آج ہم کسی معجزے کے منتظرہیں۔ پوری دنیا کسی خوشخبری کے انتظارمیں سانس روکے بیٹھی ہے ۔ دنیا کوخوش خبری یہ چاہیے کہ کورونا کی روک تھام کے لیے ویکسین یاعلاج کے لیے دواتیارکرلی گئی ہے۔ ویکسین کے معجزے کے لیے دنیا کی نظریں صرف معدودے چند ملکوں پرجمی ہیں۔ یہ مغرب کے کچھ ترقی یافتہ ملک ہیں۔ ان ملکوں میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، کینیڈا، سکینڈے نیویا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت بیس سے زائد ممالک شامل ہیں۔ مشرق میں بھی کچھ ایسے ملک موجود ہیں، جن سے امید باندھی جا رہی ہے۔ ان میں اسرائیل، جاپان، چین اور جنوبی کوریا جیسے چندایک ملک شامل ہیں۔ کورونا کی آفت سے چھٹکارے کیلئے مغرب یا مشرق کے ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ قدرتی بات یہ ہے کہ اس آفت سے بچنے کیلئے ان ممالک کی طرف دیکھا جا رہا ہے، جو سائنس اورٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ہیں۔ جن کے پاس دنیا کی بہترین یونیورسٹیز، ریسرچ سنٹرزاور تجربہ گاہیں ہیں۔ جن کے پاس میڈیکل سائنس کاعلم ہے، اور اس علم کو بروئے کار لانے کاوسیع تجربہ ہے۔ جن کے پاس وسائل اورسہولیات ہیں، جن کوہنگامی طورپروسیع بنیادوں پرسائنسی تجربات، دریافتوں اورایجادات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دنیا میں قریب قریب ایک اعشاریہ آٹھ ارب کے قریب مسلمان ہیں، جو دنیا کی کل آبادی کے چوبیس اعشاریہ ایک فیصد کے قریب ہے۔ دنیا میں پچاس سے زیادہ مسلم ممالک ہیں، جن میں سے کچھ کے پاس دولت کے انبارہیں۔ بے تحاشا وسائل ہیں۔ مگرستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت کوئی بھی کورونا کی ویکسین یا دوا بنانے کی توقع کسی مسلم ملک سے نہیں رکھتا۔ اورکوئی یہ توقع رکھے بھی کیوں؟ ان سب ملکوں میں سے کسی ایک کے پاس بھی کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں، جو دنیا کی پہلی سو اچھی یونیورسٹیزکی فہرست میں شامل ہو۔ کوئی مشہور تجربہ گاہ نہیں، جس نے ماضی میں کوئی قابل ذکر تجربہ کیا ہو‘ یا جس کے پورٹ فولیو میں کوئی قابل ذکر ایجاد یا دریافت موجود ہو۔
یہ ایک مایوس کن صورتحال ہے مگریاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ صورتحال خود بخود پیدا نہیں ہوئی، بلکہ یہ سائنس کے بارے میں صدیوں سے چلے آئے ہمارے رویوں اور طرزفکر کی پیداوار ہے۔ یہ ایک طویل اورالمناک کہانی ہے، جو اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب ہم نے قصداً سائنس اورعقل سے اپنے راستے جدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے سائنس، علم اور عقل کا گلا گھونٹنے اور تاریک راستوں پر چلنے کا شعوری انتخاب کیا۔ اور سماج کو ذہنی اور فکری پسماندگی کی دلدل میں ڈال دیا۔ ان تاریک راستوں اورفرسودگی کی طرف چلنے سے پہلے ہمارا بھی سائنس اورعقل سے اتنا ہی گہرا رشتہ تھا، جتنا مغرب کا تھا‘ بلکہ سائنس کے بعض شعبوں میں ان چیزوں سے ہمارا رشتہ مغرب سے بھی مضبوط تھا۔ اس وقت اگر کوئی وبا یا کورونا قسم کی آفت آتی تھی، تو دنیا ہم سے دعا کے علاوہ کسی دوا یا علاج کی توقع بھی رکھتی تھی۔ دنیا کو مختلف ادوار میں کورونا سے بھی کہیں زیادہ خوفناک اور تباہ کن وبائوں اور بیماریوں کا سامنا رہا ہے۔ ان میں ایک قدیم ترین وبا چیچک بھی ہے۔ انسانی تاریخ میں کس تعداد میں لوگ جان لیوا مرض کا شکار ہوئے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف بیسویں صدی کے دوران دنیا بھر میں اس بیماری سے تین سو ملین لوگ مرے تھے۔
چیچک کی ویکسین کا سہرا تو ایک انگریزسائنس دان کے سر ہے، مگر اس خوفناک بیماری کے بارے میں بنیادی اوراہم ترین کام کا سہرا ابوبکر بن زکریا الرازی کے سرسجتا ہے۔ مغرب میں اس موذی وبا کے بارے میں جاننے کا ایک مستند ذریعہ رازی کی تحریریں رہی ہیں۔ انسانی تاریخ کی دو بڑی وبائوں چیچک اور خسرہ کے باب میں رازی کو استاد مانا جاتا ہے۔ ان دو قدیم اور تباہ کن بیماریوں کی تشخیص اور روک تھام پر رازی کی کتاب دنیا کی پہلی اور بنیادی دستاویز کے طور پر سامنے آئی۔ اس کتاب سے مغرب نے استفادہ کیا۔ یہ کتاب لاطینی سمیت کئی جدید مغربی زبانوں میں ترجمہ ہوئی۔ رازی کی ایک کتاب ''کتاب الحاوی فی الطب‘‘ علم طب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ تیرہویں صدی میں اس کتاب کا لاطینی اور دوسری مغربی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ مغرب میں اگلی تین صدیوں تک یہ کتاب بار بار چھپی اور بیشترمیڈیکل سکولوں کے نصاب کا حصہ رہی۔ رازی کو اپنے وقت کا سب سے بڑا طبیب اور طبیبوں کا استاد مانا گیا۔ چیچک جب یورپ پہنچی تو مغربی سائنس دانوں کو اس کا کوئی علم یا تجربہ نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے اس بیماری کے بارے میں معلومات کے لیے رازی کے کام پرانحصار کیا۔ اس کام کی بنیاد پر رازی یورپی سائنسدانوں اورڈاکٹروں کا استاد بن گیا۔ مغرب میں عزت افزائی کے باوجود اپنی جنم بھومی میں رازی کی زندگی کے آخری ایام کسمپرسی کی حالت میں گزرے۔ آخری عمرمیں اس کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ ابن جل جل نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ایک بحث کے دوران رازی گورنر منصور ابن اسحاق کے سامنے اپنی کیمیائی تھیوری ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ غصے میں گورنر نے رازی کے سرپرچوٹ لگائی، جس سے ان کی بینائی چلی گئی۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ایک گورنر ایک سائنس دان کے ساتھ سائنسی تھیوری پربحث کرتا ہے، جس کی تفہیم کے لیے اس کے پاس وہ بنیادی علم ہی نہیں ہے، جو ایک سائنسی تھیوری سمجھنے کے لیے لازم ہے۔ یہ رویہ حکمران طبقات کے اس طرزعمل کا اظہار ہے، جو وہ دانشوروں، سائنس دانوں اور اہل علم کے ساتھ رکھتے تھے۔ حکمرانوں کے اس رویے نے بالآخر اسلامی دنیا کو علمی پستی کی گہرائیوں میں دھکیل دیا۔
حکمران طبقات نے جب تک یہ رویے نہیں اپنائے تھے، سماج برق رفتاری سے ترقی کی راہ پرگامزن تھا۔ سنہری دورکا بغداد ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ایک وقت میں ان چراغوں میں بھی تیل تھا۔ بغداد میں دنیا کی بہترین درس گاہیں اور تجربہ گاہیں تھیں، جہاں دن رات کام ہوتا تھا۔ دنیا علم طب و کیمیا یا کسی وبا کی جانکاری کے لیے صرف مغرب کی طرف ہی نہیں، مشرق کی طرف بھی دیکھتی تھی۔ اس وقت ہماری طرف بھی ایسے طبیب، کیمیا دان اور فلسفی تھے، جن سے مغرب سیکھتا تھا۔ مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی تک ہم نے اپنے تنگ نظر نظریات اور خیالات کو سائنسی ترقی کے راستے کی دیوار بنا کر نہیں کھڑا کیا تھا۔ قرون وسطیٰ کے دور میں مسلمان سائنسدانوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ البیرونی، بوعلی سینا، الفارابی، ابن رشد اور الکندی سمیت کئی قابل ذکرلوگ تھے۔ علم کیمیا، الجبرا، ریاضی اور فلکیات کے حوالے سے مشرق کا ابتدائی کام اتنا اہم تھا کہ مغرب نے بھی اس سے استفادہ کیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر لگتا ہے کہ قرون وسطیٰ میں اسلامی دنیا میں جتنی سائنس تھی اتنی آج نہیں ہے۔ اس باب میں یہ ترقیٔ معکوس یا تنزلی کی اہم مثال ہے۔ اس زوال اور پستی کی واحد وجہ یہ نہیں کہ سنہری دور کے بعد ہم نے ادارے بنانے بند کر دیے یا ہم نے یونیورسٹیاں اور تجربہ گاہیں نہیں بنائیں۔ ہم نے یہ سب کچھ جاری رکھا، اور ان پراپنی بساط کے مطابق کافی پیسہ خرچ کیا‘ مگران اداروں کو اپنی مرضی اورآزادی سے کام کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ان کی حدودوقیود مقررکرنے کے چکر میں ان کے ہاتھ پائوں کس کر باندھ دیے، ان کے دماغوں پر ''کھوپے‘‘ چڑھا دیے، اور ان کی روح نکال لی۔ سوچ فکراورجستجو کے بغیر کوئی سماج ترقی نہیں کر سکتا۔ ہم نے سوچوں پر کڑے پہرے بٹھا دیے۔ فکر، جستجو اور اظہار کی آزادیاں سلب کر لیں۔ ہماری تقریباً تمام بڑی درسگاہوں میں سوال اٹھانا ممنوع قرار پایا۔ تحقیق و جستجو جرم ٹھہرا۔ رسم دنیا سمجھ کر ہم نے اپنے تعلیمی اداروں میں سائنس کا مضمون تو رکھا، بچوں کو سائنس پڑھنے کی تاکید بھی کی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا کہ سائنس پڑھو ضرور، مگراس پر یقین مت کرو۔ اس طرح ہمارے تعلیمی اداروں سے سائنس دان اور فلسفی کے بجائے ایسے کنفیوزڈ دماغ پیدا ہوئے، جو فکری تضادات کا شکار تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سائنس کے میدان میں ہم مکمل طور پر اپاہج ہو گئے؛ چنانچہ اس باب میں ہم نے مغرب پرانحصار کیا۔ ان کی سائنسی اور مادی ایجادات سے استفادہ کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ سائنس اورفلسفے سمیت دیگرمغربی علوم کے خلاف ناپسندیدگی اوربسا اوقات نفرت کے جذبات کو فروغ بھی دیتے رہے۔ آج ہم سائنس کے میدان میں جس پسماندگی کا شکار ہیں، یہ اس طرزعمل کا نتیجہ ہے۔ کورونا نے ہمارے اس طرز عمل کو بے نقاب کر دیا۔