گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جھوٹ کو ہمارے سماج کا ایک گہرا روگ قرار دیا۔ عزت مآب چیف جسٹس کے اس بیان پر کافی بحث ہوئی۔ کچھ لوگوں نے پہلی بار حیرت و افسوس سے اس سچائی کا اعتراف و اظہار کیا کہ جھوٹ ہمارا بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ ہم نے اپنے ارد گرد جھوٹ کی پوری پوری عمارتیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ کہیں ہم ریاستی اور سرکاری سطح پر جھوٹ بول رہے ہیں۔ کہیں ہم معاشرتی سطح پر بطور سماج جھوٹ بولتے ہیں، اور کہیں انفرادی سطح پر بطور فرد جھوٹ پر ہمارا اصرار ہے۔
انفرادی نفسیات میں الزام یا جرم سے انکار ایک طاقت ور انسانی رویہ ہے۔ ایک خوفناک اور نا پسندیدہ حقیقت کو تسلیم اور برداشت کرنا کسی کے لیے بھی آسان کام نہیں ہے‘ مگر زندہ رہنے کے لیے حقائق ماننے پڑتے ہیں۔ زندگی میں ایک توازن قائم کرنا پڑتا ہے۔ افراد کی طرح اقوام کو بھی اس توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے ہم صرف آج کے بارے میں ہی جھوٹ نہیں بولتے۔ ہم نے ماضی کی بھی اپنی مرضی کی اور من پسند منظر کشی کی ہوئی ہے۔ ہم اپنے حال اور ماضی کے بہت سارے واقعات کے بارے جھوٹ بولتے ہیں؛ چنانچہ اس سچائی سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جھوٹ ہمارے دور کا ایک بڑا روگ ہے۔
معروف لکھاری فلپ ڈک نے حقیقت کی تعریف میں لکھا تھا کہ جس چیز کا وجود آپ کے ماننے یا نہ ماننے کا محتاج نہیں ہے‘ اسے حقیقت کہتے ہیں۔ کئی اقوام اپنی تاریخ کی حقیقت کو جیسی کہ وہ ہے تسلیم کر لیتی ہیں، اور کچھ اقوام ناخوشگوار ماضی سے فرار کے لیے ایک خیالی یا تصوراتی ماضی تخلیق کر لیتی ہیں۔ ہماری تاریخ بھی ہزاروں سال پرانی ہے۔ اس میں سب کچھ اچھا ہی نہیں تھا۔ اس میں برا بھی بہت ہوا۔ ظلم و بربریت ہوئی۔ وحشیانہ تشدد ہوا۔ قتل و غارت گری ہوئی۔ انسانی ہمدردی اور بحالی کے بے شمار اچھے اور قابل تعریف کام بھی ہوئے۔ جو اچھا ہوا وہ بھی ہماری تاریخ ہے۔ اور جو برا ہوا وہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ اب ''برا‘‘ چھپانے کے لیے ہم اپنی تاریخ از سر نو تخلیق نہیں کر سکتے۔ اس کی خوش کن منظر کشی کے لیے اسے مسخ نہیں کر سکتے۔ تاریخی سچائیوں کی کئی طریقوں سے تشریح کی جا سکتی ہے مگر ان کو بدلنے کا فی الحال کوئی طریقہ دریافت نہیں ہو سکا۔
افراد کا جھوٹ ایک بڑا اخلاقی، قانونی اور سماجی مسئلہ ہے۔ مختلف سماج اور ریاستیں اپنے اپنے طریقوں سے اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ مگر افراد سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ ریاستوں کا ہے۔ بد قسمتی سے افراد کی طرح دنیا میں ایسی ریاستوں کی بھی کمی نہیں ہے، جو کسی نہ کسی معاملے میں اپنے ماضی کی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے حقائق کو چھپانے یا مسخ کرنے پر بضد ہیں۔ اس مقصد کے لیے ریاستی طاقت اور جابرانہ قوانین کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بہت ساری ریاستیں اپنے ماضی سے شرمندہ ہیں، اور ماضی کا ناخوشگوار بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہٹلر نے جب آسٹریا کو اپنی عمل داری میں شامل کیا تو آسٹریا کے بے شمار لوگ بہت خوش تھے۔ اس نے جب آسٹریا کا دورہ کیا تو اسے ایک عظیم ہیرو کی طرح خوش آمدید کہا گیا‘ مگر اب آسٹریا میں یہ کہنا کہ ہٹلر یہاں پیدا ہوا تھا، ایک سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔
چین میں یہ کہنا جرم سمجھا جاتا ہے کہ چین نے انیس سو پچاس میں تبت کو بغیر مرضی کے چین میں شامل کر لیا تھا۔ اس طرح روانڈا کے باب میں فرانس میں سچ بولنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ روانڈا میں جن لوگوں نے انیس سو چورانوے کے قتل عام میں حصہ لیا، ان کو فرانسیسی فوج کی حمایت حاصل تھی۔ اور شکست کے بعد ان کو کانگو میں منتقل کیا گیا، جہاں انہوں نے مزید قتل و غارت گری کی اور تباہی پھیلائی۔ مگر فرانس میں اب اس بات کا اظہار جرم ٹھہرا ہے۔
برطانیہ میں یہ کہنا آج بھی جرم ہی سمجھا جائے گا کہ برطانوی سامراج تاریخ کا سفاک ترین اور ظالمانہ منصوبہ تھا، جس نے دنیا کا بے دردی سے استحصال کیا، اور ایسی افراتفری پیدا کی جو آج بھی دنیا کو ہلا رہی ہے۔
بھارت میں کچھ لوگوں کی نظر میں تاج محل کو مغلیہ حکمرانوں کی عظمت کے ساتھ جوڑ کر یوں پیش کرنا کہ اس سے بھارتی قوم پرستی پر فرق پڑتا ہو یا ہندو نیشنل ازم کے تصورات مجروح ہوتے ہوں، ایک طرح کا جرم ہی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ترکی میں یہ کہنا کہ ترکوں کی اس خطے میں آمد سے پہلے کرد لوگ یہاں صدیوں سے آباد تھے اور فوجی مہمات میں ہزاروں کردوں کے گائوں اور گھر مسمار کر دیے گئے تھے۔
امریکہ میں سب جانتے ہیں کہ یہ عظیم سلطنت لاکھوں ریڈ انڈینز کی ہڈیوں اور غلام افریقیوں کی محنت پر کھڑی ہے۔ مگر یہ بات کہنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ حالانکہ ایسے موقع پر خاموشی اختیار کرنا ہی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اسی طرح اسرائیل میں یہ کہنا کہ ہماری ریاست ایک ایسی سرزمین پر قائم ہے، جہاں ایک زمانے میں فلسطینی عرب لوگ رہتے تھے اور ہم نے ان کو باہر نکالا، اور در بدر کیا، تاکہ ان کی جگہ ایسی لوگوں کو بسایا جا سکے، جو نسل پرستی اور نفرت کا شکار ہو کر دربدر ہو گئے تھے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کا قتل عام ہوا۔ یہ ایک ایسی تلخ سچائی ہے، جس کے لیے دنیا بھر میں انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ انسانی تاریخ کے عظیم ترین المیوں میں سے ایک تھا۔ مگر یہ اب انسانی تاریخ کا حصہ ہے، جسے تاریخ سے حذف نہیں کیا جا سکتا۔ یورپ کے بعض ملکوں نے کھلے عام اس قتل عام میں حصہ لیا اور بعض نے اس پر فخر کا اظہار بھی کیا۔ ہٹلر کی قیادت میں جرمنی کی فاشسٹ حکومت اس کی بد ترین مثال تھی۔ یہ بد صورت اور گھنائونا سچ ہے، جسے کوئی چھپانا بھی چاہے تو نہیں چھپا سکتا؛ چنانچہ اسے عام طور پر ایک سچائی کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ مگر یورپ کے کچھ دوسرے ایسے ممالک تھے، جنہوں نے مختلف طریقوں سے اس قتل عام میں کوئی نہ کوئی حصہ ڈالا۔ وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہوئے۔ اس کی ایک مثال پولینڈ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران پولینڈ میں کچھ لوگوں نے حکومت کے اندر اور باہر سے یہودیوں کے قتل عام میں نازیوں کی مدد کی مگر بعد میں یہ بات درست تسلیم کرنا یا اسے درست کہنا ایک جرم بن گیا۔ اس سلسلے میں ایک باقاعدہ قانون بنایا گیا کہ پولینڈ کو نازی جرائم میں کسی قسم کا ذمہ دار ٹھہرانا جرم ہے، جس کی سزا تین سال قید ہے۔ یہ قانون ان قوم پرست پولش سیاست کاروں کی ایما پر بنا جو اپنے آپ کو تاریخ کے معصوم شکار سمجھتے ہیں۔ یہ قانون بنا کر پولینڈ دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے اپنا کردار اپنی مرضی اور آج کی ضروریات کے مطابق بنانا اور پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ ماضی کی شاندار منظر کشی ہے، جس کا مقصد تاریخ بدلنا ہے۔
اس طرح ہر قوم، ہر فرد کسی نہ کسی ناخوشگوار یاد کے ساتھ زندہ ہے۔ کچھ خاص واقعات پر ان اقوام کے مؤقف پر اعتراض کیا جا سکتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ بیشتر ترقی یافتہ دنیا میں سماجی اور اخلاقی سطح پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنا ایک سنگین اخلاقی اور بعض حالات میں قانونی جرم ہے، جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں یہ اتفاق رائے موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی سے لے کر بڑے بڑے ریاستی اور حکومتی عہدے داروں تک جھوٹ بولتے ہوئے کوئی خجالت یا شرمندگی نہیں محسوس کرتے۔ چیف جسٹس صاحب نے جس انفرادی و اجتماعی جھوٹ کا ذکر کیا، وہ ہمارے سماج کے اخلاقی طور پر دیوالیہ پن کا اظہار ہے۔ ہمارے ہاں خواندگی کی شرح ویسے بھی بہت کم ہے، مگر جو تھوڑے بہت خواندہ ہیں بھی، ان کو ہم اخلاقیات نہیں پڑھاتے۔ ہمارے کلاس رومز میں اگر جھوٹ اور سچ کا کہیں ذکر ہو بھی تو یہ اسلامیات یا دینیات کے باب میں ہی ہوتا ہے۔ ہم طلبہ کو یہ نہیں پڑھاتے کہ سچائی بذات خود ایک مستقل قدر‘ ایک ناگزیر ضرورت ہے‘ اور سزا و جزا سے قطع نظر جھوٹ بولنا بذات خود ایک قبیح اور انتہائی برا فعل ہے۔