کشمیر کا خصوصی درجہ ختم ہو گیا۔ میرے نزدیک یہ حیرت کی بات نہیں، گہرے دکھ اور افسوس کی بات البتہ ضرور ہے۔ حیرت مگر مجھے ان لوگوں پر ہے جو اس بات پر حیران ہو رہے ہیں، یا حیران ہونے کی اداکاری کر رہے ہیں‘ گویا ان کو اس بات کی خبر اور توقع ہی نہیں تھی۔
کوئی شخص‘ جسے کشمیر کی سیاست سے ذرہ بھر بھی دلچسپی ہے، اس حقیقت سے کیسے انکار کر سکتا ہے کہ اسے خبر نہ تھی۔ گزشتہ تین ماہ سے یہ معاملہ کشمیر کے بارے میں ہونے والی ہر سنجیدہ گفتگو کا مرکز تھا۔ دو ہفتے پہلے ایک ٹی وی ٹاک شو میں یہ نا چیز عرض کر چکا ہے کہ قابل اعتماد ذرائع سے اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ دفعہ تین سو ستر ختم کرنے کا حتمی فیصلہ کیا جا چکا ہے‘ اب صرف اعلان باقی ہے، جس کے لیے کسی مناسب دن اور موقع کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی، اور کشمیریوں کی بد قسمتی کا احساس ہوا، جب تین تین بار وزیر اعلیٰ اور وزیر رہنے والے کشمیری لیڈر کیمروں کے سامنے بیٹھ کر اس معاملے میں اپنی معصومیت اور لا علمی کا اظہار کرتے رہے۔ ان میں سے کچھ بھارتی وزیر اعظم اور گورنر سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں بھی کر چکے تھے۔ مگر ان ملاقاتوں کی وضاحت بھی انہوں نے اسی معصومیت سے کی کہ ہم تو محض پوچھنے گئے تھے کہ کیا ہونے والا ہے۔
اسی طرح پاکستان میں بھی کچھ سیاست کاروں اور ارباب اختیار نے اس پر حیرت ظاہر کی ہے، جیسے انہیں بھارت سے اس طرح کے کسی اقدام کی توقع نہ تھی‘ مگر حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جس ملک میں اتنا با خبر و متحرک میڈیا اور سرگرم ادارے ہیں وہاں حکام اتنے بڑے فیصلے سے کیسے بے خبر رہے، جس سے عام آدمی تک آگاہ ہو چکا تھا۔ کشمیر کی تاریخ میں عوام کے حقوق پر اس طرح کا شب خون یا ڈاکہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اور نہ ہی لا علمی یا بے بسی کا اظہار کرنے والوں کا طرز عمل نیا ہے۔ تاریخ میں ایسا بار بار ہوتا رہا ہے۔ تاریخ کوئی راز اپنے سینے میں نہیں رکھتی۔ وہ جلد یا بدیر یہ راز بھی اگل دے گی۔ اور یہ راز کھل جائے گا کہ نہ یہ فیصلہ اتنا خفیہ تھا‘ جتنا اسے بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، اور نہ ہی کچھ لوگ اتنے لا علم تھے، جتنا وہ ظاہر کر رہے ہیں۔
پانچ اگست کو کشمیر کے مسئلے نے ایک نیا موڑ لیا ہے۔ یوں یہ ستر سال پرانا مسئلہ ختم نہیں ہوا‘ ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ اس نے ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے۔ اب اس کا انجام کیا ہو گا۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اب کشمیری عوام کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔ ستر سال کے طویل سلسلۂ عمل میں جو تلخ تجربہ انہیں ہوا ہے‘ کیا اس سے کوئی سبق سیکھا ہے۔ اگر سیکھا ہے تو اسے کیسے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
کشمیر اور کشمیریوں کے لیے یہ ایک نئے سفر اور نئی جدوجہد کا آغاز ہے۔ اس لیے ابتدا سے ہی احتیاط لازم ہے۔ ماضی کی غلطیاں نہ دہرانے کا عہد کرنے کا وقت ہے۔ ماضی کی ایک عظیم ترین غلطی یہ تھی کہ کشمیری بہت زیادہ غیر حقیقی خواہشات پر مبنی سوچ کا شکار رہے۔ بھارت کو فتح کرنے اور نیست و نابود کر دینے والوں کے جعلی دعووں اور بڑھکوں کے سحر میں گرفتار رہے۔ زمینی حقائق سے چشم پوشی اور خواہشات پر مبنی سوچ کی وجہ سے کشمیری ستر سال کے عرصے میں آگے بڑھنے کے بجائے ماضی کی طرف گامزن رہے۔ ان کے سیاسی و شہری حقوق بہتری کے بجائے مسلسل تنزلی کا شکار رہے۔ نئی جدوجہد کے آغاز سے پہلے یہ امر یقینی بنایا جائے کہ مقاصد کا تعین زمینی حقائق کی روشنی میں ہو۔ خواہشات پر مبنی نظریات کے بجائے حقیقت پسندی کا راستہ اختیار کیا جائے۔
ماضی کی دوسری بڑی غلطی یہ تھی کہ سیاسی اور پُر امن جدوجہد کی جگہ بندوق اور تشدد کو دے دی گئی۔ ہر لڑائی میں طاقت کا توازن ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن مسلح لڑائی میں جیت اسی کی ہوتی ہے جس کے پاس زیادہ بندوقیں‘ لڑنے کے لیے زیادہ ہاتھ، اور گولی کھانے کے لیے زیادہ سینے ہوتے ہیں۔ کسی بھی طاقت ور اور ظالم قوت کے خلاف کسی کمزور قوم یا گروہ کا سب سے طاقت ور ہتھیار پر امن سیاسی جدوجہد ہی ہوتی ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ کشمیریوں نے جب بندوق اور تشدد کو زیادہ جگہ دے دی تو اس کے نتیجے میں ان کو اپنے بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ شہری اور سیاسی آزادیوں کی عدم موجودگی میں سیاسی جدوجہد کے لیے دروازے بند ہو گئے۔
تیسری غلطی یہ ہوئی کہ کشمیری سیاست دانوں نے اس حکمت اور تدبر سے کام نہیں لیا، جس کے حالات متقاضی تھے۔ کشمیر میں گورنر راج کشمیری سیاست دانوں کی نا اہلی تھی۔ وہ اگر سوچتے‘ غور کرتے اور دانش بروئے کار لاتے تو گورنر راج کی نوبت ہی نہ آتی۔ بد قسمتی سے گورنر راج اگر آ ہی گیا تھا تو واپس جمہوری عمل کی طرف لوٹنے کی راہ نکالی جاتی۔ اس کے بجائے گورنر کی شکل میں ہندو قوم پرست قوتوں کے ہاتھ میں ایک تلوار دے دی گئی۔ اس تلوار کا استعمال تو انہوں نے کرنا تھا۔ اس غلطی سے سبق سیکھا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ جمہوریت اور جمہوری حقوق کی حفاظت بہت ضروری ہے، خواہ یہ جمہوریت کتنی ہی کمزور یا بد شکل کیوں نہ ہو۔
کچھ لوگوں کی دلیل ہے کہ پانچ اگست دو ہزار انیس کو بھارت ایک قابض قوت بن گئی ہے۔ یہ رائے ایسے کشمیری رہنما دے رہے ہیں، جو کل تک سکہ بند بھارت نواز تھے اور جو اپنے آپ کو ہندوستانیوں سے بڑا ہندوستانی گردانتے تھے۔ یہی رائے خود کچھ بھارتی سیاست دانوں اور دانشوروں کی بھی ہے۔ اس بیان کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو جب قابض قوت قرار دیا جانا چاہیے تھا‘ وہ تاریخی موقع ان لیڈروں اور ان کے پیش رو لیڈروں نے ضائع کر دیا تھا۔ ستر سال پہلے شیخ عبداللہ نے بیک وقت بھارت اور مہا راجہ ہری سنگھ کے خلاف جو لڑائی شروع کی تھی‘ اس میں وہ کسی حد تک جیت گیا تھا۔ اس نے بھارت سے آئینی، قانونی، اخلاقی اور سیاسی طور پر منوا لیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر ایک خود مختار ریاست ہو گی۔ اس کا اپنا صدر‘ ریاست اور وزیر اعظم ہو گا۔ پرچم اور قانون ساز اسمبلی ہو گی۔ اس نے بھارت سے قانونی اور اصولی طور پر یہ بھی منوا لیا تھا کہ سوائے دفاع، خارجہ اور مواصلات کے باقی تمام معاملات پر ریاست کی عملداری ہو گی۔ یہ شیخ عبداللہ کی سیاسی جدوجہد کا اعجاز تھا کہ کشمیریوں کی خود مختاری کے تحفظ کے لیے دفعہ تین سو ستر اور پینتیس اے جیسی دفعات کو نا صرف آئین میں شامل کیا گیا، بلکہ پنڈت نہرو جیسے قد آور رہنما نے کھل کر ان دفعات کی حمایت میں تقاریر کیں۔ مگر جب شیخ عبداللہ اپنے اختیارات کے تحفظ کی کوشش میں بھارتی حکمرانوں کے عتاب کا شکار ہوا‘ قید اور جلا وطنی کے عذاب میں مبتلا ہوا تو کئی کشمیری لیڈر جا کر بھارتی حکومتوں کی چرنوں میں بیٹھ گئے۔ انعام کے طور پر ان کو دھاندلی کے ذریعے اسمبلی کی سیٹیں دے دی گئیں۔ ان دھاندلی کی پیداوار جعلی اسمبلیوں میں بیٹھ کر انہوں نے بھارتی حکمرانوں کے ظلم و نا انصافی پر خاموشی اختیار کیے رکھِی۔ ریاستی خود مختاری کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ بنے رہے۔ غیر جمہوری اقدامات پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے جو دفعہ تین سو ستر یا پینتیس اے کو مانتے ہی تھے‘ اور اب وہ ہی ہیں، جو اس پر سب سے زیادہ ماتم کناں ہیں۔
دفعہ تین سو ستر میں تبدیلی زمین ہلا دینے والی تبدیلی ہے۔ یہ بہت بڑا اقدام ہے، جس کے دور رس نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اس اقدام سے کشمیری عملی طور ایک افسوس ناک صورت حال میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ اس وقت بنیادی اور جمہوری حقوق کے باب میں وہ انیس سو سینتالیس سے پہلے کی کیفیت میں ہیں۔ اس وقت سنجیدگی اور دانش کی ضرورت ہے۔ صورت حال نئی سوچ اور نئے نظریات کی متقاضی ہے۔