"FBC" (space) message & send to 7575

ٹرمپ کے دورہ بھارت سے کیا ہو گا؟

ٹرمپ کے دورے کے دوران بھارت کے جوش و خروش کو دیکھ کر بھارت اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ یاد آتی ہے۔ یہ تعلقات ہمیشہ کوئی بہت خوشگوار نہیں رہے۔ یہ تعلقات بڑے نشیب و فراز سے گزرے۔ نشیب زیادہ رہا، اور فراز کم۔ مگر بدلتے وقت کے ساتھ دونوں ملک اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لائے۔ ان تبدیلیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوئی، جو اس دورے میں عام دکھائی دیتی ہے۔ تاریخ میں جھانکا جائے تو پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں بھارت کی خارجہ پالیسی کو امریکی تشویش سے دیکھتے رہے۔ پچاس کی دہائی میں اس ناپسندیدگی کی وجہ پنڈت نہرو کی پالیسیاں تھیں۔ نہرو ایک آزاد خیال سوشلسٹ تھے، اور آزاد خارجہ پالیسی پر یقین رکھتے تھے، مگر عملی طور پر عالمی سیاست میں ان کا جھکائو واضح طور پرسویت یونین کی طرف تھا۔
اس وقت نوآبادیاتی نظام کی پسپائی کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ کئی دوسرے ممالک آزاد ہوئے تھے۔ تیسری دنیا کے کچھ نوآزاد ممالک میں دونوں بڑی طاقتوں کے اثر سے اپنے آپ کو آزاد یا الگ رکھنے کی خواہش تھی۔ اس خواہش کی قیادت پنڈت جواہر لال نہرو کے ہاتھ میں تھی۔ اس کی ترجمانی انہوں نے عالمی سطح پر پہلی بار 1955 میں سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں اپنی تقریر میں کی۔ کولمبو میں پنڈت جواہر لال نہرو اور چواین لائی نے پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں پراتفاق کیا۔ یہ اصول عالمی طاقتوں کی تیسری دنیا کے ممالک میں مداخلت کے خلاف ایک اعلامیہ تھا۔ یہ اصول آگے چل کرغیرجانب دارتحریک کی بنیاد بنا۔
غیرجانب دارتحریک میں پنڈت نہرو اس وقت کے عالمی طور پر شہرت یافتہ اور اپنے عوام میں بے حد مقبول رہنمائوں کو شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان میں مصر کے جمال عبد الناصر، یوگوسلاویہ کے جوزف ٹیٹو، ویتنام کے ہوچی من، چین کے چواین لائی، کیوبا کے فیڈل کاسترو اور انڈونیشیا کے سوئیکارنو سمیت کئی بڑے لیڈر شامل تھے۔ امریکہ کے لیے یہ تحریک ایک مسئلہ تھی۔ اس تحریک کے رہنمائوں کا دعویٰ تھا کہ سرد جنگ کی وجہ سے دوبلاکوں میں تقسیم اس دنیا میں وہ غیرجانبدار ممالک ہیں مگرامریکہ اس دعوے کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ امریکہ کا موقف تھا کہ یہ تحریک سوویت یونین کا ایک نیا عالمی فرنٹ ہے، جس کا مقصد ایسے ممالک کی حمایت لینا ہے، جو سرد جنگ کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
امریکہ بھارت تعلقات میں سرد مہری کی دوسری وجہ امریکہ پاکستان تعلقات تھے۔ آزادی کے فوراً بعد لیاقت علی خان نے سوویت یونین کی دعوت ٹھکرا کر امریکہ کا دورہ کیا۔ انہوں نے امریکہ اورمغرب کو پیغام دیا کہ پاکستان سرد جنگ میں مغربی بلاک کے ساتھ چلنے کو تیار ہے۔ لیاقت علی خان نے جو پالیسی اپنائی اس کے زیراثر پاکستان مغرب کا ایک اہم ترین اتحادی ملک بن گیا۔ آگے چل کریہ تعلق اتنا آگے بڑھا کہ پاکستان کو سیٹو اور سینٹو جیسے مغربی فوجی معاہدوں کا حصہ بنا لیا گیا۔ دوسری طرف بھارت سوویت یونین کے قریب ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ 1971 میں بھارت نے سوویت یونین سے باضابطہ دفاعی تعاون کا معاہدہ کر لیا؛ چنانچہ ساٹھ اورسترکی دہائیوں میں بھارت اورامریکہ کے تعلقات میں ایک خاص قسم کی سرد مہری رہی۔ یہ سرد مہری سرد جنگ کے اختتام اور انڈیا کی لبرل ازم کی پالیسیاں اپنانے پرختم ہونا شروع ہوئی۔ نئے تعلقات کا دور شروع ہوا۔ یہاں تک کہ 2005 میں امریکہ نے بھارت کو باضابطہ طور پر نیوکلیئر طاقت تسلیم کر لیا اوراس کے ساتھ ساتھ نیو گلوبل آرڈر اور سکیورٹی میں بھی بھارت کی شرکت کی ضرورت کا اظہار کیا گیا۔ تب سے امریکہ بھارت سے بڑی امیدیں رکھتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورمیں امریکہ کا بہت سارے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں تنائو پیدا ہوا۔ جب ٹرمپ نے باآواز بلند سب ملکوں سے یہ پوچھنا شروع کیا کہ امریکہ نے آپ کے لیے بہت کچھ کیا‘ جواب میں آپ نے ہمارے لیے کیا کیا ہے؟ تو بھارت کوئی استثنا نہیں تھا۔ بھارت 2005 سے سفارتی محاذ اور ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ کی فراخدلانہ مدد سے مستفید ہو رہا تھا۔ ٹرمپ نے ٹریڈ اور ٹیرف کے حوالے سے مشکل سوالات اٹھائے تو جواباً کسی خفگی کے اظہار کے بجائے نریندرمودی نے زیادہ گرمجوشی دکھائی اور ٹرمپ سے ذاتی تعلق قائم کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ ان کوششوں کا نتیجہ ٹرمپ کی مودی کی ریلی میں شرکت‘ اور اب اس کی آبائی ریاست گجرات کا دورہ ہے۔
ماضی میں بھارت امریکہ تعلقات کے نشیب و فراز میں ایک اہم عنصر چین رہا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں واشنگٹن کی چین پالیسی میں دو بڑی بنیادی اور نمایاں تبدیلیاں ہوئیں۔ پہلی‘ ٹرمپ نے واضح طور پر چین کوایک کاروباری یا سٹریٹیجک شراکت دار کی بجائے حریف اور مدمقابل قرار دیا۔ دوسری‘ ٹرمپ دور میں امریکہ کی انڈوپیسیفک پالیسی کا ازسر نو جائزہ لیا گیا اور روایتی پالیسی کے برعکس ایک ''کھلے اورآزاد انڈوپیسیفک‘‘ کی پالیسی اپنائی۔اگرچہ بھارت اورامریکہ کے درمیان انڈوپیسیفک پر کئی اختلافات ہیں لیکن اس سمندرمیں چینی بالادستی کو روکنے پر یہ دونوں ملک متفق ہیں؛ چنانچہ آزاد اور کھلے سمندر کی پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ اس سمندر کے پانیوں پرچین کا کنٹرول اور بالادستی ختم کی جائے اور یہ وہ مشترکہ نکتہ ہے جو دونوں کو مشترکہ مفادات کی لڑی میں پرو کر قریب لاتا ہے۔
دفاعی تجارت ان قریبی تعلقات کی ایک اور وجہ ہے۔ ماضی میں بھارت دفاعی خریداری کے باب میں روس پرانحصار کرتا تھا‘ مگر حالیہ برسوں میں بھارت نے امریکی تاجروں سے ہائی ٹیک ڈیفنس سسٹم خریدا ہے۔ یہ صورتحال اس حد تک پہنچی کہ روس نے باضابطہ دھمکی دی کہ وہ چین کو بھارت سے بہتر ہتھیار فراہم کرے گا۔ اس کے باوجود اس باب میں بھارت نے پیش قدمی جاری رکھی اور وہ امریکی ڈیفنس ٹیکنالوجی کی اہم ترین منڈی بن گیا۔ اس وقت بھارت امریکہ سے سب میرین، ٹینک شکن ہیلی کاپٹرز، میزائل، نیول گنز، بغیر ڈرائیور کے ہوائی گاڑیاں اورمیری ٹائم پٹرول طیارے خرید رہا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو ڈرون اور میزائل کا ایئرڈیفنس سسٹم دیا، جوعام حالات میں چین اور پاکستان کے ردعمل کے پیش نظر ممکن نہ تھا۔ ہائی اینڈ ڈیفنس ٹیکنالوجی کی فروخت کے لائسنسز کے حوالے سے بھارت کو وہی مراعات دے دی گئیں، جو نیٹو کے دیگر ممالک کو حاصل ہیں۔ 
حال ہی میں بھارت اور امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سرگرمی کا نقطہ ماسکہ بحراوقیانوس میں چین کی موجودگی اوراس کی سرگرمیاں ہیں۔ بھارت اب چین کے حوالے سے انٹیلی جنس اورچینی فوجی آپریشن کے بارے میں امریکہ سے معلومات بھی شیئر کر رہا ہے۔ ایسا کرکے مودی سرکار نے ٹرمپ کا یہ شکوہ دور کر دیا ہے کہ بھارت امریکی نوازشات کے بدلے میں کچھ نہیں کر رہا۔ 
امریکی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات اب اس نہج پر چل رہے ہیں کہ امریکہ یہ توقع رکھتا ہے کہ مستقبل میں اس خطے میں کسی بحران یا جنگ کی صورت میں بھارت امریکی فوج کا ہاتھ بٹا سکتا ہے مگر ان سازگار حالات اور نئے مواقع کے باوجود بھارت وہ فائدہ نہیں اٹھا سکا جو اٹھا سکتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے بھارت کی معیشت میں سست رفتاری آ گئی ہے۔ معیشت میں اس سست رفتاری کی وجہ سے بھارت چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے اسلحہ کی خریداری اور فوج پرمطلوبہ اخراجات نہیں کرسکتا۔ اس وجہ سے اس کا امریکہ کے ساتھ پارٹنرشپ کا عمل بھی سست ہو رہا ہے۔ بھارت کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی فوج کا ایک مائنڈسیٹ ہے۔ یہ ایک قدامت پسند فوج ہے۔ اس کی ساری ٹیکنالوجی اورڈاکٹرائن چین اورپاکستان کے ساتھ بارڈرکے ڈیفنس کے گرد گھومتی ہے؛ چنانچہ یہ فی الحال برصغیر سے باہردیکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ بھارت اس وقت اندرونی طور پر انتشار اور بے چینی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے اس کی معیشت کی سست رفتاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود کھربوں ڈالر کے اسلحہ کی فروخت اور دونوں ملکوں کی منڈیوں میں اتنے بڑے پیمانے پر رسائی سے اس امر میں شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے بے پناہ معاشی اور سیاسی مفادات ایک دوسرے سے جڑچکے ہیں۔ صدر ٹرمپ خطے میں بھارت کے غالب کردارکو کھلے عام تسلیم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ ان حالات میں خطے کی سیاست میں بنیادی تبدیلی کے امکانات واضح ہیں۔ علاقائی طاقتوں کو ان حالات کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسیوں کو ازسرنو ترتیب دینا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں