نیا پاکستان بنانے والوں پر تنقید کے کئی پہلو نکلتے ہیں۔ ان کے بے شمار افکار یا افعال ایسے ہیں، جن پر بے رحمانہ تنقید ہو رہی ہے۔ کہیں کہیں اس تنقید کی گنجائش بھی ہے، اور جواز بھی موجود ہے۔ بلا جواز تنقید محض تنقید برائے تنقید ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جمہوریت میں تنقید لازم ہے۔ بے خوف اور کھلی تنقید کے بغیر خود جمہوریت کی اپنی بقا ہی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ مگر تنقید کرنے والوں کو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ تنقید برائے تنقید، گالی گلوچ، بے بنیاد الزام تراشی اور حقیقت پر مبنی ایماندارانہ تعمیری تنقید میں واضح فرق ہے، جس کا ملحوظ خاطر رکھنا بھی جمہوریت کی بقا اور فروغ کے لیے ضروری ہے۔
نیا پاکستان بنانے والے آج کل دو امور پر مخالفین کی سخت تنقید کا شکار ہیں۔ ایک بڑا موضوع عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ موجودہ حکومت کا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے پر سوال اٹھانے والے کئی لوگ ہیں۔ ان لوگوں کی رائے ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان کر موجودہ حکومت نے گویا ملک کو اس ادارے کے پاس گروی رکھ دیا ہے‘ اب عملاً پاکستان کے بڑے معاشی فیصلے کرنے کا اختیار حکومت یا تحریک انصاف کے پاس نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے پاس ہے۔ یہ رائے رکھنے والوں میں سب سے بلند آواز پیپلز پارٹی کے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو کی ہے، جسے وہ روایتی جوش و خروش سے بلند کرتے ہیں۔ ملک کے کچھ دانشور اور معاشیات کے ماہر بھی اس سے ملتی جلتی رائے رکھتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران جس ملک کو بھی قرضہ دیا ہے وہ اپنی شرائط پر دیا ہے۔ ان شرائط کا بظاہر اور بیان کردہ مقصد قرض دار ملک کی معیشت کی بحالی ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے مالیاتی فنڈ کا اپنا ایک جانچ کا اصول یا کسوٹی ہے، جو اس کی ستر سالہ پالیسی اور اس کے اپنے ماہرین کی آرا پر مشتمل ہے؛ چنانچہ یہ جس ملک کو قرضہ دیتے ہیں‘ اس ملک کی معاشی صورت حال کو سنبھالنے، اور اسے مشکلات سے نکالنے کے لیے بہت سارے اقدامات کرنے کی پیشگی شرائط بھی رکھتے ہیں۔ ان شرائط پر کسی قسم کے سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ شرائط ایک طرح سے حکم کا درجہ بھی رکھتی ہیں۔ ان شرائط میں وقت و حالات کے مطابق تھوڑی بہت تبدیلی یا نرمی کی بات تو کی جا سکتی ہے، مگر یہ شرائط ماننے سے انکار کرنا اور پھر قرض لینا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ ان میں سے بہت سی شرائط ایسی ہوتی ہیں جو قرض لینے والی حکومت کی بنیادی معاشی پالیسیوں یا انتخابی منشور سے متصادم ہوتی ہیں۔ وہ ان وعدوں کے بھی خلاف ہو سکتی ہیں، جو حکومتوں نے اپنے عوام سے کیے ہوتے ہیں۔ ان گوناگوں شرائط میں سب سے اہم عام ٹیکس کی شرح میں اضافہ، اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، اور کرنسی کی قیمت میں کمی ہیں۔ ان چیزوں کا تعلق مالیاتی ادارے کے بنیادی اغراض و مقاصد سے ہوتا ہے، جن میں عالمی ادائیگیوں میں توازن پیدا کرنا، اور کرنسیوں میں استحکام لانا شامل ہے، جس سے بالآخر پوری عالمی معیشت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ جب کوئی حکومت اس طرح کی شرائط مانتی ہے تو بالفاظ دیگر وہ اپنی معیشت کے بارے میں بنیادی فیصلہ خود کرنے کے اختیار سے دستبردار ہو جاتی ہے، جس کا لازمی نتیجہ اپنی قومی خود مختاری پر سمجھوتا ہے؛ چنانچہ دنیا بھر میں تاریخی طور پر قومی خود مختاری کے بارے میں حساسیت رکھنے والی حکومتوں یا سیاسی پارٹیوں کا شروع سے آئی ایم ایف کے بارے میں یہ کھلا موقف رہا ہے کہ قومی خود مختاری پر سمجھوتا کیے بغیر اس مالیاتی ادارے سے سنجیدہ معاملات طے ہو ہی نہیں سکتے۔ موجودہ حکومت نے طویل عرصہ تک پس و پیش سے کام لینے کے بعد جب بالآخر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تو ناقدین نے اسے خود مختاری پر سمجھوتا قرار دیا۔ اس بات میں بہت وزن ہے۔ مگر اس تلخ حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کوئی پہلی حکومت نہیں ہے، جس نے کشکول اٹھایا ہے یا قرض لیا ہے۔ یہ رسم طویل مدت سے جاری ہے۔ اس میں اگر کوئی استثنا ہے بھی تو بہت کم۔ جہاں تک قرض لینے کی بات ہے تو دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس نے کسی نہ کسی وقت میں کسی نہ کسی شکل میں قرض نہ لیا ہو۔ مگر ان ملکوں نے قرض لے کر تعمیر و ترقی کی اور معیشت کو مشکلات سے نکال کر معاشی خوشحالی، آزادی اور خود مختاری کے راستے پر ڈالا۔ قرض کو حکومتی اہل کاروں، سرکاری افسروں یا سیاست کاروں کی عیاشی کے لیے نہیں استعمال کیا۔ سوال قرض لینا نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس قرض کو کہاں اور کیسے استعمال کیا گیا۔ پاکستان میں اس قرض کو تعمیر و ترقی کے بجائے ذاتی عیاشیوں اور کرپشن میں اڑایا گیا، یہ سوچے بغیر کہ اس قرض کی واپسی کیسے ہو گی۔ بقول غالب
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
حکومت پر تنقید کا دوسرا بڑا نکتہ یہ رہا ہے کہ موجودہ حکمران پارٹی کے پاس اہل اور تربیت یافتہ افراد کا قحط الرجال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلیدی عہدوں اور وزارتوں پر ایسے لوگ لیے گئے ہیں، جن کا نہ صرف پارٹی کے نظریات اور جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ لوگ اس سے پہلے کی سول اور فوجی حکومتوں خصوصاً پیپلز پارٹی اور مشرف حکومت میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ اس معاملے کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تنقید کرنے والی پارٹیوں نے بھی اپنے اپنے ادوار حکومت میں باہر سے ان لوگوں کی خدمات مستعار لی تھیں۔ پیپلز پارٹی نے اہم کلیدی عہدوں پر ایسے لوگوں کو تعینات کیا جن کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں رہا، بلکہ وہ پارٹی کی بنیادی آئیڈیالوجی کے خلاف رہے ہیں۔ یہ پاکستان میں سیاسی کارکنوں اور سب سیاسی پارٹیوں کا مشترکہ المیہ رہا ہے۔ بقول شاعر
نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
جہاں تک عقل و فہم کو مستعار لینے کی بات ہے، تو یہ پاکستان کی سب ہی پارٹیوں کا مشترکہ المیہ ہے۔ پارٹیوں کے اندر کارکنوں کی تربیت اور لکھائی پڑھائی کا کلچر ہی نہیں ہے، سٹڈی سرکل، سیمینارز، کانفرنسز کا کوئی رواج نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا پروگرام ہو بھی جائے تو وہ پارٹی لیڈروں کی رٹی رٹائی تقاریر اور روایتی مکالمہ بازی کا ارشادِ مقرر ہی ہوتا ہے۔ کسی طرح کے سنجیدہ معاشی یا سیاسی مسائل پر بحث مباحثہ نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اقتدار کے حصول کے روایتی ہتھکنڈوں اور شاطرانہ چالوں پر توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے؛ چنانچہ جب اقتدار منتقل ہوتا ہے تو سب کو لگنے لگتا ہے کہ ان کی جیب میں تو سب کھوٹے سکے ہیں۔ ملک کے سنگین معاشی و سماجی مسائل کے حل کے لیے نہ تو کسی کے پاس مطلوبہ علم ہے اور نہ ہی تجربہ ہے۔ اس طرح فکری رہنمائی اور مہارت کے لیے پارٹی کی صفوں سے باہر دیکھا جاتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کامیاب و ترقی یافتہ مغربی اور مشرقی ممالک میں اقتدار میں آنے سے بہت پہلے متحرک سیاسی پارٹیوں کے اندر مختلف معاشی، سماجی، سفارتی اور عسکری شعبہ جات کے ماہرین ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ وہ اس وقت کی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ اس پر مضامین اور کتابیں لکھتے ہیں۔ یہ تنقید بے معنی مکالمہ بازی یا تنقید برائے تنقید نہیں ہوتی، بلکہ اعداد و شمار اور حقائق پر مبنی ایک تفصیلی اور تحقیقی کام ہوتا ہے، جسے سامنے رکھ کر عوام موجودہ حکومت کی پالیسیوں اور آنے والی حکومت کی پالیسیوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ظاہر ہے یہ رواج نہیں ہے۔ اس رواج و کلچر کی عدم موجودگی میں صرف قرض ہی نہیں عقل و خرد بھی مستعار لے کر گزارہ کرنے کی یہ ریت ختم نہیں ہو گی۔