ترقی یافتہ دنیا میں ''زینوفوبیا‘‘ یعنی اجنبی لوگوں کا خوف بڑھ رہا ہے۔ بعض جگہوں پر دن بدن وہ قوتیں مقبول ہو رہی ہیں، جو خود اجنبی لوگوں کے خوف میں مبتلا ہیں اور دوسروں کو بھی اس خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ عام لوگوں کو باہر سے آنے والے تارکین وطن سے ڈرا رہی ہیں۔ سماج میں خوف پھیلا رہی ہیں۔ یہ خوف پھیلانے میں ان کو جو چھوٹی بڑی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں۔
ایک وجہ یہ ہے کہ تیسری دنیا کے پسماندہ اور غریب ممالک خصوصا ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک سے رنگ دار نسل کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کسی نہ کسی طریقے سے ترقی یافتہ ممالک میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ان میں سے اکثر کی یہاں پہچنے کی کہانی بڑی دردناک ہے۔
ان میں سے کچھ لوگ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر انتہائی پرخطر اور دشوار گزار راستوں سے کئی ممالک کی سرحدیں عبور کرکے یہاں پہنچے۔ کچھ لوگ گولیوں کی بوچھاڑ میں رات کے اندھیرے میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان ممالک میں داخل ہوئے۔ کچھ ایسے بھی ہیں، جنہوں نے غیر محفوظ اور ٹوٹی پھوٹی کشتیوں میں بھوکے پیاسے طویل سفر کیے۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر چلنے اور پُر خطر مہم جوئی کرنے والوں کے پہلو بہ پہلو ایسے خوش قسمت اور آسودہ حال لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے، جو قانونی طریقے سے ویزے لے کر ان ممالک میں داخل ہوئے؛ چنانچہ اب مغرب کے کئی شہروں اور بازاروں، کھیتوں، کھلیانوں، فیکٹریوں سے لے کر پارلیمان تک ہر جگہ کوئی نہ کوئی رنگ دار نسل کا شخص دکھائی دیتا ہے۔ اور کئی شہر ایسے بھی ہیں، جہاں کوئی سفید فام شخص کہیں دکھائی ہی نہیں دیتا۔ اب اس صورت حال کو بائیں بازو کے قدامت پسند اور نسل پرست لوگ اپنا تنگ نظر سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ یہ لوگ آپ کے روزگار چھین رہے ہیں۔ آپ کی زمینیں اور جائیدادیں خرید رہے ہیں، اورآہستہ آہستہ یہ پورے ملک پر قابض ہو جائیں گے۔ یہ لوگ ان کے سامنے مستقبل کے بارے میں خوف زدہ کر دینے والے اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سفید فام لوگوں کے اندر ایک مدت سے کم از کم بچے پیدا کرنے کا رجحان ہے۔ اور کچھ لوگ تو سرے سے بچے پیدا ہی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے بعض جگہوں پرسفید فاموں کی آبادی میں اضافے کے بجائے کمی ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے رجحان کی وجہ سے رنگ دار لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر یہ خوف پھیلایا جا رہا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو سفید فام اقلیت میں بدل جائیں گے۔ مثال کے طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں یہ رپورٹ گردش کر رہی ہے کہ سن دو ہزار پینتالیس تک امریکہ میں سفید فام لوگ اقلیت میں بدل جائیں گے۔ اسی طرح دائیں بازو کے نسل پرست یورپ میں لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ افریقہ کی آبادی میں خوفناک اضافہ ہو رہا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق سن دو ہزار پچاس تک بر اعظم افریقہ کی آبادی دو اعشاریہ چار بلین ہو جائے گی اور صدی کے آخر تک یہ تعداد چار بلین کو کراس کر جائے گی۔ پھر آپ چاہے کتنی دیواریں کھڑی کریں، تارکین وطن کو روکنے کی جتنے معاہدے مرضی کر لیں، یہ لوگ کسی نہ کسی طرح شمال کی طرف بڑھنے میں کامیاب ہوں جائیں گے، اور بر اعظم یورپ سیاہ فام اکثریت کا براعظم بن جائے گا۔ چنانچہ یہ خوف پھیلا کر دائیں بازو کے نسل پرست اور قوم پرست لوگ بڑی تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، عوام کی حمایت اور ووٹ بٹورنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ چونکہ ان کو سماج میں جو جگہ اور مقبولیت ملی ہے، وہ نفرت کی وجہ سے مل رہی ہے اس لیے وہ بڑے منظم طریقے سے اس نفرت کو عام کرنے میں پوری طرح مصروف ہیں۔
دوسری طرف رنگ دار نسل کے تارکین وطن کے اندر بھی اس صورتحال کے خلاف ایک خاص قسم کا رد عمل اور رجحانات پیدا ہو رہے ہیں۔ کچھ اس نفرت کے جواب میں نفرت کا درس دے رہے ہیں۔ کچھ محبت اور بھائی چارے کی بات کر رہے ہیں؛ چنانچہ ہر جگہ نسل، نسل پرستی، اور بین النسلی تعلقات پر گفتگو ہو رہی ہے۔ مباحث ہو رہے ہیں۔ ادب تخلیق کیا جا رہا ہے۔ اس باب میں تازہ ترین کتاب نیویارک یونیورسٹی میں جرنلزم کے پروفیسر سکیٹو مہتا نے لکھی ہے۔
''یہ زمین ہماری زمین ہے‘‘ نامی یہ کتاب اس تارکین وطن اور نسل پرستی کے باب میں تخلیق ہونے والے لٹریچر میں ایک جان دار اضافہ ہے۔ پرو فیسر لکھتا ہے ''امریکہ پر میں اپنے حق کا دعوی کرتا ہوں۔ یہ حق میں اپنے لیے، اپنے بچوں اور اپنے پیاروں کے لیے مانگتا ہوں۔ ہم یہاں ہیں۔ ہم واپس نہیں جا رہے ہیں۔ ہم یہاں اپنے بچوں کی پرورش کر رہے ہیں، یہ اب ہمارا ملک ہے۔ ہمیں کسی کو اس کے نسل پرستانہ خوف پر کسی قسم کی کوئی یقین دہانی کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ اب ہمارا امریکہ ہے، اور ہم کسی کو یہ ہم سے واپس لینے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ کتاب میں الفاظ اور لہجے کی سختی نمایاں ہے، اور پروفیسر اس کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ کتاب ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہو جانے پر غم وغصے کی حالت میں لکھی گئی ہے۔ پروفیسرکا خیال ہے کہ ہجرت کے عمل کو مقامی طور پر غلط سمجھا جا رہا ہے۔ اس مسئلے کو اس کے درست تاریخی اور سماجی تناظر میں رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہجرت یا ترک وطن کے عمل کو گلوبل جسٹس یا عالمی انصاف کا معاملہ سمجھنا چاہیے۔ غریب ملکوں سے آنے والے تارکین وطن قرض خواہ ہیں۔ وہ یہاں پر اپنا وہ قرض وصول کرنے آئے ہیں، جو ترقی یافتہ دنیا نے چکانا ہے۔ مغرب کی ترقی یافتہ اقوام ہماری یعنی رنگ دار نسلوں کی مقروض ہیں۔ انہوں نے نوآبادیاتی نظام کے تحت ہمارے ملکوں میں آکر لوٹ مار کی اور ہمارا سیاسی اور معاشی مستقبل تباہ کردیا۔
تارکین وطن اپنا وطن اس لیے نہیں چھوڑتے کہ وہ نکمے اور سست لوگ ہیں یا وہ اپنے وطن سے نفرت کرتے ہیں یا وہ مغرب کو لوٹنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ وہ اپنا وطن اس لیے ترک کرتے ہیں کہ تاریخ کے بوجھ نے اسے رہنے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔
پروفیسر نوآبادیاتی تاریخ میں جھانک کر ان اسباب کا ذکر کرتا ہے، جس نے تیسری دنیا کے ملکوں کو برباد کر دیا۔ اس کے خیال میں نوآبادیاتی قوتوں کی لوٹ کھسوٹ، ماحولیاتی تبدیلی اور ''کارپوریٹ گریڈ‘‘ یعنی لالچ نے غریب ملکوں کے لوگوں کو ہجرت پر مجبورکیا۔ صدیوں کی لوٹ اور تباہی نے ان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ان ملکوں میں آئیں جنہوں نے ان کے ملکوں میں گھس کر ان کو تاخت و تاراج کیا۔ ہمیں یہاں ہونے پر شرمندہ یا معذرت خواہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم آج یہاں ہیں اس لیے کہ کل تم وہاں تھے۔
اجنبی کا خوف اور نفرت کی دیواروں کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دینے کے ساتھ ساتھ پروفیسر مایوسی کے اس اندھیرے میں امید کے کچھ چراغ بھی جلاتا ہے۔ وہ نیویارک شہر کو بطور ماڈل پیش کرتا ہے۔ جہاں تارکین وطن اور مقامی لوگ شیر وشکر ہیں، یہاں رنگ دار اور سفید فام لوگوں نے ایک دوسرے سے مل کر نئے سیاسی اور معاشی امکانات پیدا کیے ہیں۔ اس شہر میں نسلی پرستی اور نسلی جھگڑے حیرت انگیز طور پر کم ہیں۔ یہ شہر کس قدر محفوظ ہو گیا ہے اس حقیقت کے باوجود کہ اس شہر کو ہمیشہ تارکین وطن کی لہروں کا سامنا رہا ہے۔ اس شہر میں تارکین وطن اپنے خود کے کلچر، زبان اور مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے آزاد ہیں۔ ایک طرف نیویارک شہر جیسے ماڈل شہر ہیں۔ دوسری طرف ایسے شہروں اور قصبوں کی بھی کمی نہیں ہے، جہاں خوف اور نفرت ہے۔ مگر تارکین وطن جہاں ہیں ان کو ڈٹ جانا چاہیے۔ یہ زمین اب ہماری زمین ہے۔ اب ہم نے یہاں ہی جینا مرنا ہے۔ اب ہم یہاں سے کئی جانے والے نہیں۔ اس لیے ان لوگوں کا مقابلہ کرنا چاہیے جو خوف پھیلا رہے ہیں۔ اور ان قوتوں کا ساتھ دینا چاہیے جو نفرت کے خلاف ہیں، اور بھائی چارے اور نسلی ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں۔