سیاست دان ہر جگہ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ وہ ایسی جگہ پر پل بنانے کا وعدہ بھی کر دیتے ہیں، جہاں دریا ہی نہیں ہوتا۔ سیاست دانوں کی وعدہ خلافیوں کے باب میں یہ بات مشہور سوویت سیاست دان خروشیف سے منسوب ہے، جن پر خود بہت بڑے اور نا قابل عمل دعوے اور وعدے کرنے کا الزام تھا۔ خروشیف امریکیوں کو سوشلزم سے ڈرانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمہارے پڑپوتے سوشلسٹ نظام میں زندگی گزاریں گے۔ ہمیں پختہ یقین ہے کہ جلد یا بدیر سرمایہ داری سوشلزم کے لیے راستہ چھوڑ دے گی۔ تم اسے پسند کرو یا نہ کرو۔ تاریخ ہماری سائڈ پر ہے، ہم تمہیں دفن کر دیں گے۔ پھر انہوں نے کہا: تم سوشلزم کو ایسے تسلیم نہیں کرو گے۔ ہم تمہیں سوشلزم کے چھوٹے چھوٹے قطرے پلاتے رہیں گے، اور جب تم جاگو گے تو اپنے آپ کو کمیونزم میں پائو گے۔ ہمیں تم سے جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تمہاری معیشت کو اتنا کمزور کر دیں گے کہ تم پکے ہوئے پھل کی طرح ہماری گود میں گرو گے۔
خروشیف کی پیش گوئیوں یا خواہشات کے مطابق امریکہ حقیقتاً کئی قسم کے معاشی و سیاسی بحرانوں کا شکار ہوا۔ اس میں دو ہزار سات‘ آٹھ کا وہ عظیم بحران بھی تھا، جس نے سرمایہ داری نظام کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ امریکہ اس بحران سے شاید نہ نکل سکتا، اور گود میں گر جاتا، مگر اس وقت تک سوویت یونین باقی نہیں رہا تھا۔ تاہم جہاں تک سیاست دانوں کے دعوئوں کی بات ہے تو اکثر دعوے جوش خطابت میں کیے جاتے ہیں۔ اکثر وعدے توڑنے کے لیے ہی کیے جاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں مجموعی طور پر سیاست دان اتنے وعدے اور دعوے کر چکے کہ یہ دنیا آج جنت بن چکی ہوتی۔ صرف کسی ایک ملک میں نہیں پوری دنیا میں امن و انصاف کا بول بالا ہوتا۔ سماجی و معاشی انصاف ہوتا۔ ہماری اس دنیا میں کوئی ایک شخص بھی بے گھر نہ ہوتا۔ دنیا میں کوئی بھوکا نہ سوتا۔ مگر اکثر سیاست دانوں کا کمال یہ ہے کہ وہ جس عزم و یقین سے وعدے کرتے ہیں، اتنے ہی اعتماد کے ساتھ وہ وعدے توڑنے کا جواز پیش کرتے رہتے ہیں۔ یوں مخلوق خدا ان کے دکھائے ہوئے خوابوں کے سہارے زندہ رہتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں عوام کو خواب دکھانے اور دعوے کرنے کی طویل تاریخ ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے جوش میں ایسے وعدے کیے جاتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے ہاتھ الہ دین کا چراغ لگ گیا ہے۔ انتخابی مہم میں انہوں نے عوام سے ایسے ایسے وعدے کیے ہوتے ہیں، جن کا پورا کرنا کسی جادوئی یا ما فوق الفطرت قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ اقتدار میں آنے کے بعد کچھ سیاست کار خود ہی اپنی کارکردگی سے مایوس ہو کر نظام کی بحث چھیڑ دیتے ہیں اور نظام کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اس سے یہ مطلب نکالا جاتا ہے کہ ہم تو پورے اہل اور ایمان دار لوگ ہیں، مگر یہ نظام ہی ایسا ہے جس میں مسائل حل کرنے کی گنجائش نہیں ہے؛ چنانچہ نظام بدلنا ناگزیر ہے۔
نظام بدلنے کی بات دو طریقوں سے کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ بنیادی ڈھانچہ بدلنے کی بات کرتے ہیں۔ اس بات کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ موجودہ سیاسی اور معاشی نظام کے اندر عوام کے مسائل کے حل کی استعداد نہیں ہے۔ اس باب میں زیادہ تر بحث دنیا کے معروف نظاموں پر ہوتی ہے۔ اس میں سرمایہ داری بمقابلہ سوشلزم یا سوشلزم بمقابلہ اسلام کا معاشی نظام جیسے نعرے اور نظریے سامنے آتے ہیں، جن کی کوئی ٹھوس سائنسی بنیادیں نہیں ہوتی ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے ان معدودے چند ممالک میں شامل ہے، جس میں تقریباً ہر نظام کا تجربہ کیا گیا۔ یہاں سرمایہ داری کو بھی برتا گیا۔ سوشلزم بھی پرکھا گیا‘ اور نظام اسلام کے بھی دعوے ہوئے۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ ان سارے نظاموں کے ناکام اور ادھورے تجربات سے عوام کا کوئی سنگین مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اس ملک سے بھوک ننگ اور بے روزگاری دور نہیں ہوئی۔ رشوت اور سفارش کا بازار ہمیشہ گرم رہا۔ ظلم اور نا انصافی جاری رہی۔ میرٹ پامال ہوتا رہا۔ حق دار کی حق تلفی جاری رہی۔
ملک اور قومیں‘ دونوں عموماً اپنی آزادی کے پہلے چند برسوں میں اپنی نظریاتی سمت کا تعین کر لیتے ہیں۔ اپنی بنیادی دستاویز یعنی آئین بنا لیتے ہیں‘ اور ایک واضح روڈ میپ پیش کر دیتے ہیں، جس پر چل کر انہوں نے اپنے ملک و قوم کے بنیادی اور فوری مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ طویل مدتی سفر کے لیے ایک واضح نقشہ تیار کر لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کے بر عکس ہوا۔ کسی واضح راستے اور سمت کے تعین کے بغیر یہاں اقتدار کی جنگ اور محلاتی سازشوں کا آغاز ہوا۔ کوئی بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا۔ کوئی قتل ہوا، کوئی پھانسی چڑھا‘ کوئی جلا وطن ہوا، اور کوئی پابند سلاسل ہوا۔ اس کے برعکس آمروں کا اقتدار طویل رہا، اور ملک کا بیشتر وقت آمریت کے سائے میں گزرا۔
اس ملک میں نظام بدلنے کی بات ملک کے بنیادی سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو چھیڑے بغیر بھی ہوتی رہی۔ بنیادی معاشی نظام کو جوں کا توں رکھتے ہوئے محض حکومت چلانے کے لیے عملی اور انتظامی تبدیلی کی بات ہوتی رہی۔ انتظامی اور فیصلہ سازی کے عمل میں بہتری کے لیے یہ بحث زیادہ تر پارلیمانی یا صدارتی نظام کے گرد گھومتی رہی۔ پاکستان کے حالات کو الگ الگ طریقے سے سمجھنے والے لوگ اپنی سمجھ کے مطابق صدارتی یا پارلیمانی نظام کے حق میں دلائل کے انبار لگاتے رہے۔ صدارتی نظام کے مخالفین کی دلیل یہ رہی ہے کہ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود صدارتی نظام سب کے لیے نہیں ہے۔ اور پاکستان جیسے ملک کے لیے تو بالکل ہی نہیں ہے۔ پاکستان جیسے سماج میں جہاں جمہوریت ابھی نا بالغ اور ابتدائی شکل میں ہے، اور سماج کے اندر بے شمار قابل حل تضادات پائے جاتے ہیں، وہاں پر صدارتی نظام کا ناکام ہونا یقینی ہے۔ اس طرح کے سماج میں صدارتی نظام ایک مستحکم جمہوریت نہیں لا سکتا‘ سماج میں صدارتی نظام کے تحت پارلیمان اور انتظامیہ کے درمیان نا قابل حل تضادات اور شدید تصادم کا خطرہ ہے۔ صدارتی نظام میں عام طور پر صدر اور پارلیمان اپنے اپنے طور پر خود مختار ہوتے ہیں۔ دونوں کا انتخاب عوام براہ راست ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس طرح یہ دونوں اپنے آپ کو ایک دوسرے کے سامنے نہیں بلکہ عوام کے آگے جوابدہ سمجھتے ہیں۔ بسا اوقات پارلیمان صدر کی مخالف پارٹی پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں کسی پالیسی اختلاف کی صورت میں صدر اور پارلیمان کے درمیان تصادم اور ڈیڈ لاک کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ اس طرح کے تضاد کے حل کے لیے کوئی لگے بندھے رہنما اصول نہیں ہوتے۔ امریکہ جیسے ملک کی تاریخ میں اس طرح کے تضاد کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ اور امریکی کانگرس کے درمیان اس طرح کے تصادم کی کئی مثالیں سامنے آتی رہی ہیں۔ نوبت گورنمنٹ شٹ ڈائون اور قصرِ صدارت اور کانگرس کے درمیان سر عام سخت الفاظ کے تبادلے تک آتی اور تلخ کلامی ہوتی رہی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں‘ جہاں تاریخ کا بیشتر حصہ آمریت مسلط رہی ہے‘ کلچر اور نفسیاتی تشکیل پر آمریت کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس نفسیات اور تاریخی روایات کی موجودگی میں صدارتی نظام میں آمریت کے اثرات کا اندیشہ واضح ہے۔ یہاں صدر آسانی سے مطلق العنانیت کی طرف جھک سکتا ہے۔ یہ پارلیمان کی منشا کے مطابق اور اس کی مرضی کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔
صدارتی نظام کے بے شمار فوائد کے باوجود محض اس نظام کے نفاذ سے پاکستان میں موجود زمینی حقائق اور مسائل نہیں بدلیں گے۔ عوام ایک عرصہ تک ایک نئے سراب کے پیچھے بھاگیں گے، اور مایوسی ایک بار پھر ان کا مقدر ٹھہرے گی۔ صدارتی نظام کی کامیابی کے لیے کچھ بنیادی شرائط ہیں۔ امریکہ اور فرانس جیسے ممالک میں اگر یہ نظام کامیاب ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں سماج قبائلی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہے‘ معاشی اور طبقاتی تقسیم کی شکلیں مختلف ہیں۔ وہاں اگر پارلیمانی نظام ہوتا تو بھی کامیاب ہوتا۔ صدارتی نظام کے لیے ملک کے سماجی، معاشی اور انتظامی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی لازم ہے۔