ایک وقت تھا جب جمہوریت مایوسی کے گھپ اندھیروں میں امید کی ایک کرن بن کر ابھری تھی۔ نوے کی دہائی میں سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد یہ تاثرعام ہوا تھا کہ اب دنیا جمہوریت کوایک متفقہ طرزحکمرانی کے طورپر اپنانے کی طرف مائل ہی نہیں مجبور بھی ہے کہ فی الحال دنیا میں اس نظام کا کوئی متبادل موجود نہیں۔
جمہوریت اصلاحات یا بہتری لانے کا کوئی فوری یا انقلابی طریقہ نہیں ہے۔ یہ سماجی ومعاشی انصاف کی طرف بڑھنے کا ایک سست رومگر ایک یقینی اوردیکھا بھالاراستہ ہے۔ اس کے ثمرات طویل انتظارکے متقاضی ہوتے ہیں۔ اس میں صبراور تسلسل کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود کچھ انقلابی مکاتب فکربھی کچھ ممالک میں جمہوریت کے ثمرات دیکھ کراس پرایمان لے آئے، جس سے سوشلسٹ جمہوریت کا تصور مضبوط ہوا۔ دوسری طرف نظریاتی طورپر آمریت پسند بھی جمہوریت کو واحد اورناگزیر راستے کے طورپر ماننے پرمجبور ہوگئے کہ اس وقت تک جتنے بھی کامیاب ممالک تھے ان کا طرز حکمرانی جمہوری تھا۔
ایک اچھی جمہوریت کا تصورانسانی حقوق اورشہری آزادیوں کے بغیرمکمل نہیں ہوتا؛ چنانچہ اس وقت یہ امید بھی پیدا ہوئی تھی کہ اب دنیا میں انسانی حقوق اورشہری آزادیوں کا احترام بڑھے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی پیدا ہوئی تھی کہ اب دنیا امن وآشتی کی طرف بڑھے گی کیونکہ جمہوریتیں جنگوں سے اجتناب کرتی اورامن کو ترجیح دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے کہ جمہوریت اوراس کے اثرات کے بارے میں وہ تاثرات اورامیدیں قائم نہ رہ سکیں، جو شروع میں پیدا ہوئی تھیں۔ ایسا کئی وجوہ کی بنا پرہوا۔ اکیسویں صدی کی ابتدا میں بہت سارے ممالک میں حکمران اشرافیہ نے کئی ایسے اقدامات کیے جوجمہوریت اورانسانی حقوق سے متصادم تھے۔ ان ممالک میں ترکی اورہنگری جیسے ممالک سرفہرست تھے، جنہوں نے جمہوری حقوق اورشہری آزادیوں کومحدود کیا، اورجمہوری تصورات کو نقصان پہنچایا۔
جوممالک عملی طورپر دیکھتے ہی دیکھتے جمہوریت کی پٹری سے اترکر مطلق العنانیت کے راستے پر چل پڑے، ان کے خلاف عالمی سطح پرکوئی ردعمل نہیں ہوا۔ کسی عالمی طاقت نے فکرمندی کا اظہارنہیں کیا۔ اس کی گوناگوں وجوہ ہیں۔ ان میں ایک بڑی وجہ امریکہ کی عالمی پالیسیوں اورترجیحات میں تبدیلی تھی۔ روایتی طورپرکسی ملک کے ساتھ تعلق کے حوالے سے اگرچہ رسمی طورپر ہی سہی، امریکہ جمہوریت اورانسانی حقوق کا ذکر ضرورکرتا رہا؛ اگرچہ ایسی مثالوں کی کمی نہیں، جب امریکہ نے مخصوص حالات میں آمریتوں کی پشت پناہی بھی کی ہے۔ حالیہ برسوں میں اس پالیسی میں بتدریج تبدیلی آتی دکھائی دے رہی تھی مگر صدرٹرمپ کے منتخب ہوتے ہی اس پالیسی میں پھر نمایاں تبدیلی آئی، جب انہوں نے کسی ملک کے اندر طرزحکمرانی کے سوال کو کسی قسم کی اہمیت دینے کے بجائے کاروباری اورمعاشی فوائد کواہم ترین ترجیح قراردیا۔ یوں جمہوریت اورانسانی حقوق کے رسمی تکلف سے بھی چھٹکارا پا لیا اور ایسے ممالک سے قریبی تعلق بنانے میں کوئی عارمحسوس نہ کی جن کا جمہوریت اورانسانی حقوق کے بارے میں ریکارڈ کافی داغدارتھا۔ دوسری بڑی وجہ عالمی سیاست میں امریکہ کی پسپائی اورچین کابطور سپرپاور ابھارتھا۔ چین کی حیرت انگیزاور تیزرفتار معاشی ترقی اورایک فوجی طاقت کی حیثیت سے عالمی سٹیج پرظہور سے ترقی کے لیے جمہوریت کی ناگزیریت کے تصورات کوشدید دھچکا لگا۔ اس سے یہ تاثرابھرا کہ معاشی وسماجی ترقی کے لیے جمہوریت بطورطرز حکمرانی ناگزیرنہیں ہے۔ اس کا یہ نقصان ہواکہ تیسری دنیا کے بیشترممالک کے مطلق العنانیت کے رجحانات کے حامل حکمرانوں نے جمہوریت اورانسانی حقوق کواہمیت دینی چھوڑدی، جس سے جمہوری روایات کوسخت نقصان پہنچا۔ پارلیمان اور دوسرے جمہوری اداروں کو نظرانداز کیا گیا۔ کئی ممالک میں وزرائے اعظم نے پارلیمان کے اجلاسوں میں جانا چھوڑدیا۔ پارلیمان میں مباحثے اورمنظوری کے بغیربڑے بڑے اہم فیصلے ہونے لگے۔ آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی ہونے لگی۔ غیرمنتخب لوگوں کومشیر بنایا جانے لگا۔ منتخب نمائندوں کونظر اندازکر دیا گیا۔ اس سے بہت سارے ممالک میں جمہوری ادارے کمزور ہو گئے‘ جمہوریت کا معیارگر گیا۔
ان ممالک میں بظاہریا آئینی طورپر طرزحکمرانی تو جمہوریت ہی رہا، مگرعملی طور پریہ ملک شخصی حکمرانی کے راستے پرچل نکلے۔ کچھ حکمرانوں نے آئین، قانون، اور خود جمہوریت کو بھی شخصی حکمرانی اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ روس میں صدر پوٹن اس عمل کی تازہ ترین مثال ہیں، جو قدیم بادشاہوں کی طرح تاحیات تخت نشینی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ فریڈم ہائوس کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ہنگری اب جمہوریت نہیں رہا ہے۔ پولینڈ بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ روس اورچین کے زیراثر پورے مشرقی یورپ کی ریاستوں میں جمہوریت پسپا ہورہی ہے۔ اس موضوع پرکیے گئے ایک مطالعے میں یورپ اوروسطی ایشیا کے انتیس ممالک میں جمہوریت کی حالت زار کا جائزہ لیاگیا ہے، جس کے تحت اس خطے میں انیس سو پچانوے کی نسبت چندایک جمہوریتیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق وزیراعظم وکٹرآربین کے جمہوری اداروں پر حملوں کی وجہ سے ہنگری بطورجمہوری ملک اپنا سٹیٹس کھوچکا ہے۔ تیسری دنیا کے کئی ممالک میں خود سیاسی پارٹیوں کے طرزعمل کی وجہ سے بھی جمہوریت کے معیار کوبہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے عام انتخابات کیلئے اپنے امیدواروں کی نامزدگی کے جونئے پیمانے اور معیاراپنا لیے، وہ بنیادی طورپر جمہوریت کی روح سے متصادم ہیں۔ ان پارٹیوں نے ایسے امیدوار ڈھونڈنے شروع کر دیے جویا تو پارٹی پر بے تحاشا پیسہ لگا سکتے تھے یا پھرمنتخب ہونے اورسیٹ جیت کرلانے کی ضمانت دے سکتے تھے۔ اس سلسلۂ عمل میں پارٹیوں نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی کہ ایک دولت مندامیدوار جوپارٹی کا ٹکٹ منہ مانگی قیمت پرخریدنے کے لیے تیار ہے‘ اس نے یہ بے تحاشا دولت کن ذرائع سے اکٹھی کی ہے یا اتنی بڑی قیمت پرٹکٹ خریدنے کے پیچھے اس کے اصل مقاصد اورعزائم کیا ہیں؟ کیا اس کا مقصدعوامی خدمت یا بھلائی ہے یا پھر وہ یہ سرمایہ کاری کرکے اس سے دوگنی دولت بنانے کا کوئی منصوبہ رکھتا ہے۔ منتخب ہونے کے قابل یا سیٹ کی ضمانت دینے والے امیدواروں کو ترجیح دیتے وقت بھی سیاسی پارٹیوں نے کئی بنیادی حقائق اوراصولوں کو نظراندازکیا۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ یہ لوگ منتخب ہونے کے لیے جوحربے اختیار کرتے ہیں، ان کی اخلاقی اورقانونی حیثیت کیا ہے۔ ظلم کی یہ ایمپائرکیسے کھڑی کی ہے، اوراپنے آپ کو ناقابل شکست کیسے بنایا ہے۔ ایسا تیسری دنیا کے بیشترممالک میں ہوا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں‘ جودنیا کی سب بڑی جمہوریت ہے‘ یہی عمل دہرایا گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت بھارتی پارلیمان میں ایک تہائی ممبران ایسے ہیں، جن کے خلاف قتل اورعصمت دری جیسے سنگین مقدمات درج ہیں۔ ان حالات میں جمہوریت کی جونئی شکل ابھر رہی ہے، یہ جمہوریت کے نام پرایک جدید آمرانہ نظام ہے، جس میں حکمران اشرافیہ‘ بااثر، امیراور جرائم پیشہ لوگوں کے ذریعے اقتدارمیں آتی ہے، اورانہی لوگوں کوشریک اقتدار بناتی ہے۔ یہ صورتحال جمہوریت کے مستقبل کے لیے کوئی اچھی خبرنہیں ہے۔ اگرجمہوریت کامستقبل بچانا ہے تواس سلسلے میں سخت قسم کی سیاسی جدوجہد اورقانون سازی کی ضرورت ہے۔ جیمزبوارڈ نے کیا خوب کہا تھا کہ جمہوریت دو بھیڑیوں اورایک بھیڑ کے درمیان اس بات پرووٹنگ کا نام نہیں ہے کہ آج ڈنرمیں کیا کھایا جائے۔