کورونا نے ہم سب پرحملہ کیا ہے۔ یہ خطرناک حملہ بلا امتیازرنگ، نسل، مذہب اورطبقات ہے‘ اوراس حملے کے خلاف لڑائی میں ہم سب اکٹھے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار کچھ دنوں پہلے میں نے انہی سطورمیں کیا تھا۔ ردعمل کے طورپر نیویارک سے ایک قاری نے میرے اس خیال پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان کا خیال ہے کہ میں نے نیویارک اوراس کے گرد و نواح میں پیش آنے والے المناک واقعات سے صرف نظرکیا ہے۔
انہوں نے اپنی ای میل میں لکھا کہ سویڈن میں کورونا سے مرنے والے سفید فام اورسیاہ فام افراد کا تناسب ایک اورتیس ہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو وہاں کورونا نے کیا کیا؟ اس کی تفصیل کے لیے انہوں نے مجھے ایک مضمون ارسال کیا ہے۔ اندریاس کلوتھ کا یہ مضمون بلوم برگ نیویارک میں چھپا ہے۔
اندریاس نے لکھا ہے کہ کورونا کے بارے میں سب سے گمراہ کن کلیشے یہ ہے کہ اس نے ہم سب سے برابری کا سلوک کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا نے الگ الگ معاشی اورسماجی طبقات کو الگ الگ طریقے سے متاثرکیا ہے اوراس کے طبی اورنفسیاتی اثرات بھی الگ الگ ہیں۔
کورونا نے کئی جگہوں پر پہلے سے موجود سماجی اورمعاشی ناہمواریوں کوبہت زیادہ گہرا کر دیا ہے۔ سماجی اورمعاشی تضادات کو اجاگر کیا ہے۔ جس طریقے سے اس وائرس نے انسانی سماج کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اس سے لگتا ہے وہ وقت دورنہیں جب کئی سماجوں کو بغاوتوں اورانقلابات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کورونا کے بحران سے پہلے ہی دنیا میں سماجی بے چینی کا آغازہو چکا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق سن دوہزارسترہ سے لے کر اب تک دنیا میں مختلف حکومتوں کے خلاف ایک سو سے زائد بلوے یا مظاہرے ہو چکے ہیں۔
ان واقعات میں فرانس جیسے امیرملک سے لے کر سوڈان اور بولیویاجیسے غریب ممالک تک میں ہونے والے مظاہرے شامل ہیں۔ ان مظاہروں کی وجہ سے بیس سے زائد جگہوں پر حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور کئی ایک مظاہروں کو وحشیانہ طاقت کے استعمال سے دبا دیا گیا‘ جبکہ کچھ اگلے احتجاج کے لیے مناسب وقت کے انتظار میں ہیں۔
کورونا کا ایک فوری اثریہ تھا کہ اس کی وجہ سے دنیا میں احتجاج اورمظاہرے وقتی طور پربند ہو گئے۔ چونکہ دنیا کی جمہوری اورمطلق العنان‘ دونوں قسم کی حکومتوں نے شہریوں کولاک ڈائون کر دیا ہے؛ چنانچہ اس عمل نے لوگوں کو جمع ہونے اوراحتجاج کرنے سے روک دیا ہے‘ لیکن قرنطینہ میں بیٹھے ہوئے گھرانے یا فوڈ بینک کی بڑھتی ہوئی قطاروں میں کھڑے لوگ، جیلوں، پناہ گزین مراکز اورجھونپڑپٹیوں میں رہنے والے لوگ کورونا سے پہلے ہی بھوکے ننگے تھے، مگر اب ان جگہوں پرالمیے اور صدمے بڑھ رہے ہیں‘ اندر ہی اندر ایک لاوا بھی پک رہا اورایک دن یہ لاوا کسی نہ کسی طریقے سے پھٹ پڑے گا۔ کورونا نے سماج میں موجود تضادات پرپڑے ہوئے دبیزپردے اٹھا دیے ہیں۔ یہ پردے اٹھنے سے پہلے بھی بہت سارے امیراورغریب ممالک کے اندر یکساں طور بے چینی کی ایک لہرموجود تھی‘ مگراب اس لہر میں تیزی آئے گی۔
کورونا نے دوسرا کام یہ کیا کہ اس نے دنیا میں موجود عدم مساوات کو بہت زیادہ واضح کردیا ہے ۔ یہ عدم مساوات ایک طرف امیر وغریب ملکوں کے درمیان، اوردوسری طرف ان ممالک کے اندرموجود امیر وغریب طبقات کے درمیان بھی کھل کر سامنے آئی ہے۔ امریکہ کے اندرامیرترین افراد نے اپنی کھربوں ڈالر کے محلات اور بیش قیمت کشتیوں میں خود ساختہ پر تعش سماجی دوری اختیارکی ہے۔ اس سے جو کم خوشحال تھے، انہوں نے بھی گھروں میں بیٹھ کر سماجی دوری پرعمل کیا ہے لیکن دوسری طرف ایسے امریکیوں کی بھی کمی نہیں ہے ، جن کو سماجی دوری کی اس طرح سہولیات میسرنہیں ہیں۔
ان میں سے کئی لوگ اپنے روزمرہ کے کام جاری رکھنے پرمجبور ہیں، اوروہ گھر بیٹھ کر کام کرنے یا سماجی دوری اختیار کرنے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ان لوگوں کو مجبوراً اپنے روزمرہ کے کاموں پر جانا پڑتا ہے۔ ان کاموں سے واپسی پر یہ لوگ اپنے ساتھ کورونا وائرس لاتے رہے اور اس کو اپنے گھروں میں موجود اپنے گھرانے کے افراد میں پھیلاتے رہے ۔ اس طرح کورونا وائرس غریب بستیوں میں بہت تیزی سے پھیلا، اور اس نے سیاہ فام بستیوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا، جس کی وجہ سے آبادی کے تناسب سے سیاہ فام لوگ زیادہ تعداد میں مارے گئے ۔جن ملکوں میں نسل پرستی کی کوئی تاریخ یا رواج نہیں بھی ہے، وہاں بھی کورونا نے غریب اورکم خوش قسمت بستیوں پرزیادہ حملہ کیا ہے۔ کورونا کے اس انتخاب میں جن چیزوں نے اہم کردارادا کیا ہے ، اس میں ایک خاندان کی آمدن، ان کو رہنے کے لیے میسرجگہ کا سائز، اس علاقے میں تعلیم کی شرح، ہمسائے میں آبادی کی شرح، اور اس آبادی کی صفائی اورغذائیت کی عادات شامل ہیں۔ امیراورغریب قوموں کے درمیان یہ فرق اورزیادہ نمایاں ہے ۔
غریب ممالک کی کچھ بستیوں میں‘ جہاں غریب لوگوں کے ایک کنبے کے کئی افراد ایک کمرے میں مکان میں رہتے ہیں‘ سماجی فاصلے رکھنے کا تصور ممکن نہیں ہے۔ ایسی جگہوں پر ہاتھ دھونے کے مشورے تو دیے جا سکتے ہیں، مگراس کام کے لیے مطلوبہ مقدار میں پانی میسرنہیں ہے۔ ماسک پہننے کی بات تو کی جا سکتی ہے، مگر قابل اعتماد ماسک سب کو دستیاب نہیں ہیں۔
زمانۂ حال کی کہانی تودردناک ہے ہی، مگرفکر کی بات یہ ہے کہ مستقبل میں کیا ہو گا۔ حال ہی میں سامنے آنے والے کئی قابل اعتماد اعداد و شمار کے مطابق کورونا دنیا میں دو سو ملین سے زائد روزگارختم کر دے گا اوراس کی وجہ سے ایک ارب پچیس کروڑ لوگوں کی آمدنی میں نمایاں کمی واقع ہو جائے گی۔ بے روزگاری میں اس قدر اضافے اورآمدنی میں کمی کی وجہ سے لوگوں کے مصائب میں اضافہ ہوگا۔ سماج میں نشے اورشراب کے استعمال اورگھریلو تشدد میں اضافہ ہو گا۔ اس صورت حال سے غصے اور بے چینی میں بھی اضافہ ہو گا۔ اس سے دنیا کو نئے حالات اور بالکل نئی صورت حال سے سابقہ پڑے گا۔
ان حالات میں یہ سوچنا بہت سادگی ہوگی کہ جب یہ میڈیکل ایمرجنسی ختم ہوگی توقومیں اورعوام حسب سابق واپس اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جائیں گے۔ ایسا نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس کورونا بحران کے دوران پیدا ہونے والاغصہ اورکڑواہٹ نئے نئے روپ دھار کر سامنے آئے گی۔
اس صورت حال کا ایک مظاہرہ برازیل میں پہلے ہی ہو چکاہے، جہاں لاکھوں لوگوں نے اپنے کھانے پکانے کے برتن کھڑکیوں سے بجا کر حکومت کے خلاف احتجاج کیا یا پھراس کا ایک مظاہرہ لبنان میں دیکھنے میں آیا، جہاں پر قیدیوں نے گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی جیلوں میں بلوے کیے ۔ یہ جذبات کسی وقت بھی نئی پاپولسٹ یا انقلابی تحریکوں میں ڈھل سکتے ہیں، اورناراض عوام حکمران طبقات کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ دو ہزار بیس کی یہ وبا ہم میں سے ان لوگوں کے لیے ایک الٹی میٹم ہے، جوپاپولزم کو مسترد کرتے ہیں۔
یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم عدم مساوات سمیت دوسرے مسائل کے بارے میں دلیرانہ مگرعملیت پسندی کا رویہ اختیار کریں۔ یہ ''ویک اپ کال‘‘ہے ، ان لوگوں کے لیے جن کو کورونا وائرس سے بچ نکلنے کی امید ہے، اور وہ ایک ایسی دنیا میں زندہ رہنے کی امید رکھتے ہیں، جو رہنے کے قابل ہو۔
زندہ رہنا تو ہرحال میں لازم ہوتا ہے ، اورانسان ہر قسم کے تلخ حالات میں بھی کسی نہ کسی طرح زندہ رہتا ہے ، اپنا وجود برقرار رکھتا ہے مگر زندگی محض جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کا نام نہیں، یہ فطرت کا خوبصورت تحفہ ہے، جس کو خوبصورتی اورسلیقے سے گزارا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے زندگی کی بدصورت حقائق کی نفی اور ان سے فرار کے بجائے ان کو تسلیم کرنا ہوگا، اور ان کا مناسب حل تلاش کرنا ہوگا۔ عدم مساوات ہمارے سماج کی سب سے بڑی نا ہمواری اوربدصورتی ہے۔ یہ ناہمواری کورونا بحران میں کھل کرسامنے آئی ہے ، اور''پوسٹ کورونا‘‘ دور میں اس کے مزید کھل کرسامنے آنے کے واضح امکانات ہیں۔ اب شاید وقت آگیا ہے کہ دنیا اس باب میں نئی پالیسی اورحکمت عملی اپناتے ہوئے ان ناہمواریوں کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کرے ، جو ہماری غلط حکمت عملی اورغلط نظریات کا شاخسانہ ہیں۔