خبر اچھی ہے یا بری؟ یہ جاننے کے لیے عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ مگر یہ ایک بڑی اور اہم خبر ہے، جسے میڈیا میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ خبر یہ ہے کہ کئی ممتاز قانون دانوں کی رائے کے برعکس بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے کے سوال پر ایک پانچ رکنی بینچ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس بینچ نے یکم اکتوبر سے اس کیس کی سماعت شروع کر دی ہے اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے حوالے سے مودی سرکار سے 28 روز میں جواب طلب کر لیا ہے۔ میرا اس موضوع پر چند ایک ممتاز وکیلوں اور قانون کے پروفیسروں سے تفصیلی تبادلہ خیال ہوتا رہا ہے۔ وہ سب اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ اس مقدمے کی سماعت اور فیصلہ ہونے میں کم از کم تین سال تک لگ جائیں گے، اور اس وقت تک حالات اتنے بدل چکے ہوں گے کہ یہ ایک بھولا بسرا قصہ بن چکا ہو گا۔ آئینی مقدمات اور آئینی بینچوں کی کارکردگی پر گہری نظر رکھنے والے وائس چانسلر اور قانون کے پروفیسر فیضان مصطفی کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس بے شمار آئینی پٹیشنز پڑی ہوئی ہیں، اور اس کیس کی سماعت پر طویل وقت لگے گا۔ مگر ان سارے اندازوں اور تجزیوں کے بر عکس بھارتی سپریم کورٹ نے بینچ بھی بنا دیا‘ اور سماعت کی فوری تاریخ بھی مقرر کر دی۔ اس کی غالباً چار بڑی وجوہات تھیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اس پٹیشن کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق کا سوال بھی ایک بڑے سوال کے طور پر جڑا ہوا ہے۔
یہ فوری نوعیت کا سوال ہے، جس کا زیادہ عرصے تک التوا انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے مقبوضہ جموں و کشمیر کے انتظام نو کے نئے ایکٹ دو ہزار انیس کے اطلاق کے لیے اکتیس اکتوبر کی تاریخ مقرر ہے، جس میں اب صرف چند ہفتے رہ گئے ہیں۔ تیسرا یہ کہ اس فیصلے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے‘ وہ غیر معمولی ہے، اور حکومت پر وسیع پیمانے پر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔ سری نگر شہر محصور ہے۔ لوگ گھروں میں بند ہیں۔ شہر میں کرفیو ہے۔ کرفیو اٹھنے پر خون خرابے کا اندیشہ ہے۔ ان حالات کے پیش نظر بھارتی سپریم کورٹ کے لیے اس معاملے کو التوا میں رکھنا شاید ممکن نہیں تھا؛ چنانچہ بینچ مقرر ہو گیا اور اس نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ یہ آئینی بینچ کیا فیصلہ کرے گا۔ اس بات پر بھی بھارت کے قانونی ماہرین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ ملک میں منتخب حکومت کی موجودگی میں عموماً بھارتی عدالتیں حکومت کے خلاف فیصلہ دینے یا ان کے کسی فیصلے کو رد کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ موجودہ حکومت نہ صرف بھاری اکثریت سے منتخب ہوئی ہے، بلکہ اس نے اپنے فیصلے کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی واضح اکثریت سے منظور بھی کروایا ہے۔ پارلیمنٹ کے کسی فیصلے کے خلاف عموماً جج فیصلہ نہیں کرتے، مگر بھارتی عدالتوں کی تاریخ میں ایسے فیصلے بھی موجود ہیں، جن میں پارلیمنٹ کے فیصلوں کو رد کر دیا گیا۔ ان میں ''گولک ناتھ بنام ریاست پنجاب‘‘ ایک مشہور مقدمہ ہے۔ اس مقدمے میں بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ پارلیمنٹ کو کوئی ایسا قانون نہیں بنانا چاہیے جو ان بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہو‘ جو بھارتی آئین کے تحت لوگوں کو حاصل ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف آئین میں چوبیسویں ترمیم لائی گئی تھی، مگر یہ فیصلہ بحال ہوا اور اس کا کیساوندہ بھارتی کیس میں اطلاق کیا گیا۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ حکومت کے اس اقدام میں پارلیمنٹ کی منظوری کے علاوہ صدارتی حکم نامہ بھی شامل ہے، تاریخی اعتبار سے سپریم کورٹ عموماً صدارتی حکم ناموں کو قانونی قرار دیتی رہی ہے۔ ماضی میں کئی بار اس صدارتی حکم کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا، جس کے تحت دفعہ تین سو ستر آئین کا حصہ بنایا گیا تھا، اور دفعہ تین سو ستر کو غیر آئینی قرار دینے کی کئی بار درخواست کی گئی، مگر عدالتوں نے ہر بار اس صدارتی حکم نامے کو درست قرار دیا؛ تاہم اگر عدالتی تاریخ کو گہرائی تک دیکھا جائے تو کچھ ایسی استثنائیں بھی موجود ہیں، جب بھارتی سپریم کورٹ نے صدارتی حکم نامے کو رد کر دیا۔ اس کی ایک مثال ''مہادیو جیواجی بنام یونین آف انڈیا‘‘ ہے۔ یہ کیس سابق شاہی ریاستوں کے راجوں اور مہاراجوں کے اعزازات اور مراعات کے بارے میں تھا، اس کیس میں عدالت نے صدارتی حکم نامے کو رد کر دیا تھا‘ جس کی وجہ سے راجوں مہاراجوں کی مراعات کا خاتمہ ہوا تھا۔ بھارت کی عدالتی تاریخ میں میرے خیال میں سب سے اہم ترین مقدمہ ''کیساوندہ بھارتی بنام ریاست کیرالہ‘‘ ہے۔ اس کیس میں تیرہ رکنی آئینی بینچ بنایا گیا تھا، جو بھارتی عدالتی تاریخ کا سب سے بڑا بینچ تھا۔ اس مقدمے میں سپریم کورٹ نے یہ واضح کیا تھا کہ بھارتی پارلیمنٹ کو آئین کے کسی بھی حصے میں تبدیلی کا مکمل اختیار حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے یہ بات بھی بہت وضاحت سے بیان کر دی تھی کہ آئین میں کی جانے والی کوئی بھی ترمیم ان بنیادی حقوق کے خلاف نہ ہو، جو بھارتی آئین میں درج ہیں۔ یہ مقدمہ بنیادی انسانی حقوق کے کیس کے نام سے مشہور ہے۔ اس باب میں بہت مشہور کیس جو زبان زد عام ہے‘ اندرا گاندھی بنام راج نرائِن ہے۔ اس کیس میں بھارتی سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل انتالیس کی ذیلی کلاز چار میں تبدیلی کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا، چونکہ یہ آئین کے آرٹیکل چودہ میں درج مساوی حقوق کے خلاف تھی۔ اس سلسلے میں جبل پور بنام شکلا کیس بھی اہم ہے۔ اس سماعت کے دوران ایک مشہور مقدمہ ''مانیکا گاندھی بنام یونین آف انڈیا‘‘ بھی بہت اہم ہے۔
اس مقدمے میں اظہار رائے کی آزادی، نقل و حرکت کی آزادی اور شخصی آزادی جیسے معاملات پر فیصلہ ہوا تھا، جو اس وقت کشمیر کے تناظر میں زیر بحث ہیں، اور زیر سماعت پٹیشنز کا نقطۂ ماسکہ ہیں۔ جو کیس عدالت میں زیر سماعت ہو اس کے فیصلے کے بارے میں حتمی رائے دینا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے‘ کیونکہ کیس کے فیصلے کا دار و مدار کئی چیزوں پر ہوتا ہے، جن کے بارے میں پیشگی علم کسی کو نہیں ہوتا۔ اس میں ایک اہم عنصر وکلا کے دلائل اور بحث ہے؛ چنانچہ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ وکلا اپنا کیس کیسے پیش کرتے ہیں۔ مگر محتاط انداز میں اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اگر جج اس کیس کو انسانی حقوق کے کیس کے طور پر لیں تو اس بات کے واضح امکانات ہیں کہ یہ فیصلہ درخواست گزاروں اور کشمیریوں کے حق میں آ جائے۔ یہ راستہ اختیار کرنے سے جج یہ دلیل مان سکتے ہیں کہ حکومتی اقدامات غیر آئینی ہیں کیونکہ وہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں‘ مگر دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ آرٹیکل تین سو ستر کے تحت بھارتی آئین کی بنیادی انسانی حقوق سے متعلق تمام دفعات کا اطلاق کشمیر پر نہیں ہوتا تھا، لہٰذا سرکاری وکیل اس کے خلاف اس لائن پر دلائل دے سکتے ہیں۔ آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے کو لے کر کئی پٹیشنز سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔ ان سب پٹیشنز کو پانچ رکنی آئینی بینچ کو ریفر کر دیا گیا ہے۔ ان پٹیشنز میں ایڈووکیٹ ایل کے شرما، شہلا رشید، فیصل مجید اور نیشنل کانفرنس کی پیٹشن شامل ہیں۔ نیشنل کانفرنس کی پٹیشن فائل کرنے والوں میں ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس حسنین معسودی بھی شامل ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جسٹس معسودی خود دو ہزار پندرہ میں یہ فیصلہ دے چکے ہیں کہ آرٹیکل تین سو ستر آئین کا مستقل حصہ ہے۔ ان مختلف قسم کی پٹیشنز میں اس کیس کو الگ الگ زاویے سے پیش کیا گیا ہے۔ اس لیے ایسے اندیشے بھی موجود ہیں کہ آئینی بینچ کی طرف سے ایک ملا جلا اور درمیانہ فیصلہ بھی آ سکتا ہے، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے کشمیریوں کے حق میں اور انتظامی اقدامات کے حوالے سے حکومت کے حق میں ہو؛ چنانچہ اس کیس کے فیصلے کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ عدالت کیا روٹ اختیار کرتی ہے۔ اگر درخواست گزاروں کے وکلا عدالت کو انسانی حقوق کے روٹ پر لی جاتے ہیں تو عدالت حکومتی اقدامات کو غیر آئینی قرار دے کر رد بھی کر سکتی ہے۔ فیصلہ جو بھی ہو یہ کیس بھارتی سپریم کورٹ کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہے اور کیس کی فوری سماعت بذات خود گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن ہے۔