کچھ لوگوں کے لیے یہ جشن کا موقع ہے‘ کچھ کے لیے یہ مقام ماتم اور لمحہ فکریہ ہے۔ مودی کی جیت ہمارے دور کی سیاست کی ایک سنگین حقیقت ہے۔ اس حقیقت میں بہت اہم سبق پوشیدہ ہیں، اگر کوئی سیکھنے کی زحمت گوارا کرے۔ مودی کی جیت کے ساتھ کچھ تحفظات، کچھ خوف اور اندیشے ہیں‘ اور کچھ مغالطے اور فکری الجھائو ہیں۔ مگر یہ جیت بہت سے لوگوں کو بدلتے ہوئے سیاسی لینڈ سکیپ پر از سر نو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ ان میں بھارتی مسلمان، کمیونسٹ اور مارکسسٹ پارٹیاں، اور بائیں بازو کی روشن خیال قوتیں‘ سب ہی شامل ہیں۔
مودی کی جیت میں اس کی خوبیوں کا دخل بھی ہے۔ مگر اس جیت میں اس کی اپنی خوبیوں سے بھی بڑا کردار اس کے مخالفین کی خامیوں کا ہے۔ کیا مودی کی جیت ہندو مذہبی بنیاد پرستی کی فتح ہے؟ یا پھر یہ ہندو قوم پرستی کی جیت ہے؟ اس سوال کا جواب اتنا سیدھا اور آسان نہیں ہے۔ اس سوال کے جواب کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہندو مذہبی بنیاد پرستی اور ہندو قوم پرستی میں کیا فرق ہے۔ کیا ہندو مذہبی بنیاد پرستی اور ہندو قوم پرستی ایک ہی رجحان کے دو رخ ہیں، یا ان کے درمیان کوئی قابل ذکر فرق موجود ہے۔ ان سوالات کے جواب کے لیے ہندو مذہبی بنیاد پرستی، اور ہندو قوم پرستی کو ان کی درست تاریخی تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔
بھارت میں ہندو قوم پرستی مغرب میں موجود مذہبی بنیاد پرستی اور قوم پرستی سے ذرا مختلف مظہر ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے میں مغرب میں بنیاد پرستی کا آغاز چارلس ڈارون کے نظریے کے رد عمل میں ہوا۔ مغرب کے مذہبی سکالرز اور پادریوں کا خیال تھا کہ ڈارون کی تھیوری میں انسانی زندگی کے بارے میں اس تسلیم شدہ نظریے کو چیلنج کیا گیا ہے، جو مقدس کتابوں میں پیش کیا گیا۔ امریکہ میں اس کی جڑیں تاریخ میں بہت پیچھے جا کر اٹھارہ سو اٹھہتر کی نیاگرا بائبل کانفرنس سے جا ملتی ہیں۔ اس کانفرنس کے شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ معاشرے میں ہر فرد کا وہ کردار ہے، جو بائبل میں متعین کر دیا گیا ہے۔ تخلیق کا جو نظریہ بائبل نے دیا، وہ حرف آخر ہے۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں امریکہ میں بنیاد پرستی میں ابھار آیا۔ اس ابھار میں آزاد اور جدید سماجی خیالات کے خلاف رد عمل بھی شامل تھا۔ قوم پرستی یہاں ہر دور میں موجود رہی۔ یہ مختلف شکلوں سے گزرتی ہوئی ہمارے دور تک پہنچی۔ ہمارے دور میں صدر ٹرمپ جیسے سفید فام نسل پرست قوم پرست جمہوریت کے کندھے پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے۔
بنیاد پرستی مختلف ممالک میں مختلف شکلوں میں پائی جاتی ہے اور اس کی تیزی سے پھیلنے کی گوناگوں وجوہات ہیں۔ کئی جگہوں پر بنیاد پرستی جدید سیکولر نظریات اور خیالات کے خلاف ایک رد عمل تھا۔ کہیں یہ جدید سیکولر قوتوں کی طرف سے ناحق پھیلایا ہوا خوف تھا، جس کے خلاف بنیاد پرست قوتیں متحد ہو گئیں تاکہ وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ سکیں۔ اس کی ایک مثال جمال عبدالناصر کے دور کا مصر ہے، جہاں مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کے عمل میں ریاستی تشدد اور جبر کا عنصر شامل ہو گیا تھا۔ یہاں پر اس عمل کی مزاحمت کرنے والی بنیاد پرست قوتوں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ اور ان پر وحشانہ تشدد ہوا؛ چنانچہ انہوں اس کو اپنی بقا کی جنگ بنا لیا، جس کی وجہ سے بنیاد پرستی کو قوت ملی اور اس کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوا۔ پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک میں بنیاد پرستی کے رجحانات کے فروغ کی وجہ طویل آمریتیں، عالمی سامراجی جنگیں اور ان جنگوں میں جہاد کے نام پر مقامی رجعت پسند قوتوں کی شمولیت تھی۔
بعض حوالوں سے بنیاد پرستی کے فروغ کے لیے الہامی کتب کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ہندو بنیاد پرستی ان سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس کا انحصار کسی الہامی کتاب پر نہیں ہے۔ اس کے برعکس ہندو قوم پرستی کا انحصار سیاسی اور سماجی خیالات پر ہے، جس کی بنیاد قدیم ہندوستان کی روحانی اور ثقافتی روایات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو قوم پرست ''ہندو راستراویدا‘‘ کی اصطلاح کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ جو کچھ بھی ہے، اس کو ''ہندو قوم پرستی‘‘ کے بجائے ''ہندو پولائٹی‘‘ یا سیاسی و سماجی نظام کہنا چاہیے۔
کچھ لوگ ہندو قوم پرستی کو مقامی سوچ کا دھارا بھی کہتے ہیں۔ مقامی سوچ کا یہ دھارا ہندوستان کی تاریخ میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف پیدا ہونے والی سوچ سے جا کر جڑتا ہے۔ بر صغیر میں برطانوی راج کے خلاف تحریک کی بنیاد یہی تھی۔ اس تحریک کے کئی سیاسی و سماجی رنگ تھے۔ اس تحریک میں ایسے لوگ بھی شامل تھے، جو مسلح جدوجہد کو آزادی کا واحد راستہ تصور کرتے تھے۔ کچھ عدم تشدد کو نجات کا واحد راستہ قرار دیتے تھے۔ کچھ سرمایہ دارانہ جمہوریت اور کچھ سوشلزم کی بات کرتے تھے، لیکن ان سب کے پیچھے فلسفہ مقامی حکومت کا قیام ہی تھا۔
ہندو مذہبی بنیاد پرستی کے ساتھ ساتھ بھارت میں ہندوتوا کی تحریک کا رجحان بھی نیا نہیں ہے۔ یہ رجحان مختلف اشکال میں ہندوستان میں صدیوں سے موجود رہا ہے‘ مگر سیاسی سطح پر بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہندو قوم پرست سیوارکر جیسے رہنمائوں کی وجہ سے اس اصطلاح کو شہرت ملی۔ بیسویں صدی میں سیوارکر پہلا آدمی تھا، جس نے لفظ ہندو کو ہندوتوا کے معنوں میں استعمال کیا۔ اس کے نزدیک ہندو وہ ہے جو انڈیا کو اپنی مادرِ وطن اور مقدس دھرتی سمجھتا ہے؛ چنانچہ وہ ہندو ازم اور ہندو میں اس طریقے سے فرق کرتا ہے۔ گاندھی اور نہرو کے ساتھ اس کا فکری اور سیاسی اختلاف اسی رجحان کا عکاس تھا۔ ان لوگوں کے خیال میں گاندھی اور نہرو میں اتنی ہندو قوم پرستی نہیں تھی کہ وہ ''ہندو راستراویدا‘‘ کا تحفظ کر سکیں۔
دوسری طرف مہاتما گاندھی اپنے آپ کو ہندو قوم پرست نہیں کہتے تھے۔ مگر وہ"''دھرما‘‘ اور ''راما راجیا‘‘ کو اپنی سیاسی اور سماجی فلسفے کا حصہ سمجھتے تھے۔ لیکن گاندھی جی سے جب پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک انگریزوں سے سیاسی آزادی کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے کہا: سیاسی آزادی کا میرے نزدیک یہ مطلب نہیں ہے کہ برطانوی ہائوس آف کامنز کی نقل کی جائے یا سوویت یونین کا طرزِ حکمرانی اختیار کیا جائے اور نہ ہی سیاسی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ جرمنی کی نازی انداز حکمرانی یا اٹلی کا فاشسٹ نظام اپنایا جائے۔ ان کا اپنا نظام ہے جو ان کے مقامی حالات کے مطابق ہے۔ ہمارا اپنا نظام ہونا چاہیے، جو ہمارے مقامی حالات کے مطابق ہو۔
گاندھی پر سیوارکر اور دوسرے ہندو رہنمائوں کی سخت تنقید کی بنیاد یہ تھی کہ وہ بقول ان کے مسلمانوں کو خوش کرنے اور رجھانے کے فلسفے پر عمل پیرا تھے۔ ہندو مذہبی بنیاد پرستوں اور کچھ ہندو قوم پرست قوتوں میں اس بنا پر گاندھی کے خلاف سخت غصہ تھا؛ چنانچہ جب پاکستان کو اس کے حصے کا پانچ سو پچاس ملین روپیہ ادا کرنے کے معاملے پر گاندھی نے تا دم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کیا تو ہندو قوم پرست قوتوں کا غصہ آسمان پر پہنچ گیا۔ گاندھی نتھو رام گوڈسے کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔
گاندھی کی موت سے بھارت میں مذہبی رواداری اور روشن خیالی کی قوتوں کو دھچکا لگا۔ نہرو کی مضبوط روادار قیادت کے باوجود سیکولر قوتیں بنیاد پرستوں کے خوف میں مبتلا ہو گئیں۔ یہ لوگ دفاعی پوزیشن میں چلے گئے؛ چنانچہ سیکولر آئین و قانون ہونے کے باوجود رواداری اور روشن خیالی کے نظریات اور اخلاقیات کے فروغ کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ نتیجتاً کانگرس بھارت کی سیکولر قوتوں کی نمائندہ جماعت کی حیثیت سے مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ کمیونسٹ اور مارکسسٹ طویل مدتی حکومتوں اور وسیع عوامی حمایت کے باوجود اپنے وعدوں اور بنیادی منشور پر عمل درآمد میں ناکام رہے۔ مسلمان یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارتی سیاست میں ان کی بقا کا راز سیکولرازم میں مضمر ہے، سیکولرازم کو دل سے قبول کرنے اور اپنے آپ کو عام دھارے کی سیاست میں شامل کرنے میں ناکام رہے۔ ان تینوں کی ناکامی کے بطن سے ہندو مذہبی بنیاد پرستی اور ہندو قوم پرستی نے جنم لیا، اسی نے مودی کو موجودہ کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔