"FBC" (space) message & send to 7575

یہ حتمی فیصلے کی گھڑی ہے!

وزیر اعظم پاکستان نے اپنے بھارتی ہم منصب کو خط لکھا ہے۔ اس خط کا لب لباب یہ ہے کہ اس خطے سے غربت کے خاتمے کے لیے امن و استحکام ضروری ہے۔ امن و استحکام کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے تمام تصفیہ طلب مسائل بشمول مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔
خط کا متن جانا پہچانا ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کی وزارت ہائے خارجہ کے آرکائیوز پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمیں ایسے درجنوں خطوط مل جائیں گے، جن کا متن اور لب و لہجہ اس قدر ملتا جلتا ہے کہ بظاہر یہ سارے خطوط ایک ہی خط کی فوٹو کاپی لگتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس طرح کے خطوط کی طویل تاریخ ہے۔ سب سے پہلے خط اور آخری خط کے درمیان سات دہائیوں کا طویل وقت حائل ہے۔ پھر بھی خط میں اس قدر یکسانیت ہے۔ یہ یکسانیت اس تلخ حقیقت کا اظہار ہے کہ ہم تاریخ میں بہت پیچھے یعنی بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی میں کہیں اٹکے ہوئے ہیں۔ اس باب میں وزارت خارجہ کے اس پہلے بابو کی تحریری صلاحیتوں کو داد دینا پڑتی ہے، جس نے امن کی خواہش اور مذاکرات کی ضرورت کو ایسے سادہ اور دل نشین پیرائے میں قلم بند کر دیا کہ آنے والے افسروں اور دانشوروں کو اس میں کسی نقطے یا کامے کی تبدیلی کی بھی ضرورت نہیں محسوس ہوئی۔ 
پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی تاریخ بہت طویل ہے۔ سال انیس سو سینتالیس میں تقسیم کے فوراً بعد جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر کشیدگی بڑھی تو دونوں کے درمیان مذاکرات کی خواہش اور ضرورت کا اظہار ہوا۔ دونوں کے درمیان پہلے مذاکرات کروانے کا بیڑا خود لارڈ مائونٹ بیٹن نے اٹھایا۔ اس وقت ایک طرف پنڈت جواہر لال نہرو اور دوسری طرف قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ دونوں نا صرف اپنی اپنی اقوام کے غیر متنازعہ رہنما تھے، بلکہ علم، تجربے اور دانش کے علاوہ فیصلہ کرنے کا نا قابل چیلنج اختیار بھی رکھتے تھے۔ مگر بد قسمتی سے اس موقع پر پنڈت نہرو کی اچانک علالت کی وجہ سے یہ مذاکرات نہ ہو سکے اور یہ تاریخی موقع ضائع ہو گیا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکاری سطح پر پہلے کامیاب مذاکرات انیس سو پچاس کے موسم بہار میں ہوئے تھے۔ یہ مذاکرات مسلسل چھ دن جاری رہے، جس کے نتیجے میں آٹھ اپریل کو لیاقت نہرو پیکٹ ہوا۔ اسے دہلی پیکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اس نوعیت کا پہلا معاہدہ تھا، جو باہمی مذاکرات کا نتیجہ تھا۔ اگرچہ قبل ازیں انیس سو انچاس میں دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ کراچی ہو چکا تھا، مگر اس کے پیچھے باہمی مذاکرات کے بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی برادری کا کردار تھا، جو کشمیر میں جنگ بندی اور اس معاہدے پر منتج ہوا تھا۔
سال انیس سو تریپن میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے مسئلہ کشمیر حل کرانے میں غیر معمولی دلچسپی کا اظہار شروع کیا۔ اس مقصد کے لیے ایک امریکی ریپبلکن پال ہوفمین کا انتخاب کیا گیا۔ پال اس سے پہلے فورڈ فائونڈیشن کے سربراہ کی حیثیت سے پاکستان اور بھارت میں کام کر چکا تھا‘ اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اپریل انیس سو تریپن میں وہ پنڈت نہرو سے ملا۔ دونوں کی گفتگو میں تین آپشن زیر غور آئے۔ پہلا آپشن پوری ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری تھا۔ دوسرا حل صرف وادیٔ کشمیر میں رائے شماری کا تھا، اور تیسرا حل کشمیر پر پاکستان و بھارت کا مشترکہ کنٹرول تھا۔ پال ہوفمین کے مطابق پنڈت نہرو ان تینوں آپشنز پر غور کے لیے تیار تھے۔
پنڈت نہرو سے مذاکرات کے بعد ہوفمین کراچی پہنچا اور محمد علی بوگرا سے ملاقات کی۔ اس کوشش کے نتیجے جولائی انیس سو تریپن میں نہرو بوگرا مذاکرات ہوئے۔ دونوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے رائے شماری پر اتفاق کیا اور اپریل انیس سو چوّن میں ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد کئی سال یو این کمیشن برائے رائے شماری پر سفارت کاری کی نذر ہو گئے۔
طویل وقفے کے بعد دونوں کے درمیان مذاکرات کی ایک اور سنجیدہ کوشش دسمبر انیس سو باسٹھ میں ہوئی، اور باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہوا۔ ان اہم ترین مذاکرات کو بھٹو سورن سنگھ مذاکرات کہا جاتا ہے۔ ان مذاکرات کے چھ طویل دور ہوئے۔ ان مذاکرات کے دوران دونوں ممالک نے اپنی روایتی لگی بندھی پالیسی میں کچھ لچک دکھائی۔ پاکستان نے رائے شماری کے علاوہ کشمیر پر کسی دوسرے حل پر غور کرنے پر آمادگی ظاہر کی، جبکہ بھارت نے کشمیر کی سرحدوں پر رد و بدل کے ذریعے کشمیر کا پندرہ سو مربع میل علاقہ پاکستان کو دینے کا عندیہ دیا۔ ان مذاکرات سے بر صغیر میں امن کی ایک امید پیدا ہوئی‘ لیکن نتیجہ کوئی نہ نکلا۔ مزید مایوسی کی بات یہ تھی کہ اپنی موت سے پہلے سردار سورن سنگھ نے تسلیم کیا کہ مذاکرات جاری رکھنے کا مقصد کوئی حل نکالنا نہیں، بلکہ امریکی اور برطانوی دبائو سے بچنا تھا۔
انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے بعد سوویت یونین کی ثالثی سے ایک بار پھر مذاکرات کا آغاز ہوا‘ اور انیس سو چھیاسٹھ کا تاشقند ڈیکلریشن سامنے آیا، جسے تاریخ میں معاہدہ تاشقند کہا جاتا ہے۔ یہ بر صغیر میں امن کے باب میں بہت ہی اہم اور سنجیدہ معاہدہ تھا‘ مگر اس معاہدے کے باوجود کشمیر اور دوسرے تصفیہ طلب معاملات جوں کے توں رہے۔ 
چھ سال بعد پاکستان کے طوفان خیز اندرونی واقعات اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جون انیس سو بہتّر میں پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے مابین طویل مذاکرات شملہ معاہدے پر منتج ہوئے۔ شملہ معاہدہ بر صغیر میں قیام امن کی طرف ایک اہم قدم تھا۔ اس کے بعد مختلف وزارتی اور حکومتی سطح پر مکالمے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس باب میں رونما ہونے والے اہم واقعات میں انیس سو ستاسی میں جنرل ضیا کی کرکٹ ڈپلومیسی، انیس سو اٹھاسی میں بے نظیر بھٹو کی میزبانی میں اسلام آباد کی سارک کانفرنس اور راجیو گاندھی اور بے نظیر کے درمیان مکالمے کے باوجود تعلقات میں سرد مہری قائم رہی۔ اس سے اگلا اہم واقعہ انیس سو ستانوے میں اندر کمار گجرال اور نواز شریف کے درمیان مکالمہ تھا۔ اس مکالمے میں کشمیر کے علاوہ سر کریک، سیاچن، دہشت گردی اور منشیات، وولر بیراج جیسے معاملات زیر غور آئے۔ اس کے بعد انیس سو ننانوے میں کارگل، سال دو ہزار ایک میں آگرہ سمٹ کی ناکامی جیسے واقعات رونما ہوتے رہے‘ مگر اس میدان میں قابل ذکر پیش رفت اس وقت ہوئی جب بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بیس فروری انیس سو ننانوے کو بس پر بیٹھ کر لاہور آئے۔ یہاں اعلانِ لاہور جاری ہوا، جو بعد میں کارگل بحران کا شکار ہو گیا۔ کچھ توقف کے بعد مشرف واجپائی دور میں بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے کشمیر پر سنجیدہ مکالمہ ہوا۔ اس ڈپلومیسی سے مشرف واجپائی فارمولہ سامنے آیا‘ جو بوگرا نہرو مذاکرات کے بعد اس باب میں شاید سب سے سنجیدہ کوشش تھی۔
دو ہزار ایک میں دونوں ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ان کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان ہے، جس کے بعد اعتماد سازی کی سیاست کا آغاز ہوا۔دو ہزار چار میں مشرف من موہن سنگھ مذاکرات کے بعد سرینگر مظفر آباد بس سروس کا آغاز ہوا۔ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان انتہائی کامیاب سفارت کاری تھی۔ اعتماد سازی کا یہ سلسلہ ممبئی حملوں کی نذر ہو گیا۔ گیلانی اور من موہن سنگھ کے درمیان دو ہزار دس میں بھوٹان ملاقات کے بعد دو طرفہ بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ یہ سلسلہ حالیہ برسوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوتا رہا۔ حال ہی میں تعلقات کی کشیدگی اتنی بڑھی کہ بھارت کی طرف سے بالا کوٹ فوجی کارروائی اور پاکستان کی طرف سے جوابی حملوں تک نوبت پہنچی۔ اب وزیر اعظم عمران خان نے تازہ ترین خط ایک ایسے وقت میں لکھا ہے‘ جب بھارت کی نومنتخب حکومت ایک منظم منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں آئینی اور انتظامی تبدیلیوں کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کا حتمی فیصلہ کر چکی ہے۔ اس منصوبے پر عمل کیلئے بھارتی حکومت کو سات آٹھ ماہ کا وقت چاہیے۔ پاکستان کے پاس بھی کچھ کرنے کیلئے بس یہی وقت ہے۔ اگر پاکستان اس وقت سے فائدہ اٹھا کر فیصلہ کن مذاکرات نہیں کرتا تو شاید اس باب میں بہت دیر ہو جائے، اور آخری موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے۔ یہ حتمی فیصلے کی گھڑی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں