"FBC" (space) message & send to 7575

ہند چین جھگڑا کس بات پر ہے؟

سیاسی و معاشی پنڈتوں کا خیال ہے کہ تیس سال بعد کی دنیا ہماری آج کی دنیا سے یکسر مختلف ہوگی۔ یہ ماہرین ایک کثیر قومی کنسلٹنگ فرم کی اس رپورٹ سے اتفاق کرتے ہیں کہ 2050 میں چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہوگی۔ بھارت دوسرے نمبر پرآجائے گا اور امریکہ تیسرے نمبرپرچلا جائے گا۔ مگر ہنوز دلی دور است۔
ابھی پورے تیس سال باقی ہیں۔ اس طویل عرصے میں دنیا کوئی نئی کروٹ لے سکتی ہے۔ کوئی حادثہ کوئی واقعہ تاریخ کا رخ بدل سکتا ہے۔ سپینش فلو یا کورونا وائرس جیسی کوئی آفت حالات و واقعات کا رخ موڑ سکتی ہے؛ تاہم اگر رجائیت پسندی پر اصرار کیا جائے اور یہ مان لیا جائے کہ نشیب و فراز کے باوجود یہ دونوں معیشتیں دنیا میں پہلے اور دوسرے درجے پرفائز ہو جائیں گی تو یہ غریب لوگوں کیلئے ایک بڑی خوشخبری ہے کیونکہ دنیا کے غریبوں کا ایک بہت بڑا حصہ اس خطے میں آباد ہے۔
امید پر دنیا قائم ہے۔ امید کے سہارے انسان نے ہزاروں برس کی غربت اور بیچارگی سہی۔ بھوک ننگ برداشت کی۔ چند برس اور یونہی سہی۔ خوش امیدی لازم‘ مگر صورتحال یہ ہے کہ چودہ ہزار فٹ کی بلندی پران دو ملکوں کے سپاہی باہم دست وگریبان ہیں۔ دست وگریبان کی ترکیب ان کے حسب حال ہے کہ دونوں طرف پیشہ ور سپاہی ہیں، مگر ہتھیاروں کے بجائے دست و بازو آزما رہے ہیں۔ اگر ہماری دنیا مثالی ہوتی تو اس سال چین اور ہندوستان باہمی تعلقات کے قیام کے ستر سال پورے ہونے کی خوشی میں جشن منا رہے ہوتے۔ سرحدوں پر مکوں اور لاتوں کے بجائے مٹھائی اور پھولوں کا تبادلہ ہورہا ہوتا، مگرظاہر ہے ہماری دنیا ابھی مثالی نہیں۔
1949 کے انقلاب کے بعد تائیوان کو نظرانداز کرکے عوامی جمہوریہ چین کوجن ممالک نے چین کی نمائندہ حکومت تسلیم کرنے میں پہل کی ان میں بھارت بھی شامل تھا۔ سرحدوں پراختلافات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا آغاز معمول سے زیادہ گرمجوشی سے ہوا۔ دونوں ملکوں کے پاس اس وقت جو لیڈرشپ تھی، وہ قد کاٹھ کے اعتبار سے عالمی سطح کے رہنما تھے۔ ایک طرف چیئرمین مائو تھا، اور دوسری طرف پنڈت جواہر لال نہرو۔ سوشلزم پر یقین رکھنے کے باوجود دونوں کا سوشلزم کا ماڈل اور نظریہ مختلف تھا۔ دونوں مثالیت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد عملیت پسند بھی تھے۔ دونوں کے درمیان تعلقات کا آغاز بڑی گرمجوشی سے ہوا۔ ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ بلند ہوا اور تعلقات کے لیے باقاعدہ نظریاتی اور اصولی بنیادوں کا تعین کیا گیا۔ یہ تعلقات ''پنج شیل‘‘ پر قائم ہوئے۔ یہ لفظ سنسکرت زبان سے لیا گیا، جس کا مطلب پانچ اصول ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کیلئے یہ پانچ اصول بنیاد قرار پائے۔ ان اصولوں کو بنیاد بنا کر 28 اپریل 1954 کو پیکنگ میں باقاعدہ معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اصول یہ تھے: دونوں ممالک ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کریں گے۔ ایک دوسرے کے خلاف جارحیت نہیں کی جائے گی، ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی، باہمی مفادات کا خیال رکھا جائے گا، اور پُرامن بقائے باہمی کا اصول اپنایا جائے گا۔ یہ پانچ اصول یقیناً پوری انسانی تاریخ کے مشترکہ تجربات کا نچوڑ تھے۔ کسی بھی دور میں ان اصولوں پر عمل کیا جائے تو تنازعات کا شکار ملکوں اور قوموں کے درمیان انتہائی خوشگوار اور مثالی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں‘ لیکن عملی دنیا میں ملکوں اور قوموں کے تعلقات کے باب میں صرف اصول ہی نہیں بیک وقت کئی دوسرے عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ کئی مقامی اور عالمی مفادات اور تضادات ان اصولوں سے متصادم ہوتے ہیں؛ چنانچہ چین اور بھارت بھی انسانی تاریخ کے بہترین اصولوں کو کاغذوں پر تسلیم کرنے کے باوجود باہمی سرحدی تنازعے حل نہ کر سکے اور محض آٹھ سال کے مختصر عرصے میں میدان جنگ میں ایک دوسرے کے مقابل تھے۔
یہ جنگ چین جیت گیا، بھارت ہارگیا، مگر جیسا کہ ہم جانتے ہیں‘ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی، بلکہ یہ کئی نئے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع مزید پیچیدہ ہو گیا۔ ان سرحدی تنازعات کو لے کر ایک بڑی جنگ کے علاوہ وقتاً فوقتاً دونوں کے درمیان سرحدی کشیدگی اور چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہیں۔ ان میں 1967‘ 1987‘ 2017 کی جھڑپیں قابل ذکر ہیں۔ جنگ اور جھڑپوں کے باوجود حیرت انگیزطور پر دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کیلئے بھی اہم اقدامات کئے۔ یہ تجارتی تعلقات اس حد تک بڑھے کہ 2008 تک چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت داربن گیا؛ اگرچہ حالیہ برسوں میں اس میں تبدیلی آئی، اور چین کی جگہ امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن کر ابھرا ہے۔ حالیہ دو برسوں میں دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اب سرحدوں پر موجودہ کشیدگی کے نتیجے میں اس تجارت کے حجم میں مزید کمی کے امکانات ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ سرحدی تنازع اروناچل پردیش سمیت زمین کے کئی چھوٹے موٹے ٹکڑوں پر ہے، لیکن یہاں ہمارا موضوع اکسائی چن ہے۔ تاریخی طور پر اکسائی چن سابق ریاست جموں و کشمیر کا حصہ رہا ہے۔ یہ سینتیس ہزار مربع میل علاقہ ہے، جو سطح سمندر سے چودہ ہزار سے بائیس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس علاقے کو 1834 میں سکھ حکمرانوں نے سکھ سلطنت میں شامل کیا تھا۔ 1840 میں انگریزوں کے ہاتھوں سکھوں کی شکست کے بعد اکسائی چن انگریزوں کے پاس چلا گیا، جو بعد میں مہاراجہ گلاب سنگھ کو منتقل ہوا۔ 1865 میں سروے آف انڈیا میں انگریز سول سرونٹ ڈبلیوایچ جانسن نے ان علاقوں کو ریاست جموں و کشمیر میں دکھایا۔ اس وقت مہاراجہ کشمیر نے یہاں ایک قلعہ تعمیرکیا اورکچھ فوجی دستے بھی تعینات کیے۔ چینی حکومت نے سرکاری سطح پرجو نقشہ شائع کیا، اس میں اکسائی چن کی سرحد جانسن لائن ہی دکھائی گئی۔ اس سے پہلے پیکنگ یونیورسٹی نے بھی جو نقشہ شائع کیا، اس میں اکسائی چن کو ریاست جموں و کشمیر میں دکھایا گیا تھا۔
برصغیر کی تقسیم اور ریاست جموں و کشمیر کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد یہ علاقے خصوصی طور پر افراتفری کا شکار ہو گئے۔ تقسیم سے قبل ہی متحدہ ہندوستان اورچین کے درمیان سرحدوں کا کوئی باقاعدہ تعین نہیں تھا۔ تقسیم کے بعد یہ صورتحال برقرار رہی۔ 1950کے لگ بھگ چین نے مغربی تبت اور زنجیانگ کو جوڑنے کیلئے بارہ سو کلومیٹر سڑک تعمیرکی جواکسائی چن سے گزرتی ہے۔ بھارت کو تقریباً آٹھ سال بعد اس وقت اس سڑک کے بارے میں پتہ چلا جب خودچین نے یہ سڑک اپنے نئے نقشے میں دکھائی۔ اس پرپنڈت نہرو نے چین کو خط لکھا کہ اکسائی چن لداخ کا حصہ ہے، جواب میں چو این لائی کا دوٹوک موقف تھا کہ اکسائی چن چین کا حصہ ہے، جس پر کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ آگے چل کر اگرچہ نہرواور چواین لائی کے درمیان مذاکرات کے ذریعے اس تنازع کا حل تلاش کرنے پر اتفاق ہوا، لیکن کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہ تنازعہ ابھی تک موجود ہے، اور موجودہ کشیدگی کی وجوہ میں سے ایک نمایاں وجہ ہے۔ دوسری طرف پاکستان اور چین نے 1963 میں سرحدی تنازعوں کے حل کا جو معاہدہ کیا، اس کے تحت کچھ علاقے پاکستان کے پاس آئے اورکچھ چین کو دیے گئے۔ معاہدے میں چین نے یہ تسلیم کیا کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے کی صورت میں ان علاقوں کی حق ملکیت اور مستقبل پر ازسرنو بات چیت کی جائے گی۔صورتحال یہ ہے کہ 2050 میں دنیا کی معاشی طاقتیں بننے کا خواب دیکھنے والی یہ دو قوتیں اکسائی چن کی ملکیت پرایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں، جوبنیادی طورپر ریاست جموں و کشمیرکا حصہ ہے، اورجس کا حق ملکیت اور حق حاکمیت صرف ان علاقے کے عوام کوحاصل ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں