"FBC" (space) message & send to 7575

سیٹی بجانے کی ذمہ داری کس کی تھی ؟

کوروناوائرس نے دنیا میں بہت تباہی اورخوف پھیلایا ہے ۔ بہت زیادہ جانی و مالی نقصان کیا ہے ۔ جانی نقصان پرماتم کرنے اورمالی نقصان پرکف افسوس ملنے کے بعداب وقت آگیا ہے‘ یہ دیکھا جائے کہ دنیا اس بحران سے کیا سبق سیکھ سکتی ہے ؟
کورونابحران میں دنیا کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ ایک سبق یہ ہے کہ ہم لوگ اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے جن عالمی یا مقامی اداروں پرانحصار کرتے ہیں، اگر وہ ادارے اپنے فرائض منصبی کما حقہ بجا لانے میں کوتاہی کریں تو اس کے خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں۔
کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں ایک بنیادی اورمرکزی کرداراقوام متحدہ کی تنظیم برائے صحت عامہ کا بنتا تھا‘ لیکن اس تنظیم کی کارکردگی کے پیش نظر آج دنیا میں کئی سیاست دان، سائنسدان اوردانشورکورونا کے ہاتھوں ہونے والی تباہی کی وجہ اس تنظیم کی ناکامی کو قراردیتے ہیں۔
الزام تراشی انسانی فطرت ثانیہ بن چکی ہے ۔ انسانی سماج میں ہرحادثے ، مصیبت ، آفت یا وبا کی ذمہ داری کسی دوسرے کے سر تھوپنے کا عام رواج ہے ۔ ہرایسے موقع پر کوئی نہ کوئی قربانی کا بکرا تلاش کر لیا جاتا ہے ۔ اس طرح انسان اپنی انا بچاتا ہے ۔ اپنا بھرم قائم رکھتا ہے ۔ دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنے آپ کوبری الذمہ قرار دے دیتا ہے‘ لیکن کورونا کے معاملے میں یہ محض الزام تراشی نہیں ہے، بلکہ کچھ لوگ غیرجانب داری اور دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تنظیم اگربروقت اس عالمی وبا کے خطرے کا پوراادراک کرلیتی، اوردنیا کو بروقت اس کی شدت سے آگاہ کردیتی تو شاید دنیا اتنی بڑی تباہی سے بچ سکتی تھی۔ ایسا کرنا کوئی اضافی بات نہیں، بلکہ اس تنظیم کی آئینی اوراخلاقی ذمہ داری تھی۔
اگراس تنظیم کے اغراض ومقاصد اوروجود کی جوازیت دیکھی جائے تواس تنظیم کے قیام کی واحد اوربنیادی وجہ ہی عالمی صحت عامہ کی حفاظت اور دنیا کو ایسے خطرات سے بچانا ہے۔ اس کے مینڈیٹ میں یونیورسل ہیلتھ کیئر کی وکالت، عالمی سطح پرصحت عامہ کودرپیش خطرات کو مانیٹر کرنا، انسانی صحت کو فروغ دینا اورملکوں کو وبائی امراض کی تشخیص اورروک تھام کے لیے تکنیکی امداد فراہم کرنا شامل ہے ۔ اس کی ذمہ داریوں میں عالمی سطح پرصحت کے معیارکا تعین کرنااوراس باب میں ملکوں کو رہنمائی فراہم کرنا بھی شامل ہیں۔اس تنظیم کے قیام کا ایک طویل پس منظر ہے ۔ وبائوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دنیا میں آج تک جتنی بھی قابل ذکروبائیں پھیلی ہیں، ان میں سے کوئی بھی کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہی‘ بلکہ یہ وبائیں جلد یا بدیرقومی حدود پارکرکے عالمی وبا کی شکل اختیار کرتی رہی ہیں؛ چنانچہ اس طویل تاریخی تجربے کے بعد ممالک اور قومیں انیسویں صدی کے شروع میں ہی اس نتیجے پر پہنچ چکی تھیں کہ وبائی امراض کا مقابلہ دنیا مل جل کر ہی کر سکتی ہے ، اور اس کے لیے عالمی سطح پراجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے ۔
دنیا میں اس حقیقت کے ادراک اورشعورکے ساتھ ہی اس محاذ پرتعاون کے لیے مختلف بین الاقوامی اجلاسوں اورکانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایسی چھوٹی موٹی سینکڑوں کوششوں کے بعد پہلی عالمی سطح کی کامیاب کانفرنس اٹھارہ سو اکاون کے موسم بہار میں ہوئی تھی۔ اسے عالمی سینیٹری کانفرنس کا نام دیا گیا۔ اس سے عالمی کانفرنسوں کا ایک سلسلہ چل پڑا، اوراگلے سوبرسوں میں اس طرح کی پندرہ سے زائد کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔ اٹھارہ سوبانوے میں ہیضے کی وبا کے خلاف ایک کامیاب عالمی کنونشن ہوا، جس میں عالمی سطح پراس وبا کے خلاف مشترکہ لڑائی پر اتفاق ہوا۔ اسی طرح کادوسرا بڑاعالمی کامیاب کنونشن طاعون پر ہوا تھا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں آگے چل کر انیس سوسات میں ایک عالمی فورم قائم ہوا، جسے ''عالمی دفتربرائے صحت عامہ‘‘کا نام دیا گیا۔ بعد ازاں جب لیگ آف نیشنز قائم ہوئی تو اس کے زیر اہتمام صحت عامہ کی باقاعدہ تنظیم قائم کی گئی۔ لیگ آف نیشنز کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کے زیراہتمام عالمی تنظیم برائے صحت کا قیام عمل میں آیا۔ اقوام متحدہ میں اس تنظیم کے قیام کے پس منظرمیں بنیادی کردارچین نے ادا کیا تھا۔ انیس سو پینتالیس میں چین کے وفد نے ناروے اوربرازیل کے وفود کے ساتھ مل کراقوام متحدہ میں ایسی عالمی تنظیم کے قیام کی کوشش شروع کی۔ بالآخرجولائی انیس سو چھیالیس میں اقوام متحدہ میں اکاون ملکوں نے دنیا کی اس تنظیم کے آئین کو منظور کر لیا۔ اگلے دوبرسوں میں یہ دنیا کا ایک متفقہ ادارہ برائے صحت بن گیا۔اپنے قیام کے بعد اس تنظیم نے وبائی امراض کے خلاف کامیاب لڑائی کاآغاز کیا۔ اس کی ابتدا انیس سو پچاس میں تپ دق کے خلاف ویکسین کی مہم سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد ملیریا، چیچک، پولیوسے لے کر ایڈز اور دیگر کئی وبائی اورخطرناک امراض کے خلاف کام شروع ہوا۔
اس پس منظراورطویل تجربے کے باوجودجب اس تنظیم کو گزشتہ سال چین کے شہرووہان میں کوروناوائرس کا سامنا ہوا تو یہ تنظیم وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی، جس کی اس سے توقع تھی؛ چنانچہ اس تنظیم کو اپنے کچھ ممبرممالک کی ناراضگی اوربعض حالات میں غم وغصے کاسامنا کرنا پڑا۔
ان ناراض ممالک میں امریکہ سرفہرست ہے ۔ امریکہ روایتی طورپر اس تنظیم کے اخراجات برداشت کرنے والے ممالک میں اول نمبرپر رہا ہے۔ امریکہ اس تنظیم کو سالانہ چارسوملین ڈالر دیتا رہا۔ دوہزارسترہ میں جب صدرٹرمپ برسراقتدار آئے ، توانہوں نے فوری طور پراس تنظیم کو دیے جانے والے فنڈزمیں چالیس فیصد کمی کا اعلان کیا۔ اس وقت دنیا کو کسی وبا کا سامنا تو نہ تھا، مگر شاید ٹرمپ اور ان کے رفقا کو یہ تنظیم اس لیے نا پسند تھی کہ یہ ملکوں کو یونیورسل ہیلتھ کیئر کا مشورہ دیتی تھی۔ موجودہ کورونا بحران کے نتیجے میں صدرٹرمپ نے اس تنظیم کو ناکام قرار دیتے ہوئے فنڈنگ روکنے کا اعلان کر دیا، اور کہا کہ کورونا کے باب میں اس کی کارکردگی یا ناکامی کی تحقیق مکمل ہونے تک یہ فنڈ منجمد رہیں گے ۔ 
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ یہ تنظیم اس طرح کی تنقید کا نشانہ بنی ہے۔ دو ہزارچودہ میں مغربی افریقہ میں ایبولا کی وبا کے دوران اس تنظیم پرنااہلی اورناقص کارکردگی کے سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے۔ کورونا اورایبولا وبائوں کے خلاف بروقت اقدامات کرنے اوردنیا کو خبردار کرنے میں ناکامی کے علاوہ اس تنظیم پر کچھ دوسرے سنگین الزامات بھی لگتے رہے ہیں، جن کا پس منظر سیاسی ہے ۔ کینسر کی تحقیق اوررپورٹوں کے حوالے سے بھی اس تنظیم پرکئی سائنسدانوں نے جانبداری اورسیاسی عزائم رکھنے کا الزام لگایا ہے ۔
تائیوان کے حوالے سے بھی اس تنظیم کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب اس نے چین کے دبائو میں آکر تائیوان کو اپنے اجلاسوں میں شرکت سے روک دیا۔ اس سے بڑا ایک تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا تھا جب اس تنظیم نے رابرٹ موگابے کو اپنا ''گڈول ایمبیسیڈر‘‘ مقررکیا تھا۔ موگابے کے دورمیں زمبابوے میں صحت عامہ کی حالت انتہائی مخدوش اورناگفتہ بہ رہی ہے ‘ مگر اس سے بڑھ کر ستم ظریفی کی بات یہ تھی کہ موگابے پراپنے دوراقتدار میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات تھے ، جن کی سچائی سے انکارممکن نہیں تھا۔ تنظیم کے اس ناقابل وضاحت فیصلے کے خلاف دنیا بھرمیں اتنا شدید ردعمل اور تنقید ہوئی کہ اسے اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
تنظیم کی موجودہ بحران میں کارکردگی پرجوسنگین سوالات اٹھائے گئے‘ اس میں چین کے حوالے سے جنوری کا ایک ٹویٹ تھا، جس میں یہ کہا گیا کہ یہ وائرس انسانی رابطے سے نہیں پھیلتا۔ اسی وجہ سے دنیا نے اس وبا کے تدارک کیلئے فوری طور پروہ اقدامات نہیں کیے ، جن کی اشد ضرورت تھی۔ اس وائرس کی خطرناکی اورعالمی وبا کی شکل اختیار کرنے کے اندیشوں کو بھی دنیا پرواضح نہیں کیا گیا۔ اگرچہ یہ ہرایک ملک کی انفرادی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے طور پراپنے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کیلئے اس وقت ہی سخت اقدامات کرتا، جب اس وائرس نے ووہان میں تباہی کا آغاز کیا تھا۔ کسی بھی ملک کی حکومت اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ نہیں قرار دے سکتی‘ مگراس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس باب میں بنیادی ذمہ داری صحت عامہ کی اس عالمی تنظیم کے سرہی ہے ، جس کوعالمی برادری نے متفقہ طور پراس مقصد کیلئے تشکیل دیا ہوا ہے ۔ یہ تنظیم اپنے مینڈیٹ کے مطابق اپنی بنیادی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے اوربروقت سیٹی بجانے میں ناکام رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں