جہاں سوچ و فکر پر پہرے ہوں، وہاں قومیں ترقی کی طرف نہیں تنزل کا سفر کرتی ہیں۔ کئی قومیں اور ملک اس تجربے سے گزرے ہیں۔ بنگلہ دیش کو روایتی اعتبار سے اس خطے کا غریب ترین ملک سمجھا جاتا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کا نام آتے ہی ذہن میں جو تصویر ابھرتی تھی، اس میں سیلاب میں بہتے ہوئے لوگ، ڈوبتے ہوئے گھر، قحط سالی اور بھوک کے مارے ہوئے بچے، غربت زدہ اور بیماریوں کا شکار عورتیں نظر آتی تھیں۔ یہ محض ماضی بعید کی ہی کہانی نہیں‘ ماضی قریب میں بھی صورت حال یہی تھی۔ پھر سن دو ہزار کے شروع میں صورت حال کچھ بدلنے لگی، اور کچھ اچھی اور خوش گوار تصاویر بھی منظر عام پر آنا شروع ہوئیں۔ دو ہزارچھ میں جب یہ خبر آئی کہ بنگلہ دیش میں ترقی کی شرح پاکستان سے زیادہ ہو گئی ہے تو ہمارے ہاں یہ خبر کچھ حیرت اور کچھ افسوس کے ساتھ سنی گئی۔ اس کے بعد بنگلہ دیش سے اچھی بری خبریں آتی رہیں، مگر معاشی ترقی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک دن یہ خبر آئی‘ ہندوستان میں ترقی کی رفتار میں کمی کی وجہ سے بنگلہ دیش ایک دن اس خطے میں تیز رفتار ترین ترقی کرنے والا ملک بن جائے گا۔
دانشوروں اور ماہرینِ معاشیات نے اس موضوع پر بڑی مغز ماری کی، اور بنگلہ دیش کی اس کایا پلٹ کا راز جاننے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے اس بڑی تبدیلی کے پیچھے کوئی ایک عنصر نہیں بلکہ کئی عناصر کار فرما ہیں‘ مگر کچھ فیصلہ کن عناصر ایسے ہیں جن کے بغیر بنگلہ دیش سمیت کوئی بھی ملک ترقی کے راستے پر تیز رفتاری سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
ایک بڑا عنصر یا عامل سماجی سوچ میں تبدیلی ہے۔ اسی کی وجہ سے بنگلہ دیش میں سماجی تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔ روایتی اطوار سے ایک پسماندہ سماج ہونے کی وجہ سے بنگلہ دیش میں رجعتی قوتوں، مذہبی شدت پسندوں اور قدامت پسند سوچ کا غلبہ رہا ہے جس کی وجہ سے عورتوں کی آزادی، ان کی تعلیم اور سماجی کاروبار میں ان کی شرکت نہ ہونے کے برابر رہی۔ اس سوچ میں تبدیلی اور اس سوچ کی وجہ سے آنے والی سماجی تبدیلی کی وجہ سے عورت کا گھر اور سماج میں کردار اور شراکت داری تسلیم کی جانے لگی۔ اس تبدیلی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عورتیں باہر نکلیں اور انہوں نے معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ معاشی سرگرمی میں عورت کی شرکت کی ایک بڑی مثال بنگلہ دیش کی کپڑے کی صنعت ہے۔ لاکھوں عورتیں اس صنعت سے وابستہ ہوئیں۔ یہ وابستگی گارمنٹس انڈسٹری میں کھیت مزدوری سے لے کر کپڑے کی ملوں اور کارخانوں سے ہوتی ہوئی سلائی کڑھائی، فیشن ڈیزائننگ، کپڑے کی دکانوں اور کپڑے کی ایکسپورٹ تک پھیل گئی۔ بنگلہ دیشی کپڑے کو پوری دنیا کی منڈیوں میں ایک سستی اور معیاری پروڈکٹ کے طور پھیلانے میں بنگالی خواتین نے بنیادی کردار ادا کرنا شروع کیا۔
گھر سے باہر نکلنے اور سماجی و معاشی سرگرمی میں حصہ لینے کے نتیجے میں اپنی بچیوں کے بارے میں بنگالی عورت کے رویے میں بنیادی تبدیلی آئی۔ اس کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کو لازمی ترجیح کے طور پر اپنایا گیا۔ یہ تعلیم کی برکت تھی جس کی وجہ سے سماجی سوچ میں تبدیلی کا آغاز ہوا۔ اسی کی وجہ سے گھر میں اور سماج میں عورت کی آواز کو زیادہ جگہ ملنا شروع ہوئی۔
کچھ نقادوں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی تیز رفتار ترقی کی ایک وجہ سستے مزدور اور مزدروں کا استحصال ہے‘ خصوصاً گارمنٹ انڈسٹری پر یہ بات صادق آتی ہے کیونکہ اس انڈسٹری میں محنت کشوں اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ، اوقات کار اور معاوضوں کو لے کر ملک میں مناسب قانون سازی نہیں ہے؛ چنانچہ زمینوں، ملوں اور کارخانوں کے مالکان نے اس صورتحال سے بہت ناجائز فائدہ اٹھایا، اور مزدور کے مناسب اوقات کار، کام کی جگہ پر مناسب سہولیات، اور مناسب معاوضہ پر اخراجات کیے بغیر زیادہ سے زیادہ منافع کمایا۔ اسی طرح صنعت کاروں اور کاروباری لوگوں نے پیسہ بنایا اور ملک میں ترقی کے انڈیکیٹرز بہتر ہوئے‘ مگر اس سے عام آدمی اورغریب محنت کش کی زندگی میں فی الحال کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ماضی میں بنگلہ دیش میں متعدد صنعتی حادثے ہوتے رہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں آگ لگنے کے کئی واقعات ہوئے۔ یہ صورت حال لوگوں کی سیفٹی کے لیے مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے کام کرنے والوں کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرتی تھی۔ اس معاملے کا کچھ انسان دوست مغربی ممالک نے اور کچھ ایسی مغربی تجارتی کمپنیوں نے نوٹس لیا، جو بنگلہ دیش کے ساتھ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے دبائو کی وجہ سے اس صورت حال میں قدرے بہتری آئی ہے مگر ابھی تک بنگلہ دیش میں روزگار سے متعلق قوانین کو بین الاقوامی معیار اور کنونشنز کے مطابق لانے کی ضرورت ہے۔
ترقی کے راستے پر گامزن ہونے کے باوجود، جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی طرح بنگلہ دیش کو کئی ایسے سیاسی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے، جو اس کے پائوں کی زنجیر بنے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک سماجی مسئلہ کرپشن ہے۔ کرپشن کی تمام اشکال پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں مشترک ہیں۔ ہمارے اس مشترکہ ورثے میں رشوت، سفارش، اقربا پروری جیسے گہرے روگ ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے سماج میں معاشی انصاف نہیں ہے۔ معیشت کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ ساتھ معاشی عدم مساوات میں بھی اسی تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے امیر امیر تر ہو رہے ہیں، مگر غریب کو اس کا وہ شیئر نہیں مل رہا جس کا وہ حق دار ہے۔ یہ صورت حال منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اس صورتحال کی وجہ سے ترقی رک جاتی ہے اور اس صورت حال کا شکار ملک یا قوم زوال کی طرف چل پڑتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کی طرح بنگلہ دیش کو بھی انتہا پسندی کا سامنا ہے۔ انتہا پسندوں اور قدامت پرستوں کے دبائو کے زیر اثر بنگلہ دیش کئی قسم کی سماجی اصلاحات سے کترا رہا ہے۔ سوچ و فکر کی آزادی اور جدید دور کے فکری اور سماجی رجحانات سے گھبرا رہا ہے۔ یہ عمل ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ بنیاد پرستی تاریخی اعتبار سے نا صرف ترقی کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے، بلکہ اس نے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی قوموں اور ملکوں کو تباہ بھی کیا ہے۔ اس کی شاہکار مثالیں دمشق اور بغداد ہیں۔ جب سوچ و فکر کی آزادی تھی تو یہ شہر علم و تحقیق، سائنس و فلسفے کے مراکز تھے۔ مگر جب سوچ کا گلا گھونٹا جانے لگا تو یہ شہر کھنڈرات بن گئے۔ وزیر اعظم جناب عمران خان ہر محفل میں پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے پاکستان کی ترقی کی کہانی سناتے رہتے ہیں۔ وہ بڑے افسوس سے کہتے ہیں کہ وہ سلسلہ برقرار نہ رہ سکا۔ مگر وہ اس کی وجہ نہیں بتاتے کہ ایسا کیوں ہوا تھا حالانکہ اصل ضرورت یہی وجہ جاننے کی ہے تاکہ لوگ آگاہ ہو سکیں کہ وہ کیا عنصر تھا، جس نے پاکستان کو ترقی کے راستے سے ہٹا کر تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ وہ عنصر ملک پر رجعت پسند قوتوں کی حکمرانی تھی جس کی وجہ سے سوچ و فکر پر پہرے بٹھائے گئے۔ تعلیمی اداروں میں علم و تحقیق اور بحث مباحثوں کا رواج ختم ہو گیا۔ جس کی وجہ سے سوچ و فکر کے سوتے خشک ہو گئے۔
بنگلہ دیش کی کہانی سے ہم کئی سبق سیکھ سکتے ہیں مگر ملتے جلتے حالات کی وجہ سے دو سبق سیکھنے تو بہت ہی ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ عورتوں کو گھر سے نکالے بغیر اور اس کو گھر اور گھر سے باہر سماج میں مکمل شراکت داری دیے بغیر کوئی ملک ترقی کے راستے پر نہیں چل سکتا۔ اور دوسرا سبق یہ ہے کہ سماج میں مذہبی انتہا پسندی جب ایک روگ بن جائے تو یہ ترقی کے راستے کی دیوار بن جاتی ہے۔ انتہا پسندی سے ڈر کر اس کو کھلی چھٹی دے دینا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ ملک کو امن و ترقی کے راستے پر ڈالنے کے لیے انتہا پسندی کو روکنا اور سماج میں اعتدال پسند سوچ کو فروغ دینا بنیادی شرط ہے۔