کشمیر میں خوف اور بے چینی کی کیفیت ہے۔ وہاں پر اضافی فوجوں کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ افواہوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کچھ سرکاری خطوط اور سرکلر جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہے تھے، جعلی ثابت ہو چکے ہیں۔ ارباب اختیار نے بھی اس صورت حال کی وضاحت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فوجوں میں اضافہ اور مجموعی طور پر سکیورٹی میں سختی وادی میں دہشت گردی کے کسی بڑے حملے کی اطلاعات کے پیش نظر کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود افواہیں جاری ہیں۔ کوئی بھارتی حکومت کی اس وضاحت پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اور ہونے والا یہ ہے کہ بھارتی سرکار دفعہ پینتیس اے ختم کرنے کا حتمی فیصلہ کر چکی ہے اور یہ ساری تیاریاں اس کے خلاف ہونے والے ممکنہ احتجاج پر قابو پانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی لیڈرشپ اور حکومتی حلقوں میں ایک عرصے سے دفعہ پینتیس اے کا خاتمہ زیرِ غور ہے۔ اس حوالے سے مختلف اعلانات کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ دفعہ بھارتی آئین میں کیسے آئی؟ سرکار اسے کیوں ختم کرنا چاہتی ہے؟ اور کشمیر کے اندر اس کے خاتمے کے خلاف سخت رد عمل کیوں ہو گا؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے اس کا پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔
بر صغیر میں نقل مکانی کا رجحان بہت پرانا ہے۔ لوگ صدیوں سے مختلف وجوہات کی بنا پر ایک جگہ سے ہجرت کر کے دوسری جگہ آباد ہوتے رہے۔ ان وجوہات میں روزگار، رہائش، موسم، جانی و مالی تحفظ اور دوسرے کئی اسباب شامل ہیں۔ کشمیر کے اندر سے بر صغیر کے مختلف شہروں کی طرف ہجرت کے بارے میں تو ہم جانتے ہی ہیں۔ تقریباً ہر بڑے شہر میں ایک چھوٹا بڑا ''محلہ کشمیریاں‘‘ یا ''کشمیری محلہ‘‘ ہوتا تھا۔ لیکن یہ صرف یک طرفہ ہجرت کبھی نہیں تھی۔ برصغیر کے مختلف حصوں سے بھی لوگ ہجرت کر کے کشمیر میں آباد ہوتے رہے۔
بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بر صغیر کی مختلف ریاستوں اور علاقوں سے لوگوں کے کشمیر کی طرف رخ کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ تجارت اور سیاحت تھی۔ کشمیر کے حسین‘ دلفریب مناظر اور خوشگوار موسم کی وجہ سے کچھ لوگ یہاں مستقل آباد ہونے لگے۔ کچھ جائیدادیں خریدنے لگے۔ کچھ لوگوں نے سرکاری ملازمتیں بھی لے لیں۔ یہ دیکھ کر مقامی آبادی میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کشمیر کے مقامی لوگ اقلیت میں بدل جائیں گے۔ اس خوف کا شکار صرف وادی کے غریب مسلمان ہی نہیں، جموں کے مالدار اور با اثر ڈوگرے بھی تھے۔ وادی کے پڑھے لکھے پنڈت بھی یہی خوف محسوس کر رہے تھے؛ چنانچہ مہا راجہ ہری سنگھ سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے۔ مہا راجہ خود بھی اپنی ریاست کی انفرادیت اور خود مختاری کو لے کر کافی حساس تھا؛ چنانچہ سن انیس سو ستائیس میں اس سلسلے میں باقاعدہ قانون سازی کی گئی۔ اس سلسلۂ عمل میں ''سٹیٹ سبجیکٹ‘‘کا قانون معرض وجود میں آیا۔ اس قانون میں تین چیزیں بہت اہم تھِیں۔ پہلی‘ کوئی شخص جو ریاست جموں و کشمیر کا مستقل باشندہ نہیں ہے، وہ اس ریاست میں جائیداد نہیں خرید سکتا۔ دوسری‘ کوئی غیر ریاستی شہری ریاست کے اندر سرکاری نوکری نہیں کر سکتا۔ اور تیسری یہ کہ کوئی غیر مستقل باشندہ یہاں آزادانہ سرمایہ کاری نہیں کر سکتا۔ بیس اپریل انیس سو ستائیس کو مہاراجہ ہری سنگھ کا بنایا ہوا یہ قانون نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو دس سال تک ریاست میں مستقل رہاش پذیر رہا ہو‘ اسے ریاست کا مستقل باشندہ تصور کیا جائے گا۔
یہ قانون ریاست میں ''سٹیٹس کو‘‘ کی ضمانت تھا۔ اس سے جموں کے مالدار ڈوگروں کی جاگیروں اور ان سے جڑے کاروبار کو تحفظ ملتا تھا۔ پنڈت جو زیادہ تر سرکاری ملازمتوں میں تھے ان کی ملازمتیں اور مستقبل محفوظ ہو جاتا تھا۔ اور غریب کشمیری کسان جس کے پاس اگر کوئی تھوڑی بہت زمین تھی تو اس کو بھی تحفظ ملتا تھا۔ مہا راجہ کا یہ خدشہ بھی دور ہو جاتا تھا کہ مالدار انگریز یا دوسرے لوگ کشمیر میں آ کر بس جائیں گے‘ ہمارا موسم چرائیں گے اور ہمارے لیے دیگر مسائل پیدا کریں گے؛ چنانچہ اس قانون کی خوبصورتی یہ تھی کہ یہ عوام و خواص سب کو اپنے فائدے میں لگتا تھا۔ اسی لیے یہ قانون ریاست کی تقسیم کے بعد بھی ریاست کے تینوں حصوں میں برقرار رہا۔
سال انیس سو چوّن میں بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے درمیان ریاستی باشندوں کی شہریت کا سوال کھڑا ہوا۔ حکومت ہند نے ریاستی باشندوں کو بھارت کی شہریت کی پیشکش کی اور ریاستی لیڈرشپ کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا کہ ریاست مہا راجہ کے دور کا ''سٹیٹ سبجیکٹ قانون‘‘ برقرار رکھ سکتی ہے۔ اور اس کے اندر ترمیم یا اضافے کا اختیار بھی ریاستی اسمبلی کے پاس ہے۔ اس بات کو ایک صدارتی حکم نامے کے تحت آئین میں شامل کر لیا گیا۔ یہ قانون پینتیس اے کے نام سے مشہور ہوا۔
اب یہ قانون دو وجوہات کی بنا پر زیر بحث ہے۔ ایک یہ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی والوں نے اپنی پہلی انتخابی مہم کے دوران بار بار یہ بات دہرائی تھی کہ وہ کشمیر کے ساتھ جڑے تمام مسائل کی جڑ دفعہ تین سو ستر اور پینتیس اے کو سمجھتے ہیں۔ اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اگر برسر اقتدار آ گئے تو وہ اس قانون کو ختم کر دیں گے۔ مگر برسر اقتدار آنے کے باوجود وہ ریاست میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے؛ چنانچہ انہوں نے محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی سے مل کر حکومت بنائی۔ محبوبہ سمیت کشمیر کے تمام لیڈر خواہ وہ بھارت نواز ہوں، پاکستان نواز ہوں یا خود مختاری کے حامی ہوں سب اس بات پر متفق ہیں کہ دفعہ پینتیس اے نہیں ختم ہونی چاہیے۔ ماضی کی طرح آج بھی ہر ایک کو اس قانون میں کوئی نہ کوئی دانش نظر آتی ہے؛ چنانچہ وہ اس کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا بار بار اعلان کر چکے ہیں۔ اسی لیے مودی سرکار اپنے پہلے دور حکومت میں اپنے انتخابی منشور کے اس اہم ایجنڈے سے صرف نظر کرنے پر مجبور رہی۔ دوسرے دور اقتدار کی انتخابی مہم میں اس باب میں ان کا لہجہ پہلے سے کئی زیادہ سخت تھا۔ انہوں نے اس بار اس قانون کے خاتمے کا عزم اور زیادہ شد و مد سے دہرایا؛ چنانچہ عام طور پر یہ بات باور کی جا رہی ہے کہ مودی سرکار اس مد میں عملی قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے۔
دفعہ پینتس پر اتنی سرگرمی اور بحث کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ قانون بھارتی سپریم کورٹ میں زیر غور ہے، جس کی اگست کے آخر میں سماعت ہے ۔ یہ سماعت 'وی دی سیٹیزن‘ نامی تنظیم کی ایما پر ہو رہی ہے، جس کا خیال ہے کہ یہ قانون امتیازی اور غیر آئینی ہے اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ اس حوالے سے ان کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ آئین میں اس دفعہ کی شمولیت صدارتی حکم نامے کے بجائے آئینی ترمیم کے ذریعے ہونی چاہیے تھی۔
جہاں تک عدالت کی بات ہے تو عدالتی طریقے سے یہ معاملہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ سپریم کورٹ میں اس معاملے پر سماعت ہو گی۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ تین بار اس معاملے پر غور کر چکی ہے اور اس دلیل کو مسترد کر چکی ہے۔ لکھن پال بنام صدر کیس میں انیس سو اکسٹھ میں سپریم کورٹ کا ایک پانچ رکنی بنچ یہ دلیل مسترد کر چکا ہے۔ دوسری بار سمپت پرکاش بنام ریاست جموں و کشمیر میں ایک اور پانچ رکنی بنچ نے ایسا ہی کیا تھا۔ اور سال دو ہزار سولہ میں سٹیٹ بینک آف انڈیا بنام سنتوش گپتا میں دو رکنی بنچ نے پہلے دو فیصلوں کی طرح ایک بار پھر قرار دیا کہ صدارتی حکم نامے کے تحت ایسا کیا جانا درست تھا؛ چنانچہ اس دفعہ کی قانونی حیثیت ثابت شدہ ہے؛ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کو بحث کے لیے کہہ دے‘ اس صورت میں اس کا خاتمہ مزید مشکل ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں ایک صدارتی حکم نامے کے تحت قانون میں تبدیلی مودی سرکار کے لیے ایک آسان راستہ ہے، جس کا کشمیر کے لوگوں کو خدشہ ہے۔