کچھ لوگ امیت شاہ کے حالیہ دورہ کشمیر سے کافی امیدیں باندھ چکے ہیں‘ مگر یہ امیدیں اور توقعات زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتیں۔ جس واضح موقف کا اظہار بھارت کی حکمران جماعت کے بیشتر رہنما کر چکے ہیں، ان کی موجودگی میں مذاکرات کے لیے کوئی مشترکہ قدر نظر نہیں آتی۔ نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران اور بعد ازاں جو موقف اختیار کیا، اس میں مذاکرات کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایک مایوس کن بات ہے۔ بر صغیر اور جنوبی ایشیا میں امن کا راستہ بڑا دشوار گزار ہے۔ مگر امن محض ایک آپشن نہیں ہے، جس کا انتخاب اختیاری ہو۔ یہ واحد راستہ ہے جو برصغیر کے کروڑوں مفلوک الحال لوگوں کو امید کی کرن دکھا سکتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے کچھ ہندو قوم پرست اتحادیوں کا خیال ہے کہ تاریخی اعتبار سے ہندوستان کی حکومتوں اور لیڈرشپ نے مسئلہ کشمیر کو الجھایا ہے۔ دائیں بازو کے ہندو قوم پرست دانشوروں کا خیال ہے کہ پنڈت نہرو نے کشمیر پر کئی سنگین غلطیوں کا ارتکاب کیا۔ ان میں‘ ان کی ایک سنگین غلطی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جانا تھا۔ ان کے خیال میں اس اقدام سے ہندوستان کے ہاتھ باندھ دیے گئے۔ اس غلطی سے عالمی طاقتوں کو کشمیر کے اندر مداخلت کا موقع مل گیا‘ جس سے کشمیر عالمی سازشوں کا اکھاڑہ بن گیا۔ ان کے خیال میں نہرو کی دوسری بڑی اور سنگین غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ریاست جموں و کشمیر کو دیگر ریاستوں کی طرح سردار پٹیل پر چھوڑنے کے بجائے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ ایک کشمیری پنڈت کا پس منظر رکھنے کی وجہ سے جواہر لال نہرو کی کشمیر کے ساتھ جو جذباتی وابستگی تھی‘ وہ ان کے پائوں کی زنجیر بن گئی۔ ان کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ شیخ عبداللہ کے ساتھ ان کی گہری دوستی اور کسی حد تک نظریاتی ہم آہنگی تھی‘ جس کی وجہ سے انہوں نے کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کے لیے ایک سیدھے سادے راستے کے بجائے ایک طویل اور پیچیدہ راستہ اختیار کیا۔ ان کے خیال میں اس مسئلے کو اتنا الجھانے کے بجائے اگر سردار پٹیل کے حوالے کر دیا جاتا تو وہ حیدر آباد اور جونا گڑھ وغیرہ کی طرح طاقت کے زور پر کشمیر لے سکتے تھے۔ یہ موقف رکھنے والوں میں ایک مضبوط لابی وہ ہے جو روایتی طور پر نہرو کے سوشلسٹ نظریات اور گاندھی کی عدم تشدد اور امن پسندی کی پالیسی کے خلاف رہی ہے؛ چنانچہ یہ لوگ ان دو شخصیات کی تاریخی حیثیت اور قد کاٹھ کی وجہ سے ان پر براہ راست تنقید کے بجائے کشمیر جیسے الجھے ہوئے مسائل کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں، تاکہ ان مسائل کی آڑ میں ان شخصیات کی خامیوں اور کمزوریوں پر بات کی جا سکے۔
نریندر مودی ان لوگوں کے خیالات سے متفق ہیں۔ وہ ان سے ملتے جلتے خیالات کا متعدد بار اظہار کر چکے ہیں۔ وہ کئی بار یہ واضح کر چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو اس طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا، جس طریقے سے ماضی کے بھارتی لیڈر اسے حل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ نریندر مودی کے نزدیک مسئلہ کشمیر کا حل یہ ہے کہ اس مسئلے کو ہی جڑ سے ختم کر دیا جائے۔ وہ سرکاری اور نجی محفلوں میں یہ مسئلہ ختم کرنے کا روڈ میپ پیش کرتے رہے ہیں۔ اس روڈ میپ میں تین اہم اقدامات شامل ہیں۔ پہلا قدم مقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ہے۔ ان کے خیال میں یہ مسئلہ اس لیے آج تک زندہ ہے کہ بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ یہ خصوصی حیثیت ختم کرنے سے یہ مسئلہ کافی حد تک ختم ہو جاتا ہے؛ چنانچہ اس مقصد کے لیے آئین کی دفعہ تین سو ستر میں تبدیلی یا اس کی منسوخی ضروری ہے۔ دوسرا اہم قدم پینتس اے کو ختم کرنا ہے۔ یہ دفعہ ختم کرنے سے بطور ''سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ کشمیریوں کی خصوصی مراعات ختم ہو جاتی ہیں، اور ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے لوگوں کو مقبوضہ کشمیر میں جائیدادیں خریدنے اور کاروبار وغیرہ کا موقع مل جاتا ہے۔ ان کے خیال میں ''سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ کی رکاوٹ ہٹانے کے بعد باقی ہندوستان سے بڑے پیمانے پر لوگ آ کر ریاست جموں و کشمیر میں آباد ہو جائیں گے، جس سے یہاں کی ''ڈیموگرافی‘‘ بدل جائے گی۔ اور ڈیموگرافی کے بدلنے سے کشمیر کے اندر موجود آزادی یا علیحدگی کی تحریک خود بخود ختم ہو جائے گی۔ تیسرا قدم ریاست کی قانون ساز اسمبلی کی نشستوں میں اس طرح رد و بدل اور اضافہ کرنا ہے، جس سے ریاست جموں و کشمیر کی سیاست میں وادیٔ کشمیر کی غالب حیثیت اور اختیار ختم ہو جائے گا۔ اس سے ریاست کی سیاست میں جموں اور لداخ کا کردار بڑھ جائے گا، جہاں اس طرح ہندوستان مخالف جذبات نہیں ہیں، جو مقبوضہ وادی میں پائے جاتے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ ان تینوں اقدامات کے لیے پاکستان یا حریت قیادت سے مذاکرات یا مشورے کی ضرورت نہیں ہے‘ اور قانون ساز اسمبلی کی عدم موجودگی اور گورنر راج کی وجہ سے کچھ اقدامات صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بھی کیے جا سکتے ہیں، جس کے لیے ریاست کی قانون ساز اسمبلی کی منظوری ضروری نہیں ہو گی۔ اور اگر ایسا کرنا ناگزیر ہوا تو اس کا بھی حسب روایت جوڑ توڑ یا سازش کے ذریعے بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کے حامی طاقت ور ہندو نیشنلسٹ حلقوں میں اس روڈ میپ کی کامیابی کے بارے میں ضرورت سے زیادہ خوش فہمی پائی جاتی ہے۔ یہ خوش فہمی حکومت کو ریاست کے اندر علیحدگی پسند، ناراض اور بے چین حلقوں کے ساتھ مذاکرات سے روکتی ہے۔
بھارتی حکومت کی طرف سے اگر گاہے مذاکرات کی بات ہو بھی تو یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ یہ مذاکرات ہندوستانی آئین کے دائرے کے اندر ہوں گے‘ اور کشمیریوں کی طرف سے صرف کسی ایسے مطالبے پر ہی غور کیا جا سکتا ہے جسے ہندوستانی آئین کے دائرہ کار کے اندر رہ کر پورا کرنا ممکن ہو۔ جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کی اندرونی خود مختاری، مرکز اور ریاست کے درمیان اختیارات اور مالی وسائل کی تقسیم جیسے مسائل پر ہی پر بات ہو سکتی ہے۔ اس بات کا لازمی مطلب یہ ہے کہ کشمیری رہنما پہلے یہ تسلیم کریں کہ ریاست جموں و کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور وہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کی بات نہ کریں۔ دوسری طرف کشمیریوں کا شروع سے یہ موقف رہا کہ وہ بھارتی آئین کے اندر رہ کر مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی پیشگی شرط یہ ہے کہ ہندوستان سے مذاکرات کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کرے۔ کشمیریوں کی طرف سے دوسری بڑی شرط یہ رہی ہے کہ کشمیر سے متعلق تمام فوجی قوانین کو معطل کیا جائے۔ ان تمام قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے، جو تحریک کے دوران گرفتار ہوئے ہیں۔ سب سے اہم اور بڑا مطالبہ یہ ہے کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دوران کشمیری نمائندوں کو ایک بنیادی فریق کی حیثیت میں شامل کرے۔
جیسا کہ ظاہر ہے‘ دونوں فریقوں کے درمیان بنیادی باتوں پر شدید اختلاف رائے ہے، جس کی موجودگی میں مذاکرات کا آغاز ہی ایک مسئلہ ہے۔ تاریخی اعتبار سے اٹل بہاری واجپائی نے اس معاملے میں ہندوستان کے عام موقف سے ہٹ کر ایک غیر روایتی موقف اختیار کیا تھا۔ انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات بھارتی آئین کے دائرے میں رہ کر کرنے کے بجائے انسانیت کے دائرے کے اندر بھی ہو سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں جنرل مشرف نے بھی پاکستان کی روایتی پالیسی سے ذرا ہٹ کر بات کی تھی۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا۔ یہ فارمولہ پاکستان کی روایتی پالیسی سے بہت مختلف تھا۔ اس فارمولے میں کشمیر سے فوجوں کے انخلا اور کشمیر کے مختلف حصوں میں مشترکہ انتظامیہ کے قیام جیسی نئی تجاویز شامل تھیں۔ دونوں طرف سے اس خوشگوار تبدیلی کی وجہ سے اس وقت کشمیری رہنمائوں اور بھارتی حکام کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ واجپائی کے بعد من موہن سنگھ کے دور میں بھی یہ مذاکرات جاری رہے، جو بعد میں دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں تعطل کا شکار ہو گئے۔ اس پس نظر اور موجودہ معروضی حالات کے تناظر میں امیت شاہ کے دورے سے فوری نتائج کی توقع حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔