اگر ووٹ سے تبدیلی آ سکتی تو ہمیں کبھی ووٹ کی اجازت نہ دی جاتی۔ یہ بات غالباً امریکی لکھاری مارک ٹوئن نے مزاحیہ پیرائے میں کہی تھی۔ مگر اس بات کے پیچھے بڑی تلخ سچائی چھپی ہے۔ ووٹ سے تبدیلی آ سکتی ہے، مگر یہ بہت سست رفتار، صبر آزما اور طویل راستہ ہے۔ فوری تبدیلی کا راستہ انقلاب ہے۔ یہ دشوار گزار، مگر شارٹ کٹ اور یقینی ہے۔
بلاول بھٹو کی افطار پارٹی میں کیا ہوا؟ کیا اس افطار پارٹی سے کوئی ایسی تحریک جنم لے سکتی ہے، جو حکومت کے لیے کسی پریشانی یا تبدیلی کا باعث بن سکتی ہو؟ حزب مخالف کی جماعتوں نے حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ تحریک کا مقصد حکومت کا خاتمہ نہ بھی بتایا گیا ہو، پھر بھی اس طرح کے احتجاج یا مزاحمت کا لازمی مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو حکومت کو دبائو میں لا کر اپنی مرضی کے ایجنڈے پر چلایا جائے، ان سے کچھ معاملات پر سودے بازی کر کے مراعات حاصل کی جائیں یا پھر اگر ممکن ہو تو اقتدار کی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔
حزب مخالف کا خیال ہے کہ اس مقصد کے لیے حالات سازگار ہیں۔ عوام حسبِ سابق اس حکومت میں بھی اتنے ہی تنگ دستی اور غربت کا شکار ہیں، جتنے پیشرو حکومتوں میں رہے ہیں۔ ملک میں گزشتہ نو ماہ کے دوران کوئی ایسا قابل ذکر کام نہیں ہوا، جس کی وجہ سے عوام کی تلخیٔ ایام میں کوئی کمی آئی ہو۔ وہ پہلے کی طرح بھوک ننگ کا شکار ہیں۔ بے روزگاری میں اس دوران اچھا خاصا اضافہ ہو گیا ہے۔ جو لاکھوں روزگار پیدا کرنے کا وعدہ ہوا تھا، ابھی تک ایفا نہیں ہوا۔ علاج کے لیے عوام کو جس مشقت اور مشکل سے گزرنا پڑتا ہے، اس میں کوئی نظر آنے والی کمی نہیں آئی۔ مہنگائی میں صاف نظر آنے والا اضافہ ہوا ہے، جو غریب کے مشکل وقت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ سستے اور تیز رفتار انصاف کی باتیں اور وعدے بھی ابھی تک وعدے ہی ہیں، اور اس میدان میں بھی دور دراز تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ تعمیر و ترقی و خوشحالی کے سارے حسین خواب مستقبل قریب میں شرمندہ تعبیر ہوتے نظر نہیں آتے۔
دوسری طرف حکومت کے ساتھ اگر انصاف کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ حکومت کے لیے یہ بہت ہی کم عرصہ ہے، مگر عوام کے لیے یہ بہت ہی طویل وقت ہے۔ بھوک، ننگ اور بیماری کے شکار عوام کے لیے دن اور مہینے دہائیوں اور صدیوں کی طرح طویل ہوتے ہیں۔ خالی پیٹ اور درد میں مبتلا کسی شخص کو ایک لمحہ بھی طویل عرصہ لگتا ہے؛ چنانچہ عوام تنگ ہیں۔ ان کے صبر کا پیمانہ پہلے ہی لبریز ہو چکا ہے۔ وہ کسی بھی احتجاج کا حصہ بن سکتے ہیں۔ وہ سڑکوں پر آ سکتے ہیں۔ وہ بھوک ننگ کے ساتھ لاٹھی گولی کا مقابلہ بھی کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں کیوں؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے، جس کا جواب حزب مخالف کی ان سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں نے دینا ہے، جو احتجاج کا ارادہ رکھتے ہیں، اور جن کا خیال ہے کہ حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ اور یہ جتنا جلدی جائے اتنا اچھا ہے۔ مگر کیوں؟
اس کیوں کا جو جواب حزب مخالف دیتی ہے، اس کا عوامی زبان میں ترجمہ یہ ہے کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے اقدامات سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی پالیسیوں سے مہنگائی بے روزگاری اور غربت بڑھ رہی ہے۔ اس حد تک تو حزب مخالف کی بات شاید درست ہو‘ مگر اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ اس حکومت کے چلے جانے کے بعد کیا ہو گا۔ ظاہر ہے کوئی ملک یا ریاست تو حکومت کے بغیر نہیں چل سکتی؛ چنانچہ اس کی جگہ دوسری حکومت نے تو تشکیل پانا ہی ہو گا، جو حزب اختلاف کی سوچ اور خواہشات کے مطابق حزب اختلاف کے اتحاد میں شامل کسی ایک پارٹی یا پھر اس اتحاد کے اندر موجود کچھ پارٹیوں کے باہمی اشتراک اور اتحاد سے تشکیل پائے گی۔ ظاہر ہے عوام کو اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ کسی بھی جمہوری سماج میں حکومت بدلنا عوام کا حق ہے۔ یہ حق غیر مشروط اور تسلیم شدہ ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر جمہوری ملکوں میں آئے دن حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں اس سلسلے میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اس ملک کا آئین، قانون اور روایات واضح ہیں۔ بلکہ یہ تاریخی اعتبار سے ان ممالک میں شامل ہے، جہاں انتہائی تیز رفتاری سے حکومتیں بدلتی رہی ہیں۔ ماضی میں یہاں کچھ وزرائے اعظم کا کُل عرصہ حکومت مہینوں بلکہ دنوں پر بھی مشتمل رہا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی حکومت کے پاس ایسا کون سا پروگرام ہو گا‘ جس پر عمل کر کے وہ عوام کے دکھ درد میں کمی لا سکے گی۔ کون سا ایسا معاشی یا سیاسی پروگرام ہے جو نا گفتہ بہ حالات کا شکار لوگوں کی زندگی میں کوئی خوشی‘ کوئی آسودگی لا سکتا ہے؟ کون سا الہ دین کا چراغ یا جادو کی چھڑی ہے، جو موجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ یہ وہ اہم ترین سوال ہے، جو موجودہ حکومت کی تشکیل سے پہلے بھی بڑی شد و مد سے پوچھا جا رہا تھا۔ اس کے جواب میں حقائق اور اعداد و شمار پیش کرنے کے بجائے یہ لوگ اپنے بے پناہ مخلص ہونے اور لا زوال عزم کا حوالہ دیتے تھے۔ اس حوالے کو وہ اہم ترین اثاثے کے طور پر پیش کرتے تھے۔ وہ عوام کے سامنے مستقبل کا کوئی واضح نقشہ پیش کرنے کے بجائے زندگی میں اپنی جہدوجہد، اپنی ذاتی کامیابیوں اور ذاتی دیانت کا قصہ سنانے بیٹھ جاتے تھے۔ اور یہ قصہ اتنا طویل ہو جاتا تھا کہ عوام اصل سوال ہی بھول جاتے تھے کہ انہوں نے پوچھا کیا تھا۔ مگر بد قسمتی سے اب وہ عوام کو لے کر جس بند گلی میں پہنچ چکے ہیں، وہاں صرف ذاتی دیانت یا عزم ہی کافی نہیں، وسائل کی بھی ضرورت ہے۔ وسائل کے حصول کے لیے انہیں وہی کرنا پڑتا ہے، جو نہ کرنے کی قسمیں اٹھا اٹھا کر اقتدار میں آئے تھے۔ ان وسائل کے حصول کے لیے وہ صرف عالمی مالیاتی اداروں کے ہی نہیں، ہر اس دروازے پر دستک دے چکے ہیں، جہاں مثبت جواب کی مبہم سی کی امید بھی تھی۔ حکومت کی ایک کامیابی یہ ہے کہ بقول اس کے اس کو اپنی مرضی اور شرائط کے مطابق قرضے مل گئے ہیں۔ حالانکہ تاریخ کا تجربہ اور پورا سچ یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے قرض صرف اپنی شرائط پر ہی دیتے ہیں؛ تاہم اگر حکومت کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے یہ مان لیا جائے کہ قرضے ان کی مرضی کی شرائط پر ہیں‘ تو سوال یہ ہے کہ یہ قرضے عوام کی زندگی میں کیا تبدیلی لائیں گے؟ کیا یہ قرض ماضی کی حکومتوں کی طرح بانٹ برت کر کھا لیے جائیں گے؟ کیا نیلی پیلی ٹیکسیوں اور چھوٹے کاروبار اور تعلیم و تربیت وغیرہ کے نام پر یہ قرضے بے چین اور ناراض نوجوانوں میں تقسیم کر دئیے جائیں گے، تاکہ کچھ عرصہ امن و آشتی سے گزار لیا جائے۔ اور اگلے موسم بہار میں نیا کشکول لے کر نئے جوش اور ولولے کے ساتھ نئے دروازوں پر دستک دی جائے۔ اگر حکومت ان بیرونی قرضوں کو اپنی پیش رو حکومتوں کی طرز پر ہی خرچ کرے گی تو ان سے نئے اور مثبت نتائج کی امید کیوں کر رکھی جائے؟
حکومت تبدیل کرنا مخالف سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔ یہ حق ان کو جمہوری نظام اور ملک کا آئین دیتا ہے۔ مگر یہ حق ہونے کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے استعمال بھی کیا جائے۔ جس طرح کوئی شخص اپنی شریکِ حیات کو محض اس لیے طلاق نہیں دیتا کہ ایسا کرنے کا اس کو حق حاصل ہے، بلکہ وہ ناگزیر وجوہ کی بنا پر ہی یہ حق استعمال کرتا ہے۔ یہ اصول حکومت بدلنے کے جمہوری اور آئینی حق پر بھی صادق آتا ہے۔ عوام سوال پوچھتے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی کی بات کرنے والوں کے پاس کوئی ایسا ایجنڈا یا نقشہ بھی ہے، جس کے تحت وہ عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں یا حکومت کی تبدیلی محض ان کی آرزو ہے۔ بقول فیض
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں!