صدر ٹرمپ کے کشمیر پر ثالثی کے بیان پر ایک ہنگامہ سا برپا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ یہ ہنگامہ خود امریکہ میں بھی برپا ہوا ہے؛ البتہ اس ہنگامے کا زیادہ شور بھارت میں سنائی دے رہا ہے۔ یہ شور بیک وقت بھارتی پارلیمنٹ اور میڈیا میں اٹھا ہے مگر پارلیمنٹ میں اس کی بازگشت کچھ زیادہ ہی سنائی دی ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں یہ ہنگامہ زوروں پر رہا۔ وزیر خارجہ جے شنکر کی وضاحت اور تردید کے باوجود حزب مخالف کا احتجاج اور ہنگامہ جاری رہا‘ اور اراکین نریندر مودی کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ان کی طرف سے ذاتی طور پر وضاحت و تردید کا مطالبہ کرتے رہے۔ اراکین نے ٹرمپ کے بیان کو کامیابی سے نریندر مودی کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ کسی نے اسے حلف کی خلاف ورزی کہا، اور کسی نے اسے ملکی سالمیت اور سلامتی کا مسئلہ بنا کر پیش کیا۔ پارلیمنٹ میں صدر ٹرمپ کی گفتگو کے ٹرانسکرپٹ تقسیم ہوتے رہے، اور مودی کو ناقابل اعتبار ثابت کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔
دوسری طرف پارلیمنٹ سے باہر بھارتی میڈیا نے بھی اچھا خاصا طوفان کھڑا کیا۔ عام طور پر مودی کی پالیسیوں سے ہمدردی رکھنے والے لوگ بھی اس مسئلے پر سخت زبان استعمال کرتے رہے‘ اگرچہ سرکاری سطح پر اس کی تردید جاری ہو چکی ہے۔ اس طوفانی رد عمل سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ غالباً نریندر مودی کو اس کی با ضابطہ تردید کرنی پڑے گی‘ اور مستقبل قریب میں ماضی کی طرح مسئلہ کشمیر پر ان کا موقف مزید سخت ہو جائے گا۔ اس طرح اس مسئلے پر فوری طور پر کسی قسم کی پیش رفت کے امکانات اگر موجود تھے تو ان کو شدید دھچکا لگا ہے۔
ادھر ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بھی اگرچہ چھوٹے پیمانے پر ہی سہی، مگر ہنگامہ ضرور ہوا۔ یہاں پر رد عمل زیادہ تر ذرائع ابلاغ میں ہوا۔ جہاں تک صدر ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کا تعلق ہے، تو اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ پاک انڈیا تعلقات کے باب میں اگر امریکی سفارت کاری کی تاریخ کو گہرائی تک دیکھا جائے تو یہ پیشکش ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔ چالیس اور پچاس کی دہائی میں چونکہ یہ مسئلہ با ضابطہ طور پر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر رہا؛ چانچہ اس وقت اس طرح کی جو بھی سفارت کاری ہوئی‘ وہ اقوام متحدہ کے ذریعے ہی ہوتی رہی۔ اقوام متحدہ میں امریکی، کینیڈیِن اور آسٹریلین نمائندوں کے ذریعے یہ کوشش ہوتی رہی ہے۔ انیس سو پینسٹھ میں روس کی ثالثی سے پاکستان اور امریکہ کے رہنمائوں کے درمیان ہر اعلیٰ سطح کی ملاقات کے دوران کشمیر کسی نہ کسی طرح درمیان میں آتا رہا‘ خواہ یہ اس مسئلے پر پاکستان کی طرف سے حمایت کی درخواست ہو، ثالثی کی استدعا ہو یا پھر امریکہ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش ہو۔ اس لیے ثالثی کی موجودہ پیشکش میں کوئی نئی بات نہیں ہے؛ البتہ جس حوالے سے اور جس انداز میں انہوں نے یہ بات کی وہ باعثِ ہنگامہ ٹھہری ہے۔ امریکہ کے اندر کچھ سیاست دانوں اور سفارت کاروں سمیت میڈیا کے بعض حصوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی جریدے فارن پالیسی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی صدر طالبان کے ساتھ بات چیت کو کامیاب بنانے کی کوئی بھی قیمت ادا کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے نئے شراکت دار بھارت کی ناراضگی کی قیمت پر بھی پاکستان کو خوش کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ میگزین لکھتا ہے کہ پیر کے دن صدر ٹرمپ نے پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران افغانستان پر مدد لینے کے چکر میں کشمیر جیسے پرانے تنازعے میں ہاتھ ڈال دیا‘ اور اس عمل میں واشنگٹن کے نئے دریافت شدہ شراکت دار بھارت کو ناراض کر دیا۔ طالبان کے ساتھ جاری امن مذاکرات کو کامیاب بنانے کی خاطر پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اربوں ڈالرز کی امداد کی پیشکش کی‘ پھر انہوں نے کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کر دی۔ انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پہلے ہی ان سے ثالثی کی درخواست کر چکے ہیں۔ بھارتی حکومت نے اس دعوے کی فی الفور تردید کر دی، جو ان کی اس مسئلے پر کئی عشروں کی طے شدہ پالیسی سے متصادم ہے۔ بھارت نے واضح کیا کہ اس کے وزیر اعظم نے ایسی کوئی پیشکش نہیں کی۔ بھارت کی یہ مستقل پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ اپنے تمام مسائل کو باہمی گفت و شنید کے ذریعے طے کیا جائے۔
گزشتہ دو عشروں کے دوران امریکی اہل کار پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی کئی مبہم سی کوششیں کر چکے ہیں۔ امریکی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور تصادم افغانستان میں قیام امن کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے اور ان کے درمیان کسی قسم کا تصادم جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر جنگ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ کیا جانا چاہیے۔
عالمی سفارت کار اور مقامی ماہرین ایک مدت سے یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی افغانستان میں امن کے قیام میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سے طالبان اور دوسرے لڑاکا گروہوں کی حمایت میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ یہ کشیدگی مسئلہ کشمیر حل کرنے سے ختم ہو سکتی ہے۔ لیکن اصولی طور بھارت مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے کے خلاف رہا ہے، اور پاکستان کا یہ ایجنڈا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے۔ ان سفارت کاروں کے خیال میں ٹرمپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے تھی۔ ٹرمپ کی بات پر رد عمل دیتے ہوئے ایک سابق امریکی سفارت کار ایلیسا آئیر نے کہا ہے کہ کسی ملک کی طرف سے ایک گھنٹے کے اندر اندر امریکی صدر کی بات کی تردید آنا شرمندگی کی بات ہے۔ ٹرمپ نے کچھ عرصہ پہلے ٹویٹر پر لکھا تھا کہ پاکستان نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا‘ مگر پیر کے روز ان کا لہجہ مختلف تھا۔ اس روز انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کی کامیابی اس لیے بہترین راستہ ہے کہ وہ دس ملین لوگوں کو مارنا نہیں چاہتے۔ یہ ایک طرح سے امریکہ کی طرف سے افغانستان پر حملے کی دھمکی ہے، جس نے امریکی محکمہ دفاع میں موجود کئی ایک کو چکرا کر رکھ دیا ہو گا۔
میڈیا میں مخالفانہ بحث اور بھارت کی تردید کے باوجود صدر ٹرمپ اور ان کے رفقا اپنے موقف پر ڈٹے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے مشیر برائے معاشی امور لیری کڈلو نے کہا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے کشمیر پر ثالثی کے لیے کہا تھا‘ صدر ٹرمپ نہ تو بلاوجہ کوئی بات کرتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی طرف سے کوئی بات گھڑتے ہیں‘ انہوں نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا۔ بھارت مسئلہ کشمیر پر ثالثی کو لے کر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی حساسیت کا مظاہرہ کرتا ہے‘ حالانکہ باقی کئی معاملات پر ماضی میں دونوں ممالک ثالث سے رجوع اور استفادہ کر چکے ہیں۔ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں سوویت یونین دونوں ملکوں کی فوجوں کے انخلا کے سلسلے میں ثالث کا کردار ادا چکا ہے، جو معاہدہ تاشقند پر منتج ہوا تھا۔ رن کچھ معاہدے میں برطانوی وزیر اعظم ہیرولڈ ولسن نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔ انڈس واٹر معاہدہ بھی عالمی بینک کی ثالثی کے ذریعے ہی ممکن ہوا تھا۔
ثالثی کی بات متنازعہ ہونے کے باوجود کشمیریوں کے نقطہ نظر سے یہ بڑی بات ہے کیونکہ وائٹ ہائوس میں ہوئی ہے۔ کشمیر پر ایک صحافی کی طرف سے اٹھایا گیا سوال اور اس پر پانچ چھ منٹ کی گفتگو بذاتِ خود اچھی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ اس سے کشمیری عوام کو نیا حوصلہ ملا ہے اور یہ مسئلہ حل ہونے کے امکانات پہلے کی نسبت بڑھ گئے ہیں۔