گزشتہ برس معیارِ زندگی کی عالمی درجہ بندی میں کینیڈا کو پہلا نمبر دیا گیا تھا اور ایسا مسلسل چوتھی بار ہوا تھا کہ کینیڈا دنیا میں پہلے نمبر پر تھا۔
معیارِ زندگی میں اول نمبر پر ہونے کے علاوہ دیگر کئی حوالوں سے بھی اس ملک کو ایک مثالی اور قابل تقلید ملک قرار دیا جاتا رہا ہے۔ عورتوں کیلئے کینیڈا کو کئی بار دنیا کا تیسرا بہترین ملک قرار دیا گیا۔ بچوں اور عمر رسیدہ افراد کو سہولیات اور سماجی تحفظ فراہم کرنے کیلئے بھی یہ ملک اچھی شہرت رکھتا ہے۔ دیگر قابل تعریف چیزوں میں اس ملک کا معیار تعلیم، صحت کا نظام اور کارپوریٹ ہیڈ کوارٹرز کیلئے سہولیات اور انفراسٹرکچر شامل ہیں، جن کو باقی دنیا میں رشک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مختلف ممالک کے معیار زندگی کو ناپنے کیلئے بہت سے پیمانے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں تقریباً پچھتر بنیادی میٹرکس یا سانچے استعمال ہوتے ہیں۔ ان سانچوں کو پھر ذیلی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان ذیلی اقسام میں روزگار کے مناسب مواقع، سستی اور معیاری اشیا کی دستیابی، معاشی استحکام، فیملی فرینڈلی سماج، آمدنی میں نسبتاً مساوات، سیاسی استحکام، سیفٹی، ایک ترقی یافتہ سرکاری نظامِ صحت اور ترقی یافتہ نظام تعلیم شامل ہیں۔
گزشتہ سال یعنی دو ہزار انیس کے معیارِ زندگی کے اعتبار سے دنیا کی درجہ بندی یا رینکنگ میں کینیڈا کے بعد بالترتیب سویڈن، ناروے، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ اور فن لینڈ کا نمبر آتا ہے۔ کینیڈا کے پہلے نمبر پر آنے میں جن عوامل کا بنیادی کردار ہے ان میں کینیڈا کا سیاسی استحکام، مضبوط جاب مارکیٹ، محفوظ ماحولیات اور اچھا نظام تعلیم شامل ہیں۔ اس درجہ بندی میں آسٹریلیا کا ساتواں نمبر، انگلینڈ کا بارہواں، جاپان تیرہواں، فرانس کا سولہواں، امریکہ کا سترہواں اور چین کا بیسواں نمبر ہے۔ گویا انسان صدیوں سے تعمیر و ترقی، خوشحالی یا سماجی و معاشی مساوات کے جو خواب دیکھتا آیا ہے، کینیڈا ان خوابوں کی پوری تعبیر تو نہیں، مگر انکی ایک چھوٹی سی جھلک ضرور پیش کرتا ہے، اور مستقبل کیلئے بہتری کی امید جگاتا ہے۔ یہ کینیڈا کی رنگا رنگ تصویر کا ایک رخ ہے، جس پرکینیڈا کے لوگوں کو فخر ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کوئی انسانی سماج بھی مثالی اور مکمل نہیں ہوتا۔ انسانی سماج جتنا بھی بام عروج پر کیوں نہ ہو پھر بھی اس میں کوئی نہ کمی یا خامی رہ جاتی ہے۔ اس خامی پر خواہ قابو پانے کی جتنی بھی کوشش ہو پھر بھی کبھی کبھی اس خامی یا کمزوری کی کوئی نہ کوئی جھلک ہمیں سرِ بازار دکھائی دیتی ہے۔ اس کمی یا کمزوری کی ایک مثال بے گھر افراد ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت کینیڈا کے سب سے بڑے شہر ٹورانٹو میں بے گھر افراد کی تعداد دس ہزار کے قریب ہے۔ اس تعداد میں مسلسل کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اسی طرح بے گھر شمار کیے جانے والے لوگ بھی بدلتے رہتے ہیں۔ یہ بے گھر افراد عام لوگ نہیں ہیں، جو تیسری دنیا کے لاکھوں بے گھر افراد کی طرح غربت، بے روزگاری اور سماجی تحفظ کی عدم موجودگی کی وجہ سے در بدر ہو جاتے ہیں بلکہ یہ خاص لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے بے گھر ہونے کی اپنی الگ الگ وجوہ ہوتی ہیں۔ ان گوناگوں وجوہ میں اہم ترین ذہنی بیماریاں، منشیات کا استعمال، گھریلو تشدد، جنسی‘ جسمانی یا جذباتی استحصال اور خاندان میں ٹوٹ پھوٹ شامل ہے۔ بیروزگاری یا سماجی اور معاشی نا انصافی بھی اس طرح کے مسائل میں کہیں نہ کہیں ضرور کارفرما ہوتی ہے۔ اگرچہ کینیڈا میں بیروزگار کے لیے کم از کم گزارہ الائونس اور بے گھر کے لیے شیلٹر سنٹرز موجود ہیں‘ شہر میں ذہنی یا جسمانی بیمار کے لیے ایک سپورٹ سسٹم موجود ہے، اس کے باوجود کچھ لوگ اس سیفٹی نیٹ سے نکل کر کسی نہ کسی طرح سڑک پر آ جاتے ہیں۔ ان میں وہ لوگ نمایاں ہیں، جو ذہنی یا جذباتی مسائل کے علاوہ منشیات کے استعمال جیسے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ کینیڈا میں ایمرجنسی شیلٹرز اور بے گھر افراد کے لیے پائے جانے والے مراکز یا پناہ گاہوں میں ہمیشہ ایک دو فیصد جگہیں خالی پڑی رہتی ہیں‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہاں کوئی بھی شخص بے گھر ہونے پر مجبور نہیں ہوتا، بلکہ اس عمل میں اس کی ذہنی و جذباتی کیفیت اور فیصلہ سازی کا بھی عمل دخل ہوتا ہے اور شہر میں بہت سارے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں، جو رہنے کی جگہ میسر ہونے یا کسی پناہ گاہ تک رسائی ہونے کے باوجود رات سڑک پر سوتے ہیں۔ کچھ لوگ ان بے گھر لوگوں کی تصاویر بنا کر یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک ترقی یافتہ فلاحی ریاست بھی ایسے انسانی مسائل پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ انسان خواہ کتنا ہی مثالی نظام کیوں نہ تعمیر کر لے پھر بھی کہیں نہ کہیں کمی رہ ہی جاتی ہے؛ چنانچہ اگر انسان اس دنیا میں جنت ہی تخلیق کر دے تو پھر بھی کچھ مسائل باقی رہیں گے۔
بے گھر افراد پر بات کرتے ہوئے جو اہم سوال کھڑا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بے گھری کیا ایک سماجی مسئلہ ہے یا وسائل کی کمی کی وجہ سے ایک معاشی مسئلہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ہائوسنگ کا سوال ہے، جس کے لیے مادی وسائل کی ضرورت ہے تاکہ طلب کے مطابق اس تعداد میں گھر یا پناہ گاہیں میسر ہوں۔ اس سوال کا جواب بھی سوال کی طرح ہی پیچیدہ ہے۔ بے گھری میں کوئی ایک یا دو نہیں بلکہ جیسا کہ اوپر ذکر کیا کئی عوامل بیک وقت کارفرما ہوتے ہیں۔ کینیڈا میں وافر وسائل کے باوجود سال انیس سو ستانوے سے بے گھر افراد میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ ایک بڑا سماجی مسئلہ بن گیا ہے۔ دو ہزار گیارہ کے مشہور ایکشن پلان میں اس مسئلے کے حل کے لیے کینیڈا کی فیڈرل گورنمنٹ نے سالانہ ایک سو بیس ملین ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دو ہزار چودہ سے لے کر دو ہزار انیس تک ایک نئے ہوم لیس پارٹنر پروگرام میں سات سو ملین ڈالر کی فنڈنگ کی گئی۔ اس باب میں حکومت کی توجہ کا مرکز ہائوسنگ فرسٹ رہا۔ اس ہائوسنگ فرسٹ پروگرام کے تحت نجی اور سرکاری ادارے یا تنظیمیں گورنمنٹ سے فنڈنگ لے سکتی ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر کینیڈا ہر سال تیس بلین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرتا ہے۔ یہ خطیر رقم ان بے گھر افراد پر خرچ ہوتی ہے، جن کو سرکاری سطح پر بے گھر مانا جاتا ہے۔ بے گھر افراد کی کوئی مستقل سرکاری تعریف نہیں ہے؛ البتہ یارک یونیورسٹی میں قائم ''کینیڈین ہوم لیس ریسرچ نیٹ ورک‘‘ کی تعریف عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے‘ جس کے مطابق ''بے گھری ایک فرد یا گھرانے کی حالت زار کا نام ہے، جس کے پاس کوئی مستقل، مستحکم اور رہنے کیلئے مناسب ٹھکانا نہیں، اور اس کے پاس اس ٹھکانے کے حصول کا کوئی فوری ذریعہ نہیں ہے۔ بے گھری سماجی رکاوٹوں اور سستے گھروں کی عدم دستیابی، فرد یا خاندان کے ذہنی، جسمانی اور جذباتی حالات، نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا نتیجہ ہے۔ اکثر لوگ بے گھر ہونے کا خود انتخاب نہیں کرتے، اور یہ عموماً ایک منفی، ناخوشگوار اور مایوس کن تجربہ ہوتا ہے‘‘۔ اس جامع تعریف کے باوجود ٹورانٹو کی سڑکوں پر جو لوگ نظر آتے ہیں، ان میں سے کچھ استثنا ہیں۔ یہ غیر معمولی اور خاص لوگ ہیں، جو نظام کے اندر اس طرح نہیں رہ پاتے، جس طرح ان سے توقع کی جاتی ہے۔ یہ مختلف لوگ ہیں، اور ان کو باقی سماج سے مختلف انداز کا طرز بودوباش پسند ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کو اس جدید آرام و آسودگی کے دور میں ایک دوسری طرح کی بے گھری کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں کرس رائیٹ کا ایک پُر مغز مضمون میری نظر سے گزرا۔ کئی دہائیاں پہلے ایڈورڈ سیڈ نے کہا تھا: ہمارے عہد کی زندگی بے گھری کی ایک عمومی حالت ہے۔ مارٹن ہائیڈگر نے اس کو دنیا کا مقدر قرار دیا تھا۔ نیو لیفٹ نے پورٹ ہوران کے مشہور اعلامیے میں لکھا تھا کہ ہمارے عہد میں محبت، آزادی، تخلیق اور کمیونٹی جیسی اقدار رو بہ زوال ہیں۔ انسان اور انسان کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے تنہائی، بیگانگی کا نتیجہ ہیں۔ ہماری زندگی پر غالب آتے ہوئے یہ رجحانات بہتر ذاتی نظم و ضبط یا بہتر آلات سے نہیں بدل سکتے۔ یہ صرف انسانی محبت ہی ہے، جو انسان کو مادی اشیا کی پوجا سے روک سکتی ہے۔ یہ جو اجتماعی روگ ہے، اس کو کارل مارکس نے ایک صدی پہلے ہی پہچان لیا تھا اور کمیونسٹ مینی فیسٹو میں وضاحت سے اس بارے لکھ دیا تھا۔