"FBC" (space) message & send to 7575

کیا کورونا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے؟

کورونا کے خلاف جنگ جاری ہے۔ دنیا بھر میں انسان کو اس آفت سے بچانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ بری خبروں کے اس اداس دور میں اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا بھر میں بہت بڑی تعداد میں انسانی زندگیاں بچائی جا رہی ہیں۔ ہر روز اس جنگ میں انسانی صلاحیت و مہارت بڑھ رہی ہے اور یہ جنگ جیتنے کے امکانات بھی روشن ہو رہے ہیں۔
کورونا کے خلاف لڑائی کی ہر ملک کی اپنی داستان ہے‘ اپنے اپنے اعدادوشمار ہیں۔ اس لڑائی میں ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ عام آدمی سے لے کر اہل حکم تک سب کا بڑا کردار ہے۔ مگر اس جنگ کے اصل ہیروز ڈاکٹرز، نرسیں اور صحت و طب کے شعبے سے جڑے دوسرے افراد ہیں، جو اگلے مورچے پر لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے کئی ہیروز یہ لڑائی لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ بہت بڑے جانی مالی نقصان کے باوجود انسان یہ لڑائی جیت رہا ہے۔ ہرملک اپنے اپنے حالات کے مطابق کامیابی کی نوید دے رہا ہے۔ ان ممالک میں کینیڈا بھی ہے۔ کورونا بحران سے پہلے کینیڈا کی معیشت اورنظام صحت کوجی سیون میں سب سے بہتر بلکہ قابل رشک سمجھا جاتا تھا۔ کورونا نے حملہ کیا تو کینیڈا معاشی طور پر مستحکم اورخوشحال ملک تھا۔ اس کی تجوریاں بھری ہوئیں تھیں؛ چنانچہ کورونا کے خلاف اس کا ردعمل بھی قابل رشک اور پراعتماد تھا۔ اس نے اپنے دنیا کے بہترین نظام صحت اور نظام زرکو جنگی بنیادوں پرمتحرک کر دیا۔ اپنی معاشی خوشحالی کی وجہ سے اس نے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ لاک ڈائون اور ''جسمانی فاصلہ‘‘ رکھنے کی پالیسی کے نتیجے میں لوگوں کے لیے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کے حل کے لیے مرکزی حکومت نے ایک سو دس بلین ڈالر کا پیکیج پیش کردیا۔ مرکز کے علاوہ صوبوں اور مقامی حکومتوں نے اپنے اپنے پیکیج دیے۔ لوگوں کو روزمرہ کی ضروریات، کرائے، مارگیج اور بلوں کی ادائیگی کے فکر سے آزادی کے لیے مقامی، مرکزی حکومتوں اور بینکوں نے تسلی بخش اعلانات کردیے۔ اتنے بڑے وسائل اورقابل اعتماد نظام کے ساتھ تقریباً چھ ہفتوں کی اس جنگ کے بعد کینیڈا کے سب سے بڑے اورگنجان آباد صوبے انٹاریو نے کورونا کے حوالے سے ایک خاکہ پیش کیا۔ اس صوبے کی صحت عامہ کے سربراہ ڈاکٹر پیٹر ڈونلے نے بتایا کہ ہم نے جو اقدامات کیے وہ اگرنہ کرتے تو کتنے لوگ مرسکتے تھے اور ہم نے یہ اقدامات کرکے کتننے لوگوں کی جان بچائی ہے؛ چنانچہ کورونا کے خلاف ہم یہ جنگ جیت رہے ہیں۔ لیکن اس جیت کے لیے مزید سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران اس صوبے میں اندازاً تین ہزارسے پندرہ ہزارتک لوگ مرسکتے ہیں۔ اوراپریل کے آخر تک یہاں اموات کی تعداد سولہ سوتک ہو جائے گی۔ لوگوں کو ڈر اورخوف سے نکالنے کے لیے ڈاکٹر ڈونلے نے کہا کہ ایک عام سال میں اس صوبے میں عام نزلے زکام کی وجہ سے ایک ہزار تین سو پچاس کے قریب لوگ مرجاتے ہیں۔ ایک بہت ہی برے سال میں یہ تعداد پندرہ سوتک پانچ سکتی ہے لہٰذا ڈرنے کی ضرورت نہیں‘ مگراس آفت کو نزلے اور زکام سے کہیں زیادہ سنجیدگی سے لینا ضروری ہے۔ اگرہم سکول اورپارک نہ بند کرتے۔ شہریوں کی نقل وحرکت اور اجتماعات پر پابندی نہ لگاتے، کاروباربند نہ کرتے اور لوگوں سے گھروں کے اندر رہنے کا مطالبہ نہ کرتے، تواس صوبے میں اگلے اٹھارہ سے چوبیس مہینوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد لوگ مر سکتے تھے۔ اس لیے یہ صوبہ کورونا کی گولی کو ''ڈاج‘‘ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔یہ اچھی خبرہے۔ دوسری طرف یہ اعدادوشمار دیکھ کر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کورونا اتنا تباہ کن نہیں ہے، جتنااس کا خوف پھیل گیا ہے۔ اگراموات کی شرح ہرسال نزلہ زکام سے مرنے والوں سے زیادہ نہیں تو پھراس قدرہنگامہ کیوں؟ اس کا جواب کچھ لوگ یوں دیتے ہیں کہ کورونا جس غیرامتیازی اندازمیں حملہ آور ہوا ہے، اس سے یہ کسی ایک طبقے، مذہب، رنگ، نسل یاعلاقے کے لوگوں کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ پوری انسانیت کا مشترکہ مسئلہ بن گیا۔ دوسرا یہ کہ اس نے دنیا کی معیشت کا پہیہ جام کردیا۔ بات اگر صرف موت یا موت کے خوف کی ہوتی تودنیا میں روزانہ صرف بھوک کی وجہ سے کتنے لوگ مرتے ہیں؟ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے مستند اعدادوشمار کے مطابق ہماری اس دنیا میں سات سو پچانوے ملین لوگوں کو صحت مند زندگی گزانے کے لیے مناسب خوراک میسر نہیں ہے۔ کورونا سے آج تک، یعنی یہ سطور لکھنے تک، کل ملا کرپوری دنیا میں ستتر ہزار کے قریب لوگ مرے ہیں۔ مگر ہماری اس دنیا میں ہرروزتقریباً پچیس ہزارلوگ بھوک سے مرجاتے ہیں۔ اگرآپ اس کی جمع تفریق کریں تو اندازاً ہرسال نواعشاریہ ایک ملین لوگ بھوک سے مرتے ہیں۔ مگراس تباہ کن اور خوفناک مسئلے پردنیا میں شاید اس لیے ہنگامہ برپا نہیں ہوتا کہ بھوک سے مرنے والے زیادہ ترلوگ دنیا کے غریب ممالک کے ہوتے ہیں، جہاں کل آبادی کا اندازاً پندرہ فیصد بھوک اورخوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ اگراس مسئلے کو ہم براعظموں میں تقسیم کرکے دیکھیں تو بھوک سے مرنے والے لوگوں کی کل آبادی کا تیسراحصہ براعظم ایشیا میں آباد ہے۔ اوربراعظم ایشیا میں بھی ان لوگوں کی اکثریت پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اورچین میں آباد ہے۔ بھوکوں کی کل تعداد کے اعتبار سے ایشیا یا جنوبی ایشیا پہلے آتا ہے؛ تاہم اگر آبادی کے تناسب سے دیکھاجائے تو افریقہ میں ہرچار میں سے ایک شخص بھوک کا شکار ہے۔ یونیسف کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے ایک سو پینسٹھ ملین بچے کم خوراکی کا شکارہیں‘ جس کی وجہ سے ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ گویا ہرچار میں سے ایک بچہ بھوک کا شکارہے۔ بھوک کے شکاران بچوں میں سے اسی فیصد صرف چودہ ممالک میں آباد ہیں، جن میں ایشیا اور افریقہ کے ممالک سرفہرست ہیں۔ ان میں سے تین چوتھائی دیہات میں آباد ہیں، جہاں کی معیشت زراعت کے گرد گھومتی ہے۔ کم خوراکی کی وجہ سے ہر سال دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے تین ملین سے زائد بچے مرجاتے ہیں، یعنی روزانہ آٹھ ہزارپانچ سو بچے خاموشی سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ اموات چونکہ نیویارک، پیرس اورلندن جیسے فیشن ایبل اورحساس شہروں کے بجائے تیسری دنیا کے دوردرازاور گمنام دیہاتوں میں ہوتی ہیں، اس لیے ان اموات پر کوئی ہنگامہ اور شورشرابہ نہیں ہوتا۔ جہاں تک بیماریوں سے اموات کا تعلق ہے تو ہم روزانہ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ دوہزار سولہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس سال دنیا میں چھپن اعشاریہ نوملین لوگ مختلف قسم کی بیماریوں کی وجہ سے فوت ہوئے۔ ان بیماریوں میں ہارٹ اٹیک، سٹروک سے لے کر ٹی بی تک دس عام اورخطرناک بیماریاں شامل ہیں۔ چنانچہ یہ واضح ہے کہ کورونا کی نسبت، بھوک اوربیماریوں سے ہزاروں گنا زیادہ لوگ مرتے ہیں۔ مگر وہ ایک ایک کرکے خاموشی سے موت کے منہ میں جاتے ہیں۔ ان اموات کے باوجود دنیا کا معمول کاکاروبار چلتا رہتا ہے۔ کوئی سٹاک مارکیٹ کریش نہیں ہوتی۔ کوئی کارخانہ نہیں بندہوتا۔ کورونا کا خوف صرف موت سے نہیں جڑا‘ کورونا کا شکار ہوکر اٹھانوے فیصدلوگ موت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ صرف وہ لوگ موت کا شکار ہوئے، جو پہلے سے دل یا پھیپھڑوں یا کنیسراور دیگرسنگین بیماریوں کا شکار تھے؛ چنانچہ یہ صرف زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں ہے۔ کورونا کے خوف کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے انسانی زندگی کو تہ وبالا کرکے رکھ دیا۔ سڑکیں سنسان ہیں۔ بازار ویران ہیں۔ کلب بند ہیں۔ دکانوں پرتالے ہیں۔ سٹاک مارکیٹس تباہ ہیں۔ لوگوں کے بینک اکائونٹ خالی ہیں۔ حکومتوں کے خزانے خالی ہو رہے ہیں۔ کینیڈا جیسے ملک‘ جنہوں نے دس پندرہ سال کی سخت جدوجہد اور بچت کے بعد خسارے کے بجٹ سے نکل کراپنے خزانے بھرے تھے، بھی آنے والے کئی برسوں تک خسارے کے بجٹ لائیں گے اوران کو واپس استحکام اور خوشحالی کی اس سطح پرآنے میں شاید کئی برس لگ جائیں۔ تباہ کن واقعات میں کسی پوشیدہ حکمت کے خیال پریقین نہ رکھنے کے باوجود جانے کیوں مجھے یقین ہے کہ بنی نوع انسان کورونا کی تباہی سے کچھ سبق سیکھے گا اورشاید مستقبل میں اہل حکم صحت کا بجٹ بناتے وقت تھوڑی زیادہ دانشمندی کا مظاہرہ کرنے پرمجبورہوں اورعوام میں یہ شعور آئے کہ صحت کا بجٹ ان کیلئے زندگی اورموت کا مسئلہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں