''کسی قوم میں ٹیکس لگا کر خوشحالی لانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی ایک بالٹی میں کھڑا ہو کر بالٹی اوپر اٹھانے کی کوشش کرے‘‘ ونسٹن چرچل کا یہ قول آج بھی قومی خوشحالی میں لگان کے کردار کے باب میں دہرایا جاتا ہے۔ ٹیکس بے شک کسی قوم کی خوشحالی کا ذریعہ نہیں بن سکتے، لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ دولت کی از سر نو تقسیم کے معلوم طریقوں میں سے ایک بڑا مؤثر طریقہ ہے۔ پاکستان میں ٹیکسوں کے خلاف حالیہ رد عمل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ٹیکس کی ادائیگی سے وہ ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں یا ان لوگوں کے کام آتے ہیں، جو مالی طور پر ان کی نسبت کم خوش نصیب ہیں بلکہ وہ ٹیکس کو ایک طرح کا جرمانہ تصور کرتے ہیں یا ایک قیمت سمجھتے ہیں جو انہیں اپنی دولت اور خوشحالی پر ادا کرنی پڑتی ہے۔
تاریخی اعتبار سے ٹیکس کو ہمیشہ مشرق و مغرب میں حکمران طبقات کے ظلم و نا انصافی کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہمیں بچپن میں بزرگ راجوں مہارجوں کے مظالم کے قصے سناتے تھے۔ ان میں ایک ٹیکس یا لگان بھی تھا، جسے ظلم کی علامت کے طور پر بیان کیاجاتا تھا۔ ظلم و نا انصافی کے کئی اور قصے ہوتے تھے، جن میں ایک بیگار تھی۔ بیگار کا مطلب یہ ہے کہ ایک ریاستی اہل کار ریاست کے کسی بھی شہری کو بلا معاوضہ کار سرکار پر لگا سکتا تھا۔ کشمیر کے پہاڑوں پر یہ کار سرکار سر انجام دینا بڑا جان جوکھوں کا کام تھا۔ مثال کے طور پر ایک شہری کو حکم دیا جا سکتا تھا کہ وہ سرکار کا سامان اٹھا کر کئی گھنٹوں یا دنوں کا سفر طے کر کے کسی دوسری جگہ تک پہنچا آئے۔ بسا اوقات بھوک پیاس کی حالت میں دشوار گزار راستوں پر سخت سردی یا سخت گرمی میں بلا معاوضہ یہ فریضہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ ہمارے نزدیک یہ ایک سخت سزا تھی۔ مگر بزرگوں کی باتوں سے لگتا تھا کہ کشمیر کے لوگ اس کو اتنی ظالمانہ سزا نہیں سمجھتے تھے، جتنا وہ ٹیکس، لگان یا مالیہ کی ادائیگی کو سمجھتے تھے ۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس وقت کے کچھ راجوں مہارجوں نے بہت زیادہ ٹیکس لگا رکھے تھے ۔ لوگوں کا غصہ اور ناراضگی کم کرنے کے لیے مہاراجہ ہری سنگھ نے اس صورت حال میں تبدیلی کے لیے کئی اقدامات کیے تھے۔ اس نے زرعی قوانین میں اصلاحات کے ذریعے نذرانہ اور مالکانہ کی ادائیگی ختم کی۔ اس نے ٹیکس کا ایک جدید نظام قائم کیا۔ اس نظام کی بہت ساری چیزیں اس وقت کے انگلستان اور دوسرے یورپی ملکوں کی نقل تھیں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ ریاست کے عوام کی اکثریت غریب و تنگ دست تھی۔ ان کے پاس ٹیکس لگانے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں۔ چنانچہ یہاں چولہے اور بھیڑ بکریوں پر ٹیکس لگائے جاتے تھے۔ کئی جگہوں پر ٹیکسوں کا بوجھ پہاڑوں پر رہنے والے غریب لوگوں کی بساط سے باہر تھا۔ چنانچہ بعد میں کچھ علاقوں میں مہا راجہ کے خلاف بغاوت میں جو عناصر کار فرما تھے ان میں ایک عنصر ٹیکس کا نظام بھی تھا۔
یہ صرف ریاست جموں و کشمیر کی بات نہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں ٹیکس کے خلاف عوام کا ابتدائی رد عمل بہت سخت رہا ہے۔ کئی ممالک میں بغاوتیں ہوئیں۔ کوئی بھی سماج جو ٹیکس ادا کرنے کا عادی نہیں ہوتا، اس کو ٹیکس بریکٹ میں لانا ایک با قاعدہ فن ہے، جو اتنا آسان نہیں ہے ۔ لیکن کسی بھی جگہ پر اگر لوگ ٹیکس نہیں دیتے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ لوگ ٹیکس دینا نہیں چاہتے ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ ٹیکس کو سمجھتے نہیں۔ وہ اس کو جابرانہ یا غیر منصفانہ عمل سمجھتے ہیں۔ اب دنیا بھر میں ٹیکس اور اس کی برکات اتنی عام ہو گئی ہیں پھر بھی ہر جگہ ٹیکس پر لوگوں کو تھوڑا بہت شکوہ شکایت ضرور ہے ، لیکن کوئی اسے اب ظالمانہ یا غیر منصفانہ کام نہیں سمجھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ٹیکس کی برکات کا بنفسِ نفیس تجربہ کر چکے ہیں اور یہ جان چکے ہیں کہ تہذیب یافتہ ہونے کی ایک بڑی شرط ٹیکسوں کی ادائیگی بھی ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے پہلے بیس ملکوں کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس میں پاکستان جیسے ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے سیکھنے کے لیے کئی اسباق ہیں۔ ان ملکوں کی فہرست جن میں سکینڈے نیویا اور مغربی یورپ کے کئی ممالک شامل ہیں، جس میں سویڈن، ناروے، جرمنی و جاپان وغیرہ سر فہرست ہیں۔ ان میں سے بعض جگہوں پر لوگ اپنی کل آمدن کے نصف سے بھی زائد یعنی چھپن فیصد ٹیکس کی مد میں حکومت کو ادا کرتے ہیں۔ اتنا بھاری ٹیکس وہ لوگ ادا کرتے ہیں، جو مالی اعتبار سے آسودہ حال لوگ ہیں۔ اور وہ جتنا زیادہ کماتے ہیں اتنا زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ مگر ان معاشروں کے غریب ترین لوگ بھی‘ جو تنگ دستی کا شکار ہوتے ہیں‘ پورے پورے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ہر روز اور ہر سال ان کو کسی نہ کسی ٹیکس کا بوجھ اٹھانا ہوتا ہے۔ خواہ یہ سیلز ٹیکس ہو، یا انکم ٹیکس ہو، کچھ لوگ اس صورت حال پر ناک بھوں ضرور چڑھاتے ہیں، کچھ لوگ اس پر ہلکے پھلکے انداز میں شکایت بھی کرتے ہیں، جیسے وہ بہت زیادہ گرم یا بہت زیادہ سرد موسم کی شکایت کرتے ہیں۔ مگر بار بار کے سروے اور جائزے کے بعد اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ لوگوں کو اتنے بھاری ٹیکسوں سے کوئی خاص شکایت نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ ٹیکس ان کی اپنی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتے ہیں۔ وہ اس کا نتیجہ بھی روزمرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں، جب ان کا بچہ ڈے کیئر یا سکول میں جاتا ہے، جب ان کو صحت و صفائی کی سہولیات نظر آتی ہیں، تو وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے ٹیکس کے پیسے سے ہو رہا ہے اور وہ اس پر خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں۔
ان جدید ترقی یافتہ ملکوں کا مقابلہ ظاہر ہے پاکستان سے نہیں کیا جا سکتا۔ مگر پاکستان میں تاجر اور خوشحال طبقات ٹیکس کے سوال پر یہی کہتے ہیں کہ اگر ہم سے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ٹیکس ادا کرنے کی توقع رکھی جاتی ہے تو جواب میں اس طرح کی سہولیات بھی دی جائیں۔ یہ مطالبہ جائز ہے۔ مگر یہ سہولیات پہلے مہیا کر کے پھر ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا۔ ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا۔ اس کے بر عکس ٹیکس کی ادائیگی کا عمل پہلے ہوتا ہے اور پھر یہ پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں کچھ بنیادی نوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہو تی ہے۔ ٹیکس وصولی کے لیے عوام میں آگہی پیدا کرنا اور ان کا اعتماد جیتنا ضروری ہے تاکہ ان کو یقین ہو کہ ان کا پیسہ ضائع نہیں ہو گا، حکمرانوں کے اللوں تللوں پر نہیں خرچ ہو گا، جیسا کہ تاریخی طور پر ہوتا رہا کہ ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹا جاتا رہا ہے۔ اور دوسرا‘ حکومت کو عوام کو یقین دلانا ہو گا کہ وہ جواب میں سماج کو بنیادی سہولیات فراہم کرے گی۔ اور ان سہولیات تک سب کو بلا تفریق رسائی حاصل ہو گی۔ گویا یہ دونوں باتیں ایک ساتھ چلتی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ تین اقدامات کی ضرورت ہے۔ ٹیکس کو ایک ہندسے یا اعداد و شمار کے بجائے زندگی کی ایک سادہ حقیقت کے طور پر پیش کیا جائے۔ اس کی برکات اور حاصلات کو عام فہم اور سادہ زبان میں پیش کیا جائے۔ عوام کو اس بات کا یقین دلایا جائے کہ ان کا پیسہ محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اجتماعی بہبود پر خرچ ہو گا۔ حکومت اس قابل ہے کہ وہ اس پیسے کو دیانت داری سے عوامی فلاح پر خرچ کرے گی۔ ٹیکس محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ نہیں ہے۔ ٹیکس کی وصولی ایک آرٹ بھی ہے، اور سائنس بھی۔ اس کو ہمیشہ وقت اور جگہ کی خاص صورت حال کے ساتھ مشروط کر کے دیکھا جانا چاہیے۔
پاکستان میں تاجر اور خوشحال طبقات ٹیکس کے سوال پر یہی کہتے ہیں کہ اگر ہم سے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ٹیکس ادا کرنے کی توقع رکھی جاتی ہے تو جواب میں اس طرح کی سہولیات بھی دی جائیں۔ یہ مطالبہ جائز ہے۔ مگر یہ سہولیات پہلے مہیا کر کے پھر ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا۔ ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا۔ اس کے بر عکس ٹیکس کی ادائیگی کا عمل پہلے ہوتا ہے اور پھر یہ پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے۔