اتوار کے روز لندن سے ٹورانٹو کے درمیان بحر اوقیانوس پر لمبی پرواز کے دوران میں نے کئی باتوں پر غور کیا۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ کیا اہل مغرب ہم جنوبی ایشیا کے تارکین وطن سے مکمل نا امید ہو چکے۔ اور ہم سے مایوس ہو کر انہوں نے ہمیں ہمارے شہروں میں اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے اور اس بات پر پختہ یقین کر لیا ہے کہ ہم لوگ اپنی عادات و اطوار اور رہن سہن کے حوالے سے بے لچک ہیں‘ اور بدلنے والے لوگ نہیں ہیں؛ چنانچہ ہم لوگوں کے انداز و اطوار اور طرزِ زندگی میں تبدیلی یا ''اصلاح‘‘ کے چکر میں ملکی وسائل‘ ٹیکس ادا کرنے والوں کا پیسہ اور وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ مغرب کی اس تازہ ترین پالیسی کے کچھ مظاہر یا جھلکیاں میں لندن اور برمنگھم میں دیکھ چکا تھا‘ اور تفصیلات کچھ دوستوں سے سن چکا تھا۔
روایتی اعتبار سے مغربی ممالک میں ایشیائی تارکین وطن کو اپنی الگ بستی بسانے کا بہت شوق رہا ہے۔ اس شوق کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ ظاہر ہے زبان‘ مذہب‘ ثقافت‘ رنگ نسل‘ بود و باش‘ خاص قسم کا طعام اور قیام ہے۔ لوگ اپنی مذہبی عبادت گاہوں‘ سکولوں اور کھانے پینے کی مخصوص اشیا کی دکانوں کی وجہ سے ایک ہی علاقے میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی روزمرہ کی زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے ہمسائے میں قائم مسجد یا مندر میں جا سکتے ہیں۔ بچوں کو ایسے نجی سکولوں یا درس گاہوں میں داخل کروا سکتے ہیں‘ جہاں ان کی زبان یا مذہب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہمسائے میں قائم ''گروسری سٹورز‘‘ سے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق حلال گوشت‘ سبزی اور مرچ مصالحے خرید سکتے ہیں۔ ان سہولیات یا مقاصد کے لیے کوئی ایک مخصوص علاقہ تارکین وطن کے ارتکاز کی وجہ بنتا ہے‘ جو بنتے بنتے ایک بستی بن جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ اس بستی پر ان لوگوں کی ''جنم بھومی‘‘ کا رنگ چڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ جوں جوں یہ رنگ گہرا ہوتا جاتا ہے دوسری زبانوں‘ ثقافتوں اور مذاہب کے لوگ اس علاقے سے نقل مکانی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس نقل مکانی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ویران ہوتے ہوئے چرچ بھی فروخت کر جاتے ہیں‘ جن میں تارکین وطن کی مساجد یا مندر قائم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح جنوبی ایشیا کے تارکین وطن بڑی کامیابی سے مختصر مدت میں اپنی جنم بھومی کی تخلیقِ نو کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اب بظاہر یہ ایک بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ ان لوگوں کی زندگی ان کی پسندیدہ ڈگر پر چل نکلتی ہے۔ مگر بد قسمتی سے اس کامیابی کے دامن میں کئی مسائل اور متعدد مشکلات ہوتی ہیں‘ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتی ہیں۔ جب یہ آفات و مشکلات ایک ایک کر کے سر اٹھانا شروع کرتی ہیں تو لوگوں کو احساس ہونے لگتا ہے کہ جن مشکلات و مسائل سے گھبرا کر ہم نے ترک وطن کیا تھا‘ ہم یہاں دوبارہ انہی مصائب و مشکلات کا شکار ہونے لگے ہیں۔
ان مسائل میں ایک مسئلہ معیارِ زندگی ہے۔ یہ جو نئی نئی دیسی بستیاں بسائی جاتی ہیں‘ ان میں معیارِ زندگی بہتر ہونے کے بجائے بہت تیزی سے رو بہ زوال ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور ایک طویل مدت بعد یہ علاقہ یا بستی کچھ ایسی شکل اختیار کر لیتی ہے کہ تیسری دنیا کے کسی آفت زدہ شہر کی نقل لگنے لگتی ہے۔ ایسی بستی دور سے ہی پہچانی جاتی ہے۔ یہ واضح شناخت محض کھانے پینے کی خوشبو یا بودوباش سے ہی نہیں ہوتی بلکہ کئی دوسرے حوالوں سے یہ ایک مصیبت زدہ اور پچھڑی ہوئی بستی لگتی ہے۔ معیار زندگی یہاں اچانک نہیں گرتا۔ ایسا ایک طویل اور پیچیدہ عمل کے دوران ہوتا ہے۔ اس کی پہلی جھلک گلیوں میں کوڑا کرکٹ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں اگرچہ گھروں کے سامنے گند بلا کے اس طرح ڈھیر نہیں ہوتے جس طرح ''بیک ہوم‘‘ میں دکھائی دیتے ہیں‘ پھر بھی گلیوں اور بازاروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں زندگی باقی شہر سے کافی مختلف ہے۔ مقامی بستیوں کے برعکس یہاں سڑکوں پر گند بلا پھینکنے کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ مقامی شہری حکومت یا میونسپل کارپوریشن شروع شروع میں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔ بے شک میونسپل کارپوریشن کے کچھ کارندوں کے دل میں ایشیائی تارکین وطن کے لیے بغض یا نسل پرستی پر مبنی نفرت بھی ہو‘ لیکن اس طرح کوڑا کرکٹ کا سڑکوں پر دکھائی دینا ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر ایک سوالیہ نشان تو لگاتا ہے؛ چنانچہ شروع شروع میں وہ اس علاقے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ افرادی قوت میں اضافہ کرتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ اٹھانے کے دن اور وقت میں تبدلی کرتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ پھینکنے یا مقررہ معیار کے مطابق صفائی نہ کرنے پر کئی نوٹس جاری کرنے‘ جرمانے کرنے اور تجارت کا لائسنس منسوخ کرنے جیسے اقدامات کرتے ہیں۔ جب اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو وہ صورت حال سے سمجھوتہ کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کو احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ سعیٔ بے کار ہے‘ اور مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والی بات ہے۔ اس طرح یہ بستی اور اس کے انداز و اطوار زندگی کی ایک ایسی حقیقت بن جاتے ہیں‘ جن کو برداشت کیے بغیر ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ میونسپل کارپوریشن یا شہری انتظامیہ کے اس سمجھوتے کے بعد یہاں معیار زندگی مزید گرنے لگتا ہے۔ صفائی کا معیار اس حد تک گر جاتا ہے کہ یہاں ریستورانوں میں مکھیاں منڈلانے لگتی ہیں۔ اکا دکا چوہا بھی کبھی کبھار اپنا درشن کرا دیتا ہے۔
ان علاقوں میں رہنے سہنے یا کام کاج کرنے والے لوگ اب یہ اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں کہ کوڑا کرکٹ جب اور جہاں چاہیں پھینکیں‘ ریستوران کتنا صاف یا گندہ ہو یہ طے کرنا ان بستیوں میں رہنے والے لوگوں کا حق ہے۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اب وہ بہت ساری پابندیوں سے آزاد ہیں۔ یہ ''آزادیاں‘‘ انہوں نے بہت بڑی محنت اور جدوجہد کے بعد مقامی لوگوں اور میونسپل کارپوریشن سے حاصل کی ہوتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے کبھی مذہب کا سہارا لیا۔ کہیں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی آڑ لی۔ کہیں اپنی ثقافت یا زبان کو ہتھیار بنایا۔ اس طرح وہ ایسی بستیاں بنانے میں کامیاب ہو گئے‘ جن میں ان کی اپنی حکومت اور اپنا چلن ہے۔ سول سروس اور میونسپل کارپوریشن والوں نے ان کی الگ حیثیت اور شناخت کو قبول کر لیا ہے۔ رہے سیاست دان تو وہ ان کے نزدیک موم کے پتلے ہیں۔ بس ‘ان کو یہ ضمانت چاہیے ہوتی ہے کہ ووٹ ان کو باقاعدگی سے ملتے رہیں۔ اور اگر بدلے میں یہ لوگ اپنے لیے گندی بستی یا معیار سے گرا ہوا باڑا بنا لیتے ہیں‘ تو اس سے انہیں کیا فرق پڑتا ہے؟ خود تو وہ رہائش اختیار کرنے سے پہلے خوب جانچ پڑتال کر لیتے ہیں کہ جس علاقے میں وہ رہنا چاہتے ہیں‘ اس علاقے میں کوئی بدیسی نہ آباد ہو۔ بلکہ وہ یہودیوں کی ہمسائیگی میں رہنے پر ترجیح دیتے ہیں پھر یہاں سے ہو کر وہ ''پرولرازم‘‘اور کثیرالثقافتی سماج کا درس دیتے ہیں۔ اور بستیوں کے درمیان خلیج پاٹنے اور پل بننے کی سیاست کرتے ہیں۔
اس بندوبست کے فائدے صرف ان لوگوں کو نظر آتے ہیں‘ جن کا روزگار اس طرح کی بستیوں سے وابستہ ہوتا ہے۔ خواہ وہ دھاگہ تعویز کرنے والے لوگ ہوں‘ یا نام نہاد مذہبی پیشوا‘ نجومی یا قسمت کا حال بتانے والے ہوں۔ حلال گوشت بیچنے والے ہوں یا کمیونٹی لیڈر‘ اگر اس کا نقصان کسی کو ہوتا ہے تو وہ نئی نسل ہے‘ جو اب عام طور پر نشے اور تشدد کی راہ پر چل پڑی ہے۔ ایک وسیع سمندر میں بنے مصنوعی جزیرے میں رہنے کی وجہ سے وہ زندگی اور مستقبل سے مایوس ہیں۔ انہیں اپنے شہر میں دو شہر نظر آتے ہیں۔ ایک صاف ستھرا‘ چمکیلا اور پُر امید شہر۔ اور دوسرا اداسی کے سایوں میں لپٹا ہوا۔ یہ سلسلہ ان کو ڈپریشن کا شکار کر دیتا ہے۔ جس سے وہ نشے اور تشدد کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور تشدد پسند گینگ کا حصہ بن رہے ہیں۔ دیسی لوگوں کو اس طرح مکمل طور پر اپنے حال پر چھوڑ دینے کے عمل سے لگتا ہے کہ مغرب ہم سے مکمل طور پر مایوس ہو چکا ہے۔