ہم ایک ہنگامہ خیز دور کے لوگ ہیں۔ ہمارے دور میں اس دنیا میں تقریباً ہر معاشی و سیاسی نظام کا تجربہ ہوا ہے۔ گزشتہ صدی دنیا میں تیزی سے رونما ہونے والے حیرت انگیز واقعات کی صدی تھی۔ دنیا کا ہر ہونا ان ہونا واقعہ اس صدی میں رونما ہوا۔ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم، نوآبادیاتی نظام کا انہدام، روس اور چین کے سوشلسٹ انقلاب، سوویت یونین کا ٹوٹنا، اور لبرل جمہوریت کا ابھار جیسے معجزانہ اور حیران کر دینے والے واقعات رونما ہوئے۔ انیس سو سترہ سے لے کر دو ہزار انیس تک ہم نے دنیا بھر میں تقریباً ہر ایک معاشی اور سیاسی نظام کو پرکھا ہے۔ انیس سو سترہ کا بالشویک انقلاب دنیا کو ہلا دینے والا انقلاب تھا۔ اس انقلاب نے دنیا کا سیاسی لینڈ سکیپ بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس کے بعد کی چھ سات دہائیوں تک دنیا اشتراکیت اور سرمایہ داری کے گرد گھومتی رہی۔ انیسویں صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائیاں دنیا میں انقلابی تحریکوں اور انقلابوں کی دہائیاں تھیں۔ اس لحاظ سے انیسویں صدی ہر لحاظ سے ایک ہنگامہ خیز صدی تھی۔ اس صدی کا اختتام بھی بڑے ڈرامائی واقعات کے ساتھ ہوا۔ نوے کی دہائی میں سوویت یونین اور چین کے سیاسی اور معاشی نظریے اور پالیسیوں میں تبدیلی نے دنیا میں ایک نیا ماحول پیدا کیا۔ اس تبدیلی سے دنیا میں لبرل جمہوریت کے نظریات کو فروغ کا موقع ملا اور صدی کے اختتام تک دنیا بھر میں لبرل جمہوریت کا نظریہ یا رجحانات بڑی حد تک مقبولیت حاصل کر چکے تھے۔ اگرچہ لبرل جمہوریت کوئی مثالی نظام نہیں تھا۔ اس کے زیر انتظام بنی نوع انسان کے سارے مسائل حل نہیں ہوئے تھے‘ نہ ہی اس نظام کے پاس انسانی نسل کو در پیش تمام سوالات کے جوابات تھے‘ مگر پھر بھی جمہوری اور ترقی یافتہ دنیا کی اکثریت لبرل جمہوریت پر ایمان لا چکی تھی، اور اس کو اپنی ایک عظیم کامیابی اور قیمتی اثاثہ سمجھتی تھی۔
شروع شروع میں اس نظام کے بارے بہت جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ ترقی یافتہ دنیا تو خوشحالی کی نئی بلندیوں کو تو چھو ہی رہی تھی۔ تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں بھی امید کی ایک نئی کرن نظر آ رہی تھی۔ ہر طرف رجائیت پسندی تھی۔ سماج سے منفی قوتیں اور منفی رویے کم ہو رہے تھے۔ انتہا پسند اور بنیاد پرست قوتیں پسپائی پر مجبور تھیں، اور بڑے پیمانے پر غیر متعلق ہو رہی تھیں۔ عام خیال یہ تھا کہ دنیا سوشلزم اور سرمایہ داری کی روایتی لڑائی سے نکل کر ایک نئے نظام کی تعمیر پر متفق ہو چکی ہے۔ اور یہ اتفاق اتنا مضبوط ہے کہ مستقبل میں لبرل جمہوریت کو کسی قابل ذکر چیلنج یا مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ کم از کم اتفاق جن مشترکہ قدروں پر ہوا تھا‘ ان میں لبرل جمہوریت، انسانی حقوق اور معاشی و سماجی انصاف شامل تھا۔ مگر بد قسمتی سے بنی نوع انسان کا یہ خواب بھی پوری طرح شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی بکھرنا شروع ہو گیا۔ کچھ ممالک میں منتخب شدہ جمہوری حکومتوں نے جمہوریت کش اقدامات شروع کر دیے۔ اپنے اپنے ملک پر ایسا نظام مسلط کیا، جس میں انتخابات ہوتے ہیں، پارلیمان بنتی ہے، صدر اور وزیر اعظم ہوتے ہیں، مگر یہ سارا بندوبست اس طریقے سے چلایا جاتا ہے، جس کو کچھ بھی کہا اور سمجھا جا سکتا ہے، مگر جمہوریت نہیں۔ یہ مطلق العنانیت کی جدید اور پیچیدہ شکلیں ہیں۔ اس جمہوریت کش کارروائی میں کئی ممالک شامل ہیں، جن کا باری باری آئندہ کالموں میں تجزیہ کیا جائے گا، مگر آج کے کالم میں مثال کے طور پر ہم صرف ہنگری کا ذکر کریں گے، تاکہ عوام یہ دیکھ اور سمجھ سکیں کہ ہمارے اس جدید دور میں کس طرح جمہوریت کے نام پر جمہوریت کو بیڑیاں پہنائی جاتی ہیں، اور جمہوریت کے نام پر مطلق العنانی قائم ہو سکتی ہے، جسے کچھ دانشور ''سافٹ فاشزم‘‘ یعنی نرم فسطائیت کہتے ہیں۔ اس سے پہلے ہنگری کا ایک تھوڑا سا تاریخی پس منظر تاکہ پوری تصویر واضح ہو۔ ہنگری کے لیے مطلق العنانیت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس پر منگول، ترک، روسی، ہیسنبرگ، فاشسٹ اور آخر میں سوویت یونین کی حکمرانی مسلط رہی ہے۔ ہنگری کے لوگوں نے غیر ملکی قابض قوتوں اور اپنے جابر اور مطلق العنان حکمرانوں کے طویل سیاہ دور دیکھے ہیں۔ سال انیس سو نواسی میں دیوار برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ہنگری نے جمہوریت کے راستے پر چلنا شروع کیا۔ اگلے دو عشروں کے دوران دنیا نے دیکھا کہ ہنگری میں ایک قابل رشک پارلیمانی نظام، ایک آزاد میڈیا، ایک آزاد عدلیہ اور حکومتی معاملات میں عوام کی بڑھتی ہوئی شرکت پر مبنی ایک جمہوری نظام قائم ہو چکا ہے۔ یہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ دو ہزار دس میں ہنگری کے لیڈر وکٹر آربن نے اقتدار میں آنے کے بعد جمہوریت پر حملے شروع کر دیے۔ ان حملوں کی وجہ کیا تھی؟ وکٹر انیس سو اٹھانوے سے لے کر دو ہزار دو تک ہنگری کا وزیر اعظم رہ چکا تھا۔ اس دوران اس کا کردار جمہوری اور مثبت تھا۔ اس نے ہنگری کو یورپین یونین میں شامل کرایا۔ نیٹو میں ممبرشپ لی۔ مگر دوسری بار انتخابات میں اسے بری طرح شکست ہوئی۔ یہ شکست کھانے کے بعد اس نے رد عمل کے طور پر دائیں بازو کے قوم پرستانہ اور شدت پسند نظریات کو اپنا لیا۔ اس تبدیلی کی وضاحت کرتے ہوئے جوزف ڈیبرزی نے وکٹر کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ عموماً اچھے سیاست دانوں کو طاقت تباہ کر دیتی ہے، مگر وکٹر کے معاملے میں اس کے بر عکس ہوا۔ یہاں اختیار اور طاقت چھن جانے نے اسے تباہ کر دیا۔ اپنی شکست کے بعد اس نے کھلے عام اور واضح طور پر میڈیا اورجمہوری تکثیریت کو اپنی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس نے اعلان کیا کہ اسے جب اختیار ملا تو وہ میڈیا اور تکثیریت پسندی کا بندوبست کر دے گا؛ چنانچہ انیس سو دس کی اس کی انتخابی مہم نفرت اور دشمنی کا زہر پھیلانے پر چلی۔ اس نے ہنگری کے لوگوں کے ان جذبات کو ہوا دی جو بیرونی حملہ آوروں کے جبر اور ظلم کی وجہ سے ان میں موجود تھے۔ ان جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے باہر سے آنے والوں کو بلا امتیاز ظالم‘ جابر قرار دیا‘ خواہ اس میں باہر کے ممالک ہوں یا ہنگری میں پناہ کی تلاش میں آنے والے غریب غیر ملکی لوگ ہوں۔ اس نے پہلا حملہ یورپین یونین پر کیا، جس میں خود اس نے اپنی حکومت میں بڑی تگ و دو کے بعد شمولیت اختیار کی تھی۔ برسلز کو اس نے نیا ماسکو قرار دیا۔ اس نے اسلاموفوبیا اور دہشت گردی کے خوف کو ہوا دی۔ اس نے لبرل جمہوریت کی جگہ اللبرل یعنی غیر لبرل جمہوریت کا تصور دیا، جو ووٹ اور مطلق العنانیت پر مشتمل ایک آرویلین منافقت کا ملغوبہ تھا۔ انتخاب جیتنے کے بعد اس نے پہلا حملہ میڈیا پر کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے سیاسی اور معاشی دبائو کا استعمال کیا۔ آزادیٔ اظہارِ رائے کے خلاف انتہائی سخت ظالمانہ قاعدے و قانون بنائے، سنسرشپ کو سخت کیا، اور سرکاری سطح پر ڈس انفارمیشن کی مہم چلائی۔ اس کا دوسرا نشانہ عدلیہ بنی۔ اس نے عدالتوں کے دائرہ اختیار کو محدود کیا۔ ججوں کی تقرری اور ریٹائرمنٹ کے بارے میں نئے قوانین بنا کر عدلیہ کو قابو کر لیا، کٹھ پتلی جج تعینات کیے۔ اس نے تیسرا حملہ سول سوسائٹی پر کیا۔ اس نے الزام لگایا کہ سول سوسائٹی کی تنظیمیں غیر ملکی مفادات کی نگہبان ہیں، اور باہر سے فنڈنگ لیتی ہیں۔ ان کو غیر قانونی قرار دے کر چپ کرا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے سوچ و فکر کی آزادی کو بھی سلب کر دیا۔ اس مہم میں وہ اس حد تک چلا گیا کہ ایک یورپین یونیورسٹی کو ہنگری چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور کر دیا۔
ان تمام اقدامات کے ذریعے اس نے ملک میں سافٹ فاشزم قائم کر دیا۔ اب اس کے خلاف اگر کوئی مزاحمت ہو رہی ہے تو اس کی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ اور سوشل میڈیا کی مدد سے ہنگری کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد مزاحمتی تحریک کاحصہ بن رہی ہے۔ یہ تحریک عوام کو یہ امید دلا رہی ہے کہ شاید وہ اپنے چھنے ہوئے جمہوری اور شہری حقوق، چھنی ہوئی آزادیاں، مسخ شدہ اور زنجیروں میں جکڑی ہوئی جمہوریت کو واپس لینے میں کامیاب ہو جائیں۔ ہنگری کی کہانی میں سبق یہ ہے کہ سافٹ فاشزم کا خطرہ ہر وقت موجود ہوتا ہے، جس سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔