امریکہ میں نسل پرستی کے حالیہ واقعے اور اس کے خلاف ہونے والے رد عمل میں بہت سے اسباق ہیں۔ جارج کا مقدمہ بنیادی طور پر نسل پرستی کا مقدمہ ہے مگر یہ مقدمہ ہماری اس دنیا میں شہری آزادیوں اور قانون کی حکمرانی کی حالت زار پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔ واقعے کا پس منظر بے شک نسل پرستی ہے، اور وجہ بھی نسل پرستی ہی ہے، لیکن پولیس والوں کا عمل محض نسل پرستی تک محدود نہیں۔ یہ عمل قانون کی حکمرانی اور شہری آزادیوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔ مغرب میں نسل پرستی موجود ہے اور اس گھنائونی حقیقت سے کسی کو انکار نہیں‘ مگر مغرب میں نسل پرستی کے خلاف کتنی نفرت ہے؟ شہری آزادیوں کا شعور اور احترام کتنا ہے؟ اس بات کا اندازہ وہ رد عمل دیکھ کر ہوتا ہے، جو جارج کے واقعہ پر ہوا۔ تینوں پولیس آفیسرز پر قتل کا مقدمہ قائم ہونے کے باوجود لوگ لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے‘ جن میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ خواہ وہ کینیڈا کے وزیر اعظم ہوں یا واشنگٹن کے میئر۔ یہ رد عمل دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ گاہے لیڈرشپ کے انتخاب میں سنگین غلطیوں کے باوجود، جس کے نتیجے میں ٹرمپ جیسے لوگ منتخب ہو سکتے ہیں، اب بھی مغربی سماج میں ایسے رہنمائوں کی کمی نہیں، جو نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات سے اوپر اٹھ کر قانون کی حکمرانی اور شہری آزادیوں کی خاطر لڑنے کو تیار ہیں۔
شہری آزادیاں کیا ہوتی ہیں؟ ان آزادیوں کی عملی اشکال کیا کیا ہیں؟ کیا ہرآزاد سمجھے یا آزاد کہلائے جانے والے ملک کے لوگوں کو شہری آزادیاں حاصل ہوتی ہیں؟ شہری آزادی کی اصطلاح کی کئی تعریفیں ہیں۔ سادہ زبان میں بغیر کسی پابندی کے کچھ چیزوں کی آزادی کو شہری آزادیاں کہا جا سکتا ہے۔ اس تعریف پر وسیع اتقاق رائے ہے۔ پابندی سے مراد یہاں حکومت کی طرف سے پابندی ہے لیکن یہ پابندی صرف حکومت تک ہی محدود نہیں۔ آج کے جدید اور پیچیدہ سماجی ڈھانچوں میں یہ پابندی حکومت کے علاوہ سماج کے دیگر بااختیار طبقات کی طرف سے بھی عائد ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی سماج میں حکومت شہریوں کو اظہار رائے کی کھلی آزادی دے سکتی ہے، لیکن اس سماج میں اظہار کے ذرائع جن صاحب اختیار افراد یا اداروں کے پاس ہوتے ہیں وہ اظہار رائے کے راستے کی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اس مثال سے شہری آزادیوں اور شہری حقوق کا فرق بھی واضح ہوتا ہے۔ شہری آزادیوں کو چار اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی شہری آزادیاں، قانونی شہری آزادیاں، سماجی شہری آزادیاں اور معاشی شہری آزادیاں۔ ان سطور میں ہم قانونی شہری آزادیوں کا تفصیل سے جائزہ لیں گے، اور دیگر اقسام کا آئندہ کالموں میں احاطہ کیا جائے گا۔
قانونی شہری آزادیاں کیا ہیں؟ قانونی شہری آزادیوں سے مراد وہ آزادیاں ہیں، جو کسی بھی تہذیب یافتہ سماج کے نظام انصاف میں قانونی اور آئینی طور پر ایک شہری کو دی جاتی ہیں۔ ان قانونی شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے قانون ہر شہری کو ضمانت دیتا ہے کہ اسے ''آربیٹریری‘‘ یعنی من مانی کے تحت گرفتار یا قید نہیں کیا جا سکتا۔ گرفتاری یا قید کسی بھی شخص کی آزادی سے محرومی کا ایک عام طریقہ ہے لیکن یہ گرفتاری یا قید بسا اوقات قانونی طور پر لازم ہوتی ہے۔ جب گرفتاری قانونی طور پر لازم یا ناگزیر ہوتی ہے تو بھی اس کے کچھ قانونی تقاضے ہوتے ہیں، جو ہر مہذب ملک کے آئین و قانون میں واضح طور پر لکھے ہوتے ہیں۔ یہ قانونی تقاضے پورے کیے بغیر جب کسی شہری کو گرفتار یا قید کر دیا جاتا ہے تو یہ عمل اس شہری کی شہری آزادیوں پرحملہ ہوتا ہے، جو انصاف کے بنیادی تقاضوں سے متصادم ہے۔ ہمارے ہاں آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے جائز اور قانونی گرفتاریوں کے دوران بھی متعلقہ قوانین اور قاعدوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ چلن بھی عام ہے کہ قانونی تقاضے پورے کیے یعنی ازخود جب کسی شہری کو کسی ایسے کیس میں گرفتار کرلیا جاتا ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت یا شہادت موجود نہیں ہوتی کہ اس شخص نے واقعی وہ جرم کیا ہے۔ محض شک کی بنیاد پر کسی شخص کو گرفتار کرنے کے بعد اس کے خلاف ثبوت اور گواہ تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غیر قانونی اور من مانی گرفتاری کی ایک بد ترین شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ گرفتار ہونے والے شخص کو گرفتار کرنے سے پہلے گرفتاری کی وجہ ہی نہیں بتائی جاتی۔ اسے وارنٹ گرفتاری نہیں دکھائے جاتے۔ بسا اوقات اس طرح گرفتار کیے گئے اشخاص کو ''ان کمیونیکیڈو‘‘ رکھا جاتا ہے، یعنی ان کو قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے، اور اپنے عزیزواقارب، وکیل یا کسی بھی دوسرے شخص سے رابطے کی اجازت نہیں دی جاتی، یا پھر ان کو کسی خفیہ ٹھکانے پر رکھا جاتا ہے۔ اس طرح کی من مانی اور غیرقانونی گرفتاری سے ناصرف متعلقہ شخص کی شہری آزادیاں متاثر ہوتی ہیں، بلکہ یہ لوگ اکثر ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنائے جاتے ہیں۔
قانونی شہری آزادیوں کی ایک بڑی خلاف ورزی غیرمعقول بنیادوں پر کسی شہری کی تلاشی لینے کا عمل ہے۔ یہ عمل بھی شہری آزادیوں پر شدید حملہ ہوتا ہے۔ تلاشی کی معقول وجہ نہ ہونا یا وارنٹ کی عدم موجودگی اور اس باب میں موجود دیگر کلیے قاعدوں کی خلاف ورزی بھی شہری آزادیوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ قانونی شہری آزادیوں کے باب میں کسی جرم کا الزام عائد ہونے اور گرفتاری کے بعد گرفتار ہونے والے شخص کے حقوق کی ایک طویل فہرست ہے، جسے ایک عام انگریزی لفظ یعنی ''ڈیوپروسس‘‘ میں بیان کیا جا سکتا ہے‘ یعنی گرفتار شدہ شخص کو قانون قاعدے کے مطابق اپنی صفائی کا پورا پورا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔ صفائی کے موقع کا ایک وسیع تناظر ہے۔ اس میں وکیل صفائی تک رسائی سے لے کر وہ تمام اقدامات شامل ہیں، جو قدرتی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے ضروری ہیں۔ ہر شہری کا یہ قانونی حق ہے کہ اس پر لگایا گیا الزام ثابت ہونے تک اسے معصوم تصور کیا جائے، یعنی ایک معصوم شخص سے مجرم جیسا سلوک نہیں کیا جانا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں عملًا اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ایک شہری سے گرفتارہوتے ہی، بلکہ گرفتاری سے پہلے ہی مجرموں جیسا سلوک شروع کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پولیس تشدد اور غیر انسانی سلوک ایک گھنائونی حقیقت ہے، جس کو ''نارمل‘‘ اور زندگی کا حصہ سمجھا جانے لگا ہے‘ حالانکہ ملک کے آئین و قانون میں تشدد یاغیرانسانی سلوک کے خلاف واضح دفعات موجود ہیں۔
من مانی گرفتاری انسانی تاریخ کا ایک بہت ہی گمبھیر مسئلہ رہا ہے۔ اس مسئلے کے خلاف شہری آزادیوں کے حامیوں نے طویل اور صبرآزما جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے دوران خود ان لوگوں کو قیدوبند صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ کئی ایک کی جان چلی گئی۔ آہستہ آہستہ دنیا میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے فروغ کے بعد اس باب میں کچھ قابل ذکر تبدیلیاں آئیں۔ بیسویں صدی کے تیسرے اور چوتھے عشرے تک اس باب میں انسانی شعور میں اس حد تک اضافہ ہو چکا تھا کہ کئی ممالک نے اپنے اپنے آئین و قانون میں من مانی گرفتاری کے خلاف واضح دفعات شامل کیں۔ 1948 میں عالمی برادری نے شہری آزادیوں کے تحفظ کو انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں شامل کیا۔ دنیا میں اب شہری آزادیوں کا شعور کس قدر پختہ ہو چکا ہے، اس کی ایک جھلک جارج فلائیڈ کے کیس میں نظرآتی ہے۔ اس کیس میں نسل پرستی کے علاوہ قانون کی حکمرانی اور شہری آزدیوں کا پہلو بھی نمایاں ہوا ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پوری طرح قانون کی حکمرانی کے تابع لانے کا کام ابھی باقی ہے۔ پولیس کی طرف سے تشدد، غیرقانونی گرفتاری اور طاقت کے ناجائز اور غیر ضروری استعمال کو روکنے کے لیے بہت کام کی ضرورت ہے۔