خوش امیدی لازم ہے۔ زندگی کے دردناک مسائل کا مقابلہ رجائیت پسندی کے بغیر ممکن نہیں‘ مگر حقائق مقدس ہوتے ہیں، اور زمینی حقائق سے چشم پوشی کرکے خوش امیدی‘ خودکشی ہے۔
کورونا کے خلاف لڑائی کے آغاز میں یہ تاثرکافی پختہ ہوگیا تھاکہ اس خوفناک تباہی سے دنیا بڑے اہم سبق سیکھے گی۔ انسان کا اندازِ فکر بدل جائے گا۔ سوچ کی تبدیلی کے نتیجے میں مستقبل میں جوبجٹ بنیں گے، وہ بہت مختلف ہوں گے۔ دنیا کے مختلف ممالک کی پارلیمان میں جونئے بجٹ پیش کیے جائیں گے ان میں نظام صحت پہلی ترجیح ہوگی۔ صحت کی مد میں خطیررقوم رکھی جائیں گی۔ نظام صحت کوجدید خطوط پراستوار کیا جائے گا۔ میڈیکل سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت زاربدل جائے گی۔ جدید میڈیکل آلات اورحفاظتی سازوسامان خریدا جائے گا۔ ہنگامی بنیادوں پراس بات کی تیاری کی جائے گی کہ اگرکورونا دوبارہ حملہ آورہو یا کوئی نیا وائرس آئے تو ہم پہلے کی طرح بے دست وپا نہ ہو جائیں۔
کورونا کے ابتدائی دنوں میں یہ تاثربھی ابھرا تھا کہ انسان مابعدالکورونا دوسروں کے بارے میں پہلے کی نسبت زیادہ ہمدردی سے سوچے گا۔ دنیا میں غربت اورعدم مساوات جیسے مسائل کوبھی خصوصی اہمیت دی جائے گی۔ مگراس باب میں بھی انسانی طرزعمل میں چنداں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ کورونا کے تجربے نے یہ امر بھی واضح کر دیا تھا کہ دنیا ایک گلوبل ولیج ہے۔ دنیا کی بقا اوربھلائی الگ تھلگ رہنے میں نہیں، بلکہ مل جل کررہنے میں ہے۔ کوئی ملک و قوم اپنے آپ کو اپنی سرحدوں کے اندرمحدود کرکے محفوظ نہیں ہو سکتی۔ اس سے یہ تاثرابھرا تھا کہ دنیا میں تنگ نظرقوم پرستی کے رجحانات کم ہوں گے لیکن آثاراس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ تنگ نظرقوم پرستی اب بھی پاپولسٹ لیڈروں کے لیے ایک نفع بخش کاروبارہے، جوپہلے کی طرح جاری ہے۔ سب معاملاتِ زندگی حسب سابق ہیں۔ نہ طرزفکر بدلی، نہ ہی طرزعمل میں کوئی تبدیلی آئی۔ سیاست پرانی ڈگرپررواں ہے۔ وہی نعرے ہیں، وہی دعوے ہیں۔ یہ صورتحال دیکھ کرکچھ لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ عالمی اشرافیہ نے برسوں سے دنیا کوجس ڈگرپر چلانے کا فیصلہ کیا ہوا ہے، اس میں تبدیلی اتنی آسان نہیں۔ یہ تبدیلی ممکن ضرورہے، مگراس کے لیے ایک طویل، منظم اور شعوری جدوجہد کی ضرورت ہے۔
عالمی اشرافیہ اس دنیا کو کیسے چلاتی ہے؟ یہ اب کوئی پہیلی نہیں ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ بہت ادب تخلیق ہوچکا ہے۔ اس موضوع پرسینکڑوں کتب چھپ چکی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک کتاب ''ونرزٹیک آل‘‘ یعنی جیتنے والا سب کچھ لے جاتا ہے، میری نظرسے گزری تھی۔ اس کتاب میں آنندگری دھارن نے یہ پہیلی بوجھنے کی کوشش کی کہ اشرافیہ دنیا کو کیسے چلاتی ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے عہد کے طبقاتی تضادات کوآسان اندازمیں پیش کیا ہے۔ اس نے ان عناصراور طبقات کی بطور خاص نشاندہی کی ہے، جو بظاہر تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ غریب طبقات کے ہمدرد ہیں، مگر درحقیقت وہ عالمی اشرافیہ کے راج اور طاقت کو قائم رکھنے میں ان کے اصل مددگار ہیں۔ مصنف پبلک انٹی لیکچولز کی مثال دیتا ہے۔
عالمی اشرافیہ کے معاونین میں کچھ ارب پتی اورکھرب پتی بھی شامل ہیں، جو گاہے انسانی ہمدردی کے جذبات کااظہار کرتے رہتے ہیں‘ اوراپنی دولت سے تھوڑی بہت خیرات کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ہماری دنیا کے دولت مند ترین لوگوں کی ''چیریٹی‘‘ یعنی خیرات کے بڑے چرچے ہیں۔ یہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ ہردور میں کچھ صاحب ثروت لوگ اپنے اپنے طریقوں سے کم خوش قسمت لوگوں کی مدد کرتے رہے‘ مگر ہمارا دورابلاغ کا دور ہے‘ اس دورمیں بات دورتک اورتیزی سے پھیلتی ہے۔ اگرامریکہ میں ایک ارب پتی کوئی موٹی رقم خیرات میں دیتا ہے تویہ بات اسی وقت پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ ان خبروں سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ دولت مند لوگ درد دل بھی رکھتے ہیں، اوراپنی دولت کا کچھ حصہ عام لوگوں پر خرچ کر سکتے ہیں، اورعام لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ مگرمصنف نے اس خیال کی تردید کی کہ امیراشرافیہ اس دنیا کے مسئلے حل کرنے میں مدد دے رہی ہے۔ اس کے برعکس اس کے نزدیک یہ لوگ غربت کے مسئلے کا حل نہیں، بلکہ خود ایک مسئلہ ہیں۔ طاقتور اشرافیہ نے دنیا میں جومضبوط گرفت قائم کی ہوئی ہے وہ پلوٹوکریسی ہے، جس کیلئے سنسکرت زبان کا لفظ ''دھن راج‘‘ بہت مناسب ہے۔ دنیا میں جوکچھ بھی ہو رہا ہو۔ کوئی معاشی یا سیاسی بحران ہو۔ کوئی وبا یا بیماری چل رہی ہو‘ کوئی قدرتی آفت گزررہی ہو۔ اس سے ان لوگوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا، بلکہ الٹا وہ اس سے کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مصنف نے مثالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح دنیا میں کل آبادی کے ایک فیصد پر مشتمل اشرافیہ دنیا میں ایک ایسا نظام ترتیب دے چکی ہے، جوہر حالت میں صرف اس ایک فیصد کے فائدے کیلئے ہی کام کرتا ہے۔
مصنف نے ڈیووس کا ایک واقعہ بیان کیا۔ ڈیووس میں دنیا کے امیرترین اور طاقتورترین لوگ جمع ہوتے ہیں۔ ان میں حکمرانوں کے علاوہ ارب پتی اورکھرب پتی بھی ہوتے ہیں، جو ذاتی طیاروں میں آتے ہیں۔ یہاں پر دنیا کے غریبوں کے بارے میں سوچا جاتا ہے، ان کے مقدرکے بارے میں بڑے بڑے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ غربت، عدم مساوات اورماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں مباحثے ہوتے ہیں، اور منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ ڈیووس میں ڈیجیٹل دنیا کے موضوع پرہونے والی اسی طرح کی ایک کانفرنس میں کمپیوٹر آئیکون مائیکل ڈل بھی شامل تھا۔ بات ٹیکسوں کی چلی توایک ماہر معاشیات نے خیال ظاہرکیا کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت اورطبقاتی ناہمواریوں کے خاتمے کا ایک موثرحل یہ ہوسکتا ہے کہ دس ملین ڈالرسے زائد آمدنی پر سترفیصد ٹیکس لگایا جائے۔ اس پر ڈل کی رائے پوچھی گئی۔ ڈل کا جواب یہ تھاکہ وہ ٹیکس کے بجائے خیرات پریقین رکھتا ہے‘ اپنی دولت حکومت کودینے کے بجائے اس کی مناسب تقسیم کے لیے ہمیں اپنی صلاحیتوں پرحکومت سے زیادہ اعتماد ہے۔ ڈل جواس وقت دنیا کے چالیس امیرترین لوگوں میں شامل تھا دوسرے الفاظ میں یہ کہہ رہا تھا کہ وہ ایک منتخب جمہوری حکومت سے زیادہ جانتا ہے کہ غریبوں کی کیا کیا ضروریات ہیں، اورانہیں کیسے پوراکیا جا سکتا ہے۔ اس کے خیال میں حکومت کوسترفیصد ٹیکس دینے سے امریکی معیشت کی ترقی میں مدد نہیں مل سکتی۔ اس نے چیلنج کیا کہ آپ کسی ایک ملک کا نام بتا دیں، جہاں پریہ پالیسی کامیاب رہی ہو۔کانفرنس میں موجود کئی لوگ جانتے تھے کہ بھاری ٹیکسوں کی پالیسی کئی ممالک میں کامیاب رہی ہے۔ سویڈن، ناروے، اورفن لینڈ جیسے ملکوں میں بھاری ٹیکس کے ذریعے سماج میں موجود ناہمواریوں کوکافی حد تک کم کیا گیا۔ سوشلسٹ ممالک کی مثال ایسے فورم پر پسند نہیں کی جاتی؛ چنانچہ ڈل کوخود امریکہ کی مثال دی گئی۔
1970کے بعد اس باب میں قدامت پرستانہ پالیسیوں کے بعد عدم مساوات میں بے تحاشا اضافہ اورترقی کی رفتارمیں نمایاں کمی ہوئی۔ ریگن ازم اورٹیکس میں بے تحاشا کمی کی پالیسیوں کے نتیجے صرف اشرافیہ خوشحال ہوئی ہے، جبکہ ننانوے فیصد غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پیداوار، ایجادات اورترقی ضرورہوئی لیکن اس سے صرف گنے چنے لوگوں کو فائدہ ہوا۔ عالمی اشرافیہ کے مفادات اوراس کے معاونین کو بے نقاب کرتے ہوئے یہ کتاب بنیادی طورپر 'سٹیٹس کو‘ پرسوالات اٹھاتی ہے اور ان سوالات میں بصیرت، حقائق اور اعدادوشمار ہیں۔ یہ کتاب قاری کو بھی خود سے کئی سوال پوچھنے پراکساتی ہے۔ انسان کو خیرات، عالمی کانفرنسوں، تھنک ٹینکس کے بارے میں سوچنے پرمجبور کرتی ہے اور یہ سوچنے پر مجبورکرتی ہے کہ یہ سب کیا مسئلے کا حل ہیں یا خود مسئلہ ہیں۔