بنتا۔ ذرائع ابلاغ کی آزادی کو تسلیم کرنے سے مراد پاکستان کے عوام کے ایک بنیادی انسانی حق یعنی آزادیٔ اظہار رائے کو تسلیم کرنا ہے۔ ظاہر ہے آزادیٔ اظہار رائے سے مراد یہ ہے کہ ہر شہری کو اپنا مافی ضمیر بلا خوف و خطر بیان کرنے کا حق ہے۔ مافی الضمیر کا یہ اظہار کسی بھی پیرائے میں ہو سکتا ہے۔ خواہ یہ اظہار تحریر و تقریر کی شکل میں ہو یا کسی اور فنکارانہ پیرائے میں ہو۔ اور ظاہر ہے یہ اظہار ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی عوام تک پہنچ سکتا ہے؛ چنانچہ اگر ذرائع ابلاغ آزاد نہیں ہیں تو وہ خیالات اور حقائق کو عوام تک پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ترجمان نے تسلیم کیا کہ اگر ذرائع ابلاغ آزاد ہوتے تو ایسا نہ ہوتا۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان کے شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوتے تو آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔
ہم جانتے ہیں کہ جہاں ذرائع ابلاغ آزاد ہوتے ہیں، اور جہاں بات کہنے سننے کا کلچر ہوتا ہے، وہاںایک آزاد اور روادار سماج ہوتا ہے۔ ایسے سماج میں کسی ایک شخص، گروہ، ادارے یا طبقے کی اجارہ داری نہیں ہوتی؛ چنانچہ ایسے سماج میں دھونس، دھاندلی اور جبر کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ ایسے سماج میں ظلم و انصافی کا شکار ہونے والوں کے لیے داد رسی اور انصاف کے دروازے بند نہیں ہوتے۔ لاٹھی اور گولی کی سرکار نہیں چلتی۔ اختلاف رائے رکھنے والوں کے درمیان مکالمہ ہوتا ہے، اور انسانی مسائل اور مشکلات کا حل نکالا جاتا ہے۔ اس طرح کے کھلے اور روادار معاشرے میں کوئی ایک قوم، قومیت، طبقہ یا گروہ اپنے آپ کو مجبوراور محصور نہیں سمجھتا۔ اس طرح کے سماج میں اگر کسی انسان کو کوئی شکوہ بھی ہے تو اسے بندوق اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ اپنے حق اور عزت نفس کے تحفظ کے لیے قانونی اور جمہوری راستے اختیار کر سکتا ہے۔ ایسے سماج کے اندر خانہ جنگی کے امکانات نہیں ہوتے‘ اور ایسے جمہوری اور انصاف پر مبنی معاشرے میں جنگ و جدل اور فوج کشی کی ضرورت نہیں پڑتی؛ چنانچہ اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ کئی دوسرے بنیادی حقوق اور شہری آزادیاں جڑی ہوتی ہیں۔ اگر اظہار رائے کا احترام کیا جاتا تو شاید سیاسی، معاشی اور لسانی حقوق کا ایک تنازعہ‘ جسے جمہوری طریقے سے طے کیا جا سکتا تھا‘ اتنی سنگین شکل نہ اختیار کرتا۔ مگر اظہار رائے پر پابندی محض ستر کی دہائی کا المیہ نہیں تھا۔ بد قسمتی سے عوام کے حقوق پر پابندیوں کا سلسلہ تاریخی طور پر روز اول سے یعنی قیام پاکستان کے فوراً بعد شروع ہو گیا تھا۔ ملک کی سول و فوجی نوکر شاہی اور ہیئت مقتدرہ میں کئی ایسے لوگ موجود تھے، جو اس سے پہلے انگریزی راج کے زیر اثر کام کر چکے تھے۔ انگریز سرکار کا ہندوستان پر حکومت کرنے کا ایک خاص طریقہ تھا، جو خود انگلستان اور دوسرے مغربی ممالک میں حکومت کرنے کے طریقوں سے یکسر مختلف تھا۔ حکومت کا یہ طریقہ خاص طور پر ایک نوآبادی کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا، جس میں لوگوں کو تمام بنیادی حقوق یا شہری آزادیاں حاصل نہ تھیں، اگر تھیں بھی تو انتہائی محدود اور مشروط تھیں۔ یہ طریقہ کار کسی آزاد ملک کو چلانے کے لیے نا مناسب تھا‘ مگر بد قسمتی سے آزادی کے فوراً بعد جو عملی اقدامات شروع ہوئے، وہ عوام سے کئے گئے وعدوں اور ان کو دکھائے گئے خوابوں سے یکسر مختلف تھے۔ نو آبادیاتی تجربے اور نفسیات کے حامل لوگوں نے قیام پاکستان کے فوراً بعد فیصلہ سازی کا اختیار حاصل کر لیا۔ اور ان لوگوں نے اپنی نفسیات اور افتادِ طبع کے مطابق فیصلے کرنے شروع کر دئیے۔ پاکستان میں خواہ کوئی بھی حکومت ہو‘ ان لوگوں نے فیصلہ سازی کی میز پر کسی نہ کسی شکل میں اپنی جگہ بنائے رکھی۔ ان کا خیال یہ رہا کہ صرف وہی اس ملک اور قوم کے بارے میں اچھا سوچ سکتے ہیں۔ ان لوگوں کی اس سوچ اور عمل کا آغاز قیام پاکستان کے فوراً بعد ہو گیا تھا۔ اظہار رائے کے باب میں ان لوگوں نے پہلا حملہ خود بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پر کیا۔ قائد اعظم کا یہ اعلان کہ پاکستان میں ہر شہری برابر ہو گا، اور اقلیتوں کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہو گی‘ ان لوگوں کو پسند نہیں آیا؛ چنانچہ انہوں نے پریس ایڈوائس جاری کی کہ قائد اعظم کی یہ تقریر سنسر کی جائے۔ اس وقت کے روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے یہ احکامات ماننے سے انکار کر دیا‘ اور اصرار پر معاملہ قائد اعظم کے پاس لے جانے کی دھمکی دی۔ اس واقعے کی تفصیل ضمیر نیازی کی کتاب ''پریس ان چین‘‘ میں موجود ہے۔ قائد اعظم کے بعد محترمہ فاطمہ جناح ان لوگوںکی خود ساختہ سچائی اور ملکی مفاد کا نشانہ بنتی رہیں۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد دو سال تک وہ ان کی برسی پر تقریر نہ کر سکیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان سے کہا گیا‘ وہ اپنی تقریر پہلے لکھ کر جمع کروائیں۔ دو سال بعد جب وہ تقریر لکھ کر جمع کرانے پر رضامند ہوئیں، تو ان سے تقریر کے کچھ حصے حذف کرنے کے لیے کہا گیا۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ مگر جب یہ تقریر ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئی تو ان کی منشا کے بر عکس ان حصوں کو حذف کر دیا گیا تھا۔ بعد میں ریڈیو پاکستان کے زیڈ اے بخاری نے مس جناح کے نام ایک خط میں اس پر معذرت کی اور کہا کہ ایسا ٹیکنیکل خرابی کی وجہ سے ہو گیا تھا۔ فاطمہ جناح نے جواب میں لکھا کہ انہیں اس بات پر حیرت ہوئی کہ تقریر کے جن حصوں کو حذف کرنے کے لیے کہا گیا تھا، وہی ٹیکنیکل خرابی کا شکار ہوئے۔ جو لوگ قائد اعظم اور فاطمہ جناح کی تقریروں کو سنسر کر سکتے تھے‘ ان کے مائنڈ سیٹ کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں۔ اس مائنڈ سیٹ کا اظہار تاریخ میں تسلسل کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔
اکتوبر انیس سو اڑتالیس میں جو پبلک سیفٹی آرڈیننس جاری کیا گیا اس کو قائد اعظم پہلے ہی مسترد کر چکے تھے۔ اس آرڈیننس کا مسودہ جب قائد اعظم کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر اسے مسترد کر دیا کہ جن کالے قوانین کے خلاف میں ساری زندگی لڑتا رہا ہوں‘ ان کے مسودے پر کیسے دستخط کر سکتا ہوں۔ یہ قانون جس سے پریس پر پابندیوں کا غلط آغاز ہوا بعد میں انیس سو باون میں سیفٹی ایکٹ کے نام سے باقاعدہ قانون ساز اسمبلی سے منظور کروا لیا گیا۔ اس پبلک سیفٹی آرڈیننس کے تحت ہفت روزہ 'سویرا‘ کو انیس سو اڑتالیس میں بند کر دیا گیا، اس کے بعد لاہور سے شائع ہونے والے 'نقش‘ اور 'ادب لطیف‘ پر پابندی لگی۔ انیس سو پچاس میں 'سویرا‘ کے ایڈیٹر ظہیر کاشمیری کو بغیر مقدمے کے جیل میں بند کر دیا گیا۔ یہ سلسلہ سعادت حسن منٹو اور فیض احمد فیض سے ہوتا ہوا کئی دوسرے صحافیوں تک پہنچا۔ انیس سو ساٹھ کا ایوب خان کا پریس آرڈیننس اور انیس تریسٹھ کا صوبائی پریس آرڈیننس پریس کے تابوت میں آخری کیل تھا؛ چنانچہ جب بنگلہ دیش میں بے چینی شروع ہوئی تو میدان میں صرف وہ اخبارات رہ گئے تھے، جو حکومت کے ہر عمل کی توصیف اپنا بنیادی فرض سمجھتے تھے؛ چنانچہ یہ بات درست تسلیم کی گئی ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کی ایک وجہ اظہارِ رائے پر پابندی بھی تھی۔ اس سچائی کا ادراک اور اظہار کرنے پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مسخ شدہ حقائق کی بنجر زمینوں سے سچائی کی ایسی ہی فصلیں اگیں گی تو ہمارا حال اور مستقبل گل و گلزار ہو سکے گا۔ نابغہ شاعر جون ایلیا یاد آتے ہیں:
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی‘ بات نہیں سنی گئی!