نریندر مودی دوسری بار جیت گئے۔ اب کی بار وہ پہلے سے زیادہ طاقت ور وزیر اعظم کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ پہلی بار انتخابات کے دوران مودی نے کئی وعدے کیے تھے، جو پورے نہ ہوئے۔ مگر ان وعدوں کو بھلا دینے یا ان کے ساتھ جڑی ہوئی مشکلات کو تسلیم کرنے کے بجائے انہوں نے موجودہ انتخابات کے دوران ان وعدوں کو پورا کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ ان وعدوں میں ایک بڑا وعدہ بھارتی آئین سے آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے کوختم کرنا ہے۔
قبل ازیں سن دو ہزار چودہ کی انتخابی مہم کے دوران بھی نریندر مودی کا سب سے بڑا انتخابی وعدہ بھی یہی تھا۔ مگر مختلف وجوہات کی بنا پر وہ اس پر عمل نہ کر سکے۔ اس بات کے کیا امکانات ہیں کہ وزیر اعظم مودی اب کی بار اپنا وعدہ پورا کر سکیں گے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ آرٹیکل تین سو ستر اور آرٹیکل پینتیس اے ہے کیا؟
آرٹیکل تین سو ستر ریاست جموں و کشمیر اور بھارت کے درمیان آئینی رشتے اور اختیارات کا تعین کرتا ہے۔ ہندوستانی آئین کی دفعہ تین سو ستر ریاست جموں و کشمیر کو نیم خود مختار حیثیت دیتی ہے۔ یہ آرٹیکل بنیادی طور اس وقت کے حالات کے مطابق بھارتی آئین میں عارضی اور عبوری طور پر شامل کیا گیا تھا۔ اور یہ آرٹیکل شامل کرتے وقت ریاست جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو اس آرٹیکل میں ترمیم یا تنسیخ کا اختیار دیا گیا تھا۔ مگر ریاستی اسمبلی نے ریاستی آئین سازی کے بعد آرٹیکل تین سو ستر کے بارے میں کوئی کارروائی کیے بغیر اپنے آپ کو تحلیل کر دیا؛ چنانچہ یہ آرٹیکل خود بخود بھارتی آئین کا مستقل حصہ بن گیا۔
اس آرٹیکل کی وجہ تسمیہ سمجھنے کے لیے اس کے پس منظر پر ایک نظر ضروری ہے۔ اس آرٹیکل کا تعلق ریاست جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق سے ہے۔ اس الحاق کی بنیاد ایک دستاویز ہے، جسے ''انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘‘ یعنی الحاق کی دستاویز کہا جاتا ہے۔ یہ ایک متنازعہ دستاویز ہے، جس پر متعلقہ فریقین کے اپنے اپنے بیانیے ہیں۔ اس دستاویز پر عام طور پر اتفاق نہیں ہے۔ کچھ لوگ اس دستاویز کو سرے سے جعلی قرار دیتے ہیں۔ کچھ اسے مہا راجہ ہری سنگھ پر بھارت کے نا جائز دبائو کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ کچھ اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت پر معترض ہیں۔ ہر بیانیے پر بحث کی گنجائش ہے۔ بھارت الحاق کی جو دستاویز پیش کرتا ہے، اس کے مطابق مہا راجہ ہری سنگھ نے ریاست کے صرف تین امور یعنی دفاع، امور خارجہ اور مواصلات کو مرکز کے سپرد کیا تھا۔ باقی تمام معامالات پر اس نے اپنے اختیارات برقرار رکھے تھے، جو اسے انگریزوں کے دور میں حاصل تھے۔
بعد میں جب بھارت کی مرکزی حکومت نے بھارتی آئین کے بارے میں ریاستوں سے رائے لی تو اس دستاویز کی روشنی میں ریاست جموں و کشمیر کی اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ بھارتی آئین کا اطلاق صرف ان معاملات پر ہونا چاہیے، جو الحاق کی دستاویز میں موجود ہیں۔ باقی تمام معاملات پر قانون سازی کا اختیار ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے پاس ہو گا۔ یہ بات خاص طور پر واضح کی گئی کہ ریاست جموں و کشمیر کو مستقبل میں بھارتی آئین کی کوئی دفعہ قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ہی ریاست کو اپنا الگ آئین بنانے کا اختیار دیا گیا، اور اس آئین کے تحت اگر ریاستی اسمبلی چاہے تو اپنی مرضی سے اضافی اختیارات مرکز کو دے سکتی ہے۔
آرٹیکل تین سو ستر میں ریاست جموں و کشمیر کے لیے چھ خصوصی دفعات ہیں۔ اس میں پہلی اور اہم کلاز یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر پر پورے بھارتی آئین کا اطلاق نہیں ہوتا ہے اور ریاست کو خود اپنا آئین بنانے کی اجازت ہے۔ دوسری اہم کلاز یہ ہے کہ مرکز کے اختیارات، دفاع، خارجہ امور اور مواصلات تک محدود ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مرکز اپنے اختیارات کا استعمال صرف ریاستی حکومت کی مرضی سے کر سکتا ہے۔ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آرٹیکل تین سو ستر میں تبدیلی یا تنسیخ صرف ریاستی قانون ساز اسمبلی کی سفارش اور منظوری سے کی جا سکتی ہے۔
آرٹیکل تین سو ستر کی موجودگی کے باوجود عملی طور پر مرکز اور ریاست کے درمیان بہت سارے امور پر باہمی رضا مندی یا دھونس و دھاندلی سے اختیارات میں کمی بیشی ہوتی رہی۔ وقت و حالات کے مطابق مشترکہ فہرست اور مرکزی فہرست میں موجود اختیارات میں تبدیلی ہوتی رہی۔ مگر آرٹیکل تین سو ستر اپنی جگہ پر موجود رہا، اور کئی ایک مشکل واقعات اور ریاست و مرکز کے درمیان تعلقات میں شدید بحران کے باوجود اس میں ترمیم یا تنسیخ کی بات نہیں ہوئی۔ سال انیس سو چوہتر میں اندرا عبداللہ معاہدے کے وقت ایک بار پھر یہ اعادہ کیا گیا کہ ''ریاست جموں و کشمیر اور انڈین یونین کے درمیان تعلق بھارتی آئین کی دفعہ تین سو ستر کے تحت ہی جاری رکھا جائے گا‘‘۔
دو ہزار چودہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہ عہد کیا کہ اگر وہ انتخابات جیت گئی تو آرٹیکل تین سو ستر ختم کر دے گی، اور ریاست جموں و کشمیر کو مکمل طور پر انڈین یونین میں شامل کر لے گی۔ انتخابات کے بعد جب اس مطالبے پر عمل درآمد کا وقت آیا تو کئی قانونی اور تکنیکی رکاوٹیں ابھر کر سامنے آئیں۔
اکتوبر دو ہزار پندرہ میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے اس آرٹیکل کی مستقل حیثیت پر واضح فیصلہ دیا۔ کورٹ نے لکھا کہ آرٹیکل تین سو ستر میں کسی قسم کی ترمیم یا تنسیخ نہیں کی جا سکتی۔ عدالت نے اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ آرٹیکل کی کلاز تین میں ریاستی اسمبلی کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ صدر کو اس آرٹیکل میں ترمیم یا تنسیخ کے لیے تجاویز دے‘ مگر ریاستی اسمبلی نے انیس سو ستاون میں اپنے آپ کو تحلیل کرنے سے پہلے اس آرٹیکل میں کسی ترمیم کی سفارش نہیں کی تھی، اس لیے یہ ایک مستقل دفعہ بن گئی۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے پاس چلا گیا۔ سپریم کورٹ نے کشمیر ہائی کورٹ کی رائے کو درست تسلیم کرتے ہوئے لکھا کہ آرٹیکل تین سو ستر مستقل حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ عدالت نے لکھا کہ چونکہ اس ریاستی اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا ہے، اس لیے صدر کے پاس اس آرٹیکل کو منسوخ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے آرٹیکل تین سو ستر کے ساتھ ساتھ آرٹیکل پینتیس اے کو بھی منسوخ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ آرٹیکل پینتیس اے بھارتی آئین کی ایک دفعہ ہے، جس کے تحت جموں و کشمیر اسمبلی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ریاست کے مستقل باشندوں کے تعین کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے۔ اس آرٹیکل کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر جاننا بھی ضروری ہے۔ مہا راجہ ہری سنگھ نے سال انیس سو ستائیس میں سٹیٹ سبجیکٹ آرڈیننس جاری کیا تھا۔ اس آرڈیننس کے تحت ریاستی باشندوں کے سرکاری ملازمتوں اور جائیداد کے حق ملکیت کے حق کو تحفظ دیا گیا تھا۔ الحاق ہندوستان کے بعد جب جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی طرف سے دہلی ایگریمنٹ کو منظور کر لیا گیا تو بھارتی صدر نے صدارتی آرڈیننس جاری کیا۔ اس آرڈیننس کے تحت آرٹیکل پینتیس اے کو بھارتی آئین میں شامل کیا گیا تھا‘ جس کے تحت یہ ریاستی اسمبلی کا اختیار بن گیا کہ وہ ریاستی باشندوں کی مراعات، حق ملکیت اور حق ملازمت کے بارے میں قانون سازی اور فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔ یہ آرڈیننس صدر رجندر پرساد نے جاری کیا تھا۔ صدر کو یہ مشورہ جواہر لال نہرو کی قیادت میں بھارتی حکومت نے دیا تھا۔
عوامی زبان میں اس کہانی کا نچوڑ یہ ہے کہ اگر نریندر مودی آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے ختم کر دیتے ہیں، تو مقبوضہ جموں و کشمیر اور انڈین یونین کے درمیان موجودہ آئینی تعلق اور بندو بست ختم ہو جاتا ہے۔ اور اس کی جگہ وہ بندوبست آئے گا جس پر نریندر مودی زور دے رہے ہیں‘ یعنی کشمیر کی خصوصی حیثیت‘ اختیارات اور مراعات ختم کر کے اس کو وہی درجہ دیا جائے گا جو بھارت کی باقی ریاستوں کو حاصل ہے۔ اب بظاہر یہ سیدھی سی بات ہے؛ تاہم اگر اس کو گہرائی سے دیکھا جائے تو اس طرح کا کوئی یک طرفہ بندوبست اقوام متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں، الحاق ہندوستان کی دستاویز کی شرائط اور کشمیری عوام کی خواہشات سے متصادم ہو گا، جس کے راستے میں کئی ناقابل عبور قانونی اور عملی رکاوٹیں موجود ہیں۔