حقیقت پسندی صرف افراد کی ہی ضرورت نہیں، یہ ریاستوں کی بھی مجبوری ہے‘ خواہ وہ ریاست دنیا کی واحد سپر پاور ہی کیوں نہ ہو۔ لندن میں سپر طاقت کے سربراہ کے ساتھ عوام کے پیسے سے شاہی سلوک ہوا، مگر عوام نے بھی یہ حقیقت آشکار کر دی کہ یہ شخص عوام میں بہت غیر مقبول ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے آپ کو نیشنلسٹ کہتے ہیں۔ بطور صدر انہوں نے بڑی حد تک امریکہ کی خارجہ پالیسی کو ایک نیونیشنلسٹ کی نگاہ سے دیکھنے اور اس کا رخ موڑنے کی کوشش کی‘ مگر یہ پالیسی ہر اس جگہ ناکام رہی، جہاں اس کی فوری کامیابی کی سخت ضرورت تھی۔ اس کی ایک کلاسیکل مثال افغانستان ہے، جہاں سے وہ فی الفور فوجیں نکالنے کا ایجنڈا لے کر آئے تھے، مگر اپنے فوجی مشیروں کے مشورے سے وہ یہ ایجنڈا مسلسل بدلتا رہے۔ یہاں تک کہ ان کے اور ان کے پیشروئوں کے ایجنڈے میں کوئی فرق نہ رہا۔ گویا ٹرمپ نیو نیشنل ازم کے بجائے حقیقت پسندی کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہوئے۔ ٹرمپ کا نیو نیشنل ازم یا تنگ نظر قوم پرستی کا نظریہ کم از کم خارجہ پالیسی کے باب میں اڑان سے پہلے ہی زمین بوس ہو گیا۔
ٹرمپ سے پہلے کے تین صدور نیو لبرل ازم کے بارے میں اتنے ہی پر جوش تھے، جتنا وہ ابتدا میں نیو نیشنل ازم کے بارے میں رہے ہیں۔ نیو لبرل ازم کا جو حشر ہوا‘ اس کی ایک ہلکی سی جھلک امریکی لکھاری میئر شائمر نے اپنی کتاب ''عظیم سراب‘‘ میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے خیال میں نیو لبرل ازم دنیا میں سپر طاقت کی برتری اور غلبہ قائم کرنے کا نظریہ ہے، جو اپنے مقاصد کے حصول میں تباہ کن نا کامی سے دوچار ہوا۔
مغرب میں خارجہ امور کی اشرافیہ کے ایک بڑے حصے کو یقین ہے کہ دنیا میں نیو لبرل ازم کا غلبہ یا برتری ایک دانش مندانہ پالیسی ہے اور یہ انسانی حقوق کے تحفظ کا بہترین طریقہ ہے، جن کی عموماً مطلق العنان حکومتوں کی طرف سے خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ لبرل پالیسی والوں کو یقین ہے کہ جمہوریتیں آپس میں جنگ نہیں کرتیں، اس لیے عالمی امن قائم کرنے کا بہترین فارمولہ دنیا میں جمہوریت کی درآمد برآمد ہے۔ اور یہ خود اپنے ملک کے اندر بھی لبرل ازم اور آزاد خیال جمہوریت کے تحفظ کا بہترین طریقہ ہے۔
میئر شائمر کے خیال میں یہ روایتی دانش غلط ہے۔ کوئی بھی بڑی طاقت سچی لبرل خارجہ پالیسی نہیں اپنا سکتی۔ اور جب ایک سے زائد عظیم قوتیں موجود ہوں تو ان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے لبرل پالیسی کے بجائے ''حقیقت پسندی‘‘ کی پالیسی اپنانا پڑتی ہے۔ عظیم طاقت کی ایک بڑی پریشانی ان کی اپنی بقا ہوتی ہے۔ ایک بائی پولر یعنی دو قطبی یا ملٹی پولر یعنی کثیر قطبی نظام میں اسے دوسری طاقت کی طرف سے حملے یا کسی اور مخالفانہ کارروائی کا خوف ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں لبرل طاقتیں آزاد خیالی کا پرچار کرتی رہتی ہیں۔ وہ گفتگو ایک آزاد خیال کی طرح کرتی ہیں، مگر ان کا عمل ایک حقیقت پسند کی طرح ہوتا ہے۔
سچے لبرلز یا آزاد خیال لوگ فطری انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اس سیارے پر بسنے والے ہر فرد کے انفرادی حقوق کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں۔ اس طرح کا علمی قسم کا منطق ایک طاقت ور لبرل ریاست کو یہ ترغیب دیتا ہے کہ وہ ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے، جو اپنے شہریوں کے حقوق غضب کرتی ہیں۔ ان کے حقوق کے تحفظ کا ایک طریقہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے ہاں بھی لبرل جمہوریت قائم کر دی جائے۔ اس مقصد کے لیے مطلوبہ ملک میں ''رجیم چینج‘‘ یعنی سرکار کی تبدیلی کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد ایک مطلق العنان حکومت کی جگہ جمہوری حکمران کو لانا ہوتا ہے۔ لبرل ایسا کرنے سے نہیں شرماتے‘ کیونکہ ان کو اپنے سوشل انجینئرنگ کے نظریے پر بڑا یقین ہوتا ہے۔ لبرل جمہوریتوں پر مشتمل ریاستوں کے قیام میں ان کو عالمی امن بھی نظر آتا ہے۔
نیو لبرل ازم اس سارے جوش و خروش کے باوجود اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے‘ اور اس کو اس ناکامی کی بہت بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی ہے۔ اس طرح لبرل ریاست جنگ اور دہشت گردی جیسے مسائل میں کمی کے بجائے اضافے کا باعث بنتی رہی ہے۔ اور ریاست کا ''فوجی مہم جوئی‘‘ کا رجحان خود اس کے لبرل ازم کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتا رہا ہے۔ یوں دوسرے ممالک میں لبرل ازم پھیلانے کا عمل خود ملک کے اندر لبرل ازم کو گھٹاتا رہا ہے۔ اور اگر لبرل ریاست دوسرے ممالک میں اپنی پسند کی جمہوریت پھیلانے، آزاد معاشی تعاون، اور عالمی ادارے تشکیل دینے میں کامیاب بھی ہو جائے، تو یہ عالمی امن کی ضمانت نہیں ہو سکتی۔
لبرل ازم کی حدود و قیود کو سمجھنے کے لیے قوم پرستی اور حقیقت پسندی کے ساتھ اس کے تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔ قوم پرستی ایک طاقت ور سیاسی نظریہ ہے۔ لبرل ریاستیں بھی قومی ریاستیں ہوتی ہیں۔ لبرل ازم اور قوم پرستی ایک ساتھ چل سکتے ہیں، مگر جہاں کہیں بھی ان کے درمیان تصادم پیدا ہوتا ہے، وہاں اکثر قوم پرستی ہی فتح مند ہوتی ہے۔
قوم پرستی سے ہمیشہ لبرل خارجہ پالیسی متاثر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر قوم پرستی حقِ خود ارادیت پر بہت زیادہ زور دیتی ہے اور ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مخالفت کرتی ہے۔ بسا اوقات قوم پرستی اور لبرل ازم کا انسانی حقوق کے معاملے پر بھی تضاد ہو سکتا ہے۔ لبرل سوچ کے مطابق ہرآدمی کو مساوی حقوق حاصل ہونے چاہئیں، خواہ اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔ جبکہ قوم پرستی حقوق کو اپنی سرحدوں تک محدود کرتی ہے۔ دنیا میں عام لوگوں کی اکثریت دوسرے ممالک کے شہریوں کے حقوق کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہوتی۔ وہ لوگ صرف اپنے ہم وطنوں کے بارے میں سوچتے ہیں، یہ بھی محدود پیمانے پر ہی ہوتا ہے۔
امریکہ ایک آزاد خیال ریاست ہے، جو سرد جنگ کے اندر سے دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر ابھری۔ انیس سو اکانوے میں سوویت یونین کے ٹوٹنے سے اسے دنیا میں لبرل غلبہ قائم کرنے کا بہترین موقع مل گیا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے عین موقع پر فرانسس فوکویاما نے ''دی اینڈ آف ہسٹری‘‘ میں لکھا تھا کہ لبرل ازم نے اس صدی کے پہلے نصف میں فاشزم کو اور دوسرے نصف میں کمیونزم کو شکست دی‘ اور اب اس کے مقابل کوئی بچا نہیں ہے۔ دنیا میں بالآخر لبرل جمہورتیں ہی قائم ہوں گی‘ اور عظیم طاقتوں کے درمیان جنگیں ختم ہو جائیں گی‘ اور اگر انسان کا کوئی مسئلہ باقی رہ جائے گا تو وہ اکتاہٹ ہو گی۔ اس وقت یہ عام خیال تھا کہ لبرل ازم دنیا میں طاقت کی سیاست کا خاتمہ کر دے گا۔
بل کلنٹن نے انیس سو بانوے میں صدارتی مہم کے دوران کہا تھا کہ ہم جس دور میں زندہ ہیں یہ آزادی کا دور ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آزادی اور جمہوریت دنیا کے ہر ملک تک پہنچے گی۔ دو ہزار تین میں عراق پر حملہ کرتے وقت جارج بش نے کہا تھا ''آزادی کو آگے بڑھانا ہمارے وقت کا تقاضا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آزادی قدرت کا ''ڈیزائن‘‘ ہے، آزادی صرف ہمارے لیے نہیں ہے، آزادی پوری انسانیت کا حق ہے‘‘۔ مگر بد قسمتی سے اس خیال کو دنیا میں پھیلانے کی کوشش کے دوران بہت کچھ غلط ہوا۔ آج بیشتر امریکی اس طرح نہیں سوچتے جس طرح وہ انیس سو اکانوے میں یا پھر دو ہزار تین میں سوچتے تھے۔ آزادی اور انسانی حقوق کے نام پر امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں تباہی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا، اس تباہی اور بربادی کے جلدی ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ یہ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ1989 سے لے کر امریکہ ہر تین میں سے دو سال حالت جنگ میں رہا ہے‘ اور اب تک سات مختلف جنگیں لڑ چکا ہے۔ اس سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جعلی لبرل خارجہ پالیسی امن اور تعاون کا فارمولہ نہیں ہے، بلکہ یہ عدم استحکام اور تصادم کا فارمولہ ہے۔ ٹرمپ نے آغاز ایک تنگ نظر قوم پرستی سے کیا تھا‘ مگر نیو لبرل ازم کے سراب کی طرح ٹرمپ کی قوم پرستی بھی سراب ثابت ہوئی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک سپر پاور حقیقت پسندی کے علاوہ کوئی اور پالیسی اپنا کر اپنا کردار اور عالمی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکتی۔