شہرہ آفاق سیاست دان اور دانشور فیڈل کاسترو نے کہا تھا: انقلاب پھولوں کی سیج نہیں‘ انقلاب ماضی اور مستقبل کے درمیان تادم مرگ جنگ کا نام ہے۔ آج کل جب اس نابغہ روزگار شخص کی تیسری برسی منائی جا رہی ہے، تو دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اس عظیم دانشور اور مدبر شخص کو یاد کر رہے ہیں۔ اس کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کر رہے ہیں‘ اور اس کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
کاسترو کے یوم پیدائش یا یومِ موت پر میں گاہے کالم لکھتا رہا ہوں۔ ان کالموں میں مَیں ان کی شخصیت اور جدوجہد کے باب میں اپنے تاثرات پیش کر چکا ہوں؛ چنانچہ زیرِ نظر کالم میں کاسترو کے نظریات اور سیاسی جدوجہد کے علاوہ کچھ دیگر دلچسپ و عجیب چیزوں کا ذکر بھی کروں گا، جو شاید بہت سارے لوگوں کو معلوم نہیں ہیں۔
کاسترو نے اپنی طویل زندگی میں بہت سارے ریکارڈ بنائے اور توڑے۔ یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ کاسترو بہت اچھے مقرر تھے۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں مسلسل دو سو انہتر منٹ بول کر ایک سربراہ مملکت کی حیثیت سے اس فورم پر طویل ترین تقریر کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جو آج تک قائم ہے۔ ملک کے اندر ان کی طویل ترین تقریر کا ریکارڈ انیس سو چھیاسی میں بنا‘ جب انہوں نے پارٹی کی کانگرس سے سات گھنٹے اور دس منٹ کا طویل خطاب کیا۔ فن خطابت کے ساتھ ساتھ کاسترو اعلیٰ پائے کے لکھاری بھی تھے۔ وہ ایک باقاعدہ کالم نویس تھے۔ وہ کیوبا کے اخبارات میں باقاعدگی سے کالم لکھتے تھے۔جن لوگوں کو یقین ہے کہ امریکی سی آئی اے اور دوسری خفیہ ایجنسیاں اس دنیا میں جو چاہیں کر سکتی ہیں‘ ان کے لیے کاسترو کی زندگی میں ایک بڑا سبق ہے۔ واشنگٹں سی آئی اے اور پینٹاگون کی مدد سے دنیا کے کونے کونے میں رجیم چینج، انقلاب اور ردِ انقلاب کے کھیل کھلیتا رہا ہے۔ ہزاروں میل دور جہاں اور جب چاہا حکومت بدل دی۔ مگر میامی سے چالیس منٹ کے ہوائی سفر کے فاصلے پر بیٹھا ہوا فیڈل کاسترو پچاس سال تک ان لوگوں کے لیے درد سر اور ڈرائونے خواب کی طرح بیٹھا رہا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کاسترو کی زندگی پر چھ سو چونتیس حملے ہوئے۔ ان میں سے اکثر حملے امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی نگرانی میں ہوئے۔
ان قاتلانہ حملوں میں زہر میں بجھے سگار، زہریلی گولیاں، کیمیکلز سمیت کئی روایتی اور غیر روایتی ہتھیار استمعال ہوئے تھے۔ کاسترو کے سر کی قیمت بھی لگی اور چند سو میل کے فاصلے پر موجود سپر پاور کے کئی اہل کاروں نے سرے عام ان کی موت کی تمنا بھی کی۔ کاسترو کا تختہ الٹنا کئی ایک کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش رہی۔ اس کے باوجود کاسترو نے بادشاہوں کو چھوڑ کر دنیا کے طویل ترین حکمران ہونے کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ بیسویں صدی میں کاسترو سے زیادہ عرصہ جو لوگ برسر اقتدار رہے ان میں ایک انگلستان کی ملکہ الزبتھ تھی اور دوسرا تھائی لینڈ کا بادشاہ تھا، جن کو ان معنوں میں سیاسی حکمران نہیں کہا جا سکتا۔
امریکہ نے کاسترو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اپنی خفیہ ایجنسیوں اور سیاسی اثر و رسوخ کے علاوہ اپنی قریبی ہمسائیگی اور معاشی طاقت کا بھی استعمال کیا۔ لاکھوں کاسترو دشمن لوگوں کو امریکہ میں پناہ دی گئی۔ ان جلا وطن کیوبن کے ذریعے کیوبا کے اندر ردِ انقلاب کی مسلسل کوششیں ہوتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کیوبا کی ہر طرح سے ناکہ بندی کی گئی۔ امریکی شہریوں کو کیوبا کا سفر کرنے سے روکنے سے لے کر ہر قسم کی سخت معاشی و تجارتی پابندیوں تک ہر ہتھکنڈا استعمال کیا گیا۔ ہر نئے امریکی صدر نے برسر اقتدار آ کر پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر کیوبا پر لگائی گئی پابندیوں کو سخت کیا۔ ان پابندیوں کا واحد مقصد کاسترو کو اقتدار سے ہٹانا تھا، مگر ہوا اس کے برعکس، کاسترو نے صدر آئزن ہاور سے لے کر بل کنٹن تک نو امریکی صدور کو بھگتایا، اور وہ پانچ عشروں تک اقتدار پر بیٹھ کر امریکی صدور کی بے بسی پر مسکراتا رہا۔
سیاست کے ساتھ ساتھ کاسترو کو ادب سے گہری دلچسبی تھی۔ وہ انگریزی اور ہسپانوی ادب کے قاری اور نقاد تھے۔ امریکی ناول نگار ہمنگوے ان کا پسندیدہ ادیب اور قریبی دوست تھا۔ ہمنگوے کی کیوبا میں ایک مستقل رہائش تھی، جہاں رہ کر اس نے سپین کی خانہ جنگی پر مشہور ناول تخلیق کیا۔ ہمنگوے کے علاوہ کئی دوسری ادبی شخصیات کے ساتھ بھی کاسترو کی گہری دوستی رہی۔ ان میں چلی کے مشہور ہسپانوی شاعر پابلو نریدہ بھی شامل ہیں۔ نریدہ کاسترو اور کیوبا کے انقلاب کا بڑا احترام کرتے تھے‘ مگر انیس سو چھیاسٹھ میں جب اس نے امریکہ کا دورہ کیا تو صورت حال بدل گئی۔ اس کے خلاف کیوبا کے دانشوروں نے ہسپانوی زبان کے اخبارات میں بڑے پیمانے پر خطوط لکھے، جن کے بارے میں عام رائے یہ تھی کہ یہ خطوط کاسترو کی ایما پر لکھے جاتے تھے۔ کاسترو کی کولمبیا کے ادیب گبریئل گارشیا کے ساتھ بھی بڑی گہری دوستی تھی۔ گارشیا کا مشہور ناول ''ایک سو سال کی تنہائی‘‘ کاسترو کو بہت پسند تھا۔ گارشیا کا ماننا تھا کہ کاسترو ایک بہترین نقاد ہیں۔ کئی سال تک کاسترو گارشیا کی درخواست پر اس کے مسودوں کا تنقیدی جائزہ لیتے رہے۔
کاسترو اپنی کرشماتی شخصیت، نظریات اور کیوبا میں ایک کامیاب معاشی نظام کی وجہ سے دنیا بھر کے انقلابیوں میں اتنے مقبول تھے کہ وہ لینن ازم، مائوازم یا جوچے نظریات کی طرح کاستروازم متعارف کرا سکتے تھے۔ ان کے بہت سارے پیروکاروں نے کاستروازم کو بطور نظریہ اور طرزِ زندگی متعارف کرانے کی کوشش بھی کی‘ جس کی کاسترو نے حوصلہ شکنی کی‘ حالانکہ کیوبا کے انقلاب کے ابتدائی ایام میں ہی کاستروازم کی اصطلاح گھڑی جا چکی تھی۔ یہ اصطلاح مشہور امریکی تاریخ دان تھیوڈور دریپر نے گھڑی تھی۔ تھیوڈور کا خیال تھا کہ کاسترو نے روایتی سوشلزم کی جگہ ایک نیا نظریہ تخلیق کیا ہے، جو یورپین سوشلزم اور لاطینی امریکہ کی انقلابی روایات کا امتزاج ہے۔ اگر گہرائی تک تجزیہ کیا جائے تو یہ بات درست بھی تھی۔ کاسترو نے روسی سوشلزم یا چینی مائوازم کی اندھی تقلید یا نقل کے بجائے ایک تخلیقی انداز اپنایا، اور جدت پسندی سے کیوبا کے اپنے مقامی مخصوص حالات کے مطابق بالکل مختلف انداز میں اس کا اطلاق کیا۔ اس کا نتیجہ بھی مختلف تھا، جو ہر سال اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹوں میں نظر آتا رہا۔ کاسترو کے دور میں کیوبا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو روٹی، کپڑا، مکان، روزگار، صحت اور تعلیم کی ضمانت دی جاتی تھی۔ خواندگی کی شرح، تعلیم، صحت، روزگار کے باب میں کیوبا لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک کے لیے ایک روشن مثال بن گیا تھا۔
کاسترو زندگی بھر ملٹری سٹائل کمبیٹ وردی نما کپڑے پہنتے رہے، مگر آخری عمر میں وہ جرمنی میں قائم ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے تیار کردہ کپڑے پہنتے رہے۔ یاروں کو کاسترو کی فوجی وردی پر بھی اعتراض رہا کہ وہ ان کو ہم عصر فوجی آمریتوں کی یاد دلاتی تھی‘ اور مذکورہ معروف کمپنی کے آرام دہ لباس پر بھی وہ خوش نہیں تھے کہ یہ انہیں برانڈ نیم، ملٹی نیشنلز کے استحصال کی یاد دلاتا تھا۔ مگر یہ دونوں باتیں کاسترو کے کھلے ذہن پر دلالت کرتی ہیں۔
کاسترو ایک غیر معمولی ذہانت کے مالک دانشور تھے۔ وہ مسلسل اپنے نظریات کا از سر نو تنقیدی جائزہ لے کر ان کو بدلتے حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ وہ خود تنقیدی کے بڑے قائل تھے۔ آخری عمر میں انہوں نے اپنی بہت سی پالیسیوں کے غلط ہونے کا اعتراف کیا۔ ہم جنس پرستوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف سخت پالیسی اس کی ایک مثال تھی، جس پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ یہ درست ہے کہ کاسترو نے عوام کے بیشتر جمہوری و انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی تھِیں‘ مگر ان کے طویل مدتی اقتدار کی وجہ یہ پابندیاں نہیں، بلکہ عوام کے اندر ان کی بے پناہ مقبولیت تھی۔ اس مقبولیت کا مشاہدہ میں نے ذاتی طور کاسترو کے دور میں بار بار ہوانا کی سڑکوں پر عام آدمی سے بات چیت کے دوران کیا۔ کیوبا کے عام آدمی کے دل میں چے گویرا اور کاسترو کا بے پناہ احترام اور محبت تھی‘ اور اب بھی ہے۔ کاسترو اور کیوبا کے عوام کے درمیان محبت اور جبر کا ایک عیب رشتہ تھا، جو نصف صدی سے بھی زائد عرصے تک قائم رہا۔