ہم بدلیں یا نہ بدلیں، مگر ہمارے اردگرد کی دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے ''ثبات ایک تغیرکو ہے زمانے میں‘‘۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے، اس میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں، انسانی سماج کوئی ساکت و جامد شے نہیں ہے۔ سماج ہمہ وقت تبدیلی اور تغیر کے عمل سے گزرتا رہتا ہے؛ چنانچہ یہ دنیا لمحہ بہ لمحہ بدلتی رہتی ہے۔ لیکن اس تحریر کا نقطہ ماسکہ یہ لمحہ بہ لمحہ رونما ہونے والی تبدیلیاں نہیں، بلکہ عصرِ حاضر کی بڑی سیاسی، تاریخی اور دنیا کو ہلا دینے والی تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی ان تبدیلیوں میں سے ایک ہے جو عشروں بعد آتی ہیں۔
یہ ہماری نسل کی خوش قسمتی یا بدقسمتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے مختصر وقت میں کچھ بڑی اور دنیا کو اتھل پتھل کر دینے والی تبدیلیاں دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ایک تبدیلی وہ تھی جو ہم نے آج سے تیس سال قبل نوے کی دہائی میں دیکھی۔ یہ گورباچوف کی قیادت میں سوویت یونین کی پالیسی میں بنیادی تبدیلی تھی۔ نرم الفاظ میں گورباچوف کا خیال تھا کہ سوویت یونین نے معاشی، سیاسی، داخلی اور عالمی محاذ پر جو پالیسیاں اپنا رکھی ہیں، ان کا اس شکل میں جاری رہنا سوویت عوام اور عالمی برادری یعنی بنی نوع انسان کے مجموعی مفاد میں نہیں ہے لہٰذا ان پالیسیوں کو بدلنے کے لیے اس مدبرآدمی نے پرسٹرائیکا اور گلاسنوسٹ کی تھیوریاں پیش کیں۔ یہ سوویت یونین کو جدیدیت اور دنیا کو امن کی جانب لے جانے والے نادر نسخے تھے۔ ان تھیوریوں کا سادہ زبان میں خلاصہ یہ ہے کہ سوویت یونین کے معاشی و سیاسی نظام میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں، جن کے تحت عوام کو وہ معاشی اور سیاسی حقوق دیے جائیں، جن سے وہ اس وقت تک محروم تھے۔ مزید برآں عالمی محاذ پر تصادم کی پالیسی کو ترک کرکے پُرامن بقائے باہمی اور تعاون کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ تبدیلی کا کوئی ریڈیکل پروگرام نہیں تھا بلکہ یہ بتدریج تبدیلی کا ایک جامع منصوبہ تھا، جس نے بڑی آہستگی سے مرحلہ وار رونما ہونا تھا‘ مگر اس وقت کے سوویت بندوبست میں تبدیلی کی بات ہی از خود ایک دھماکا تھا۔ اس دھماکے کی آواز بہت اونچی تھی، جس سے مختلف طبقے کے لوگوں کو مختلف پیغامات ملے یا انہوں نے اس تبدیلی کے مختلف مطالب نکالے۔ جو قوتیں نصف صدی سے سوویت یونین سے خفیہ اور کھلے تصادم سے گزر رہی تھیں، ان کو یہ پیغام ملا کہ سوویت یونین کا معاشی و سیاسی ڈھانچہ ناقابل شکست نہیں ہے، اور اس کو توڑنے کے لیے آخری زور لگایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف جو قومیں اور عوام وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ میں مہا روسی تصور اور سوویت بالا دستی سے نالاں تھے، ان کے اندر قومی خود مختاری کی امید پیدا ہوئی۔ اور تیسری طرف سوویت یونین کے اندر جو لوگ جمہوریت، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا خواب دیکھتے تھے، ان کے دل میں تبدیلی کے نام سے نئی امیدیں جاگ اٹھی۔ گورباچوف کی تبدیلی کے خواب میں ان ساری قوتوں نے اپنے اپنے خواب شامل کر دیئے۔ آگے چل کر حالات و واقعات نے جو رخ اختیار کیا اس میں گورباچوف کا خواب ٹوٹ کر بکھرگیا۔ دوسری قوتوں کے بھی سارے خواب اگرچہ پورے نہیں ہوئے، مگر ان کی کچھ ٹوٹی پھوٹی مسخ شدہ تعبیریں ضرور سامنے آئیں‘ لیکن جو کچھ ہوا اس سارے عمل نے دنیا کا سیاسی، معاشی اور عسکری لینڈ سکیپ بدل کر رکھ دیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھری۔ اگلے تیس برسوں میں ایک سپرپاور کی عملداری میں چشم فلک نے جو حالات و واقعات دیکھے، جو جنگ و جدل اور خون خرابہ دیکھا، اس کی جدید تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں۔ اس بار تبدیلی کا یہ خواب چین کے صدر شی جن پنگ دیکھ رہے ہیں۔ چین کی معاشی، سیاسی اور عسکری پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی آ رہی ہے۔ سب سے بڑی اور نمایاں تبدیلی چین کی عسکری پالیسی اور خارجہ محاذ پر روایتی طرز عمل میں گہری تبدیلی ہے۔ چین خارجہ محاذ پر نئی اور سخت گیر پالیسی اپنا رہا ہے۔ کسی ملک کی خارجہ پالیسی کے تعین میں کئی عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔ ان میں کسی ملک کی تاریخ، جغرافیہ، ثقافت کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ اس ملک میں اس مخصوص وقت میں کس قسم کی حکومت ہے، اور اس حکومت کے دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ کس قسم کے تعلقات ہیں۔ ان عناصر میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ملکوں کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آتی رہتی ہے مگر اس وقت چین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بدلتے حالات کے مطابق پالیسی میں تھوڑی بہت تبدیلی نہیں ہے۔ اس سال کے آغاز میں جب چین پر امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے کورونا وبا کے حوالے سے الزامات لگائے گئے تو چین نے روایتی طریقے سے ہٹ کر سخت ردعمل دیا۔ روایتی طور پر ایسے معاملات میں چین کا رویہ نرم یا معذرت خواہانہ اور قدامت پرستانہ رہا ہے مگر اس بار اس نے جارحانہ موقف اختیار کیا۔
کورونا بحران کے دوران چین کو ناسازگار عالمی حالات کا سامنا رہا ہے۔ چین کے خلاف جو فضا بن گئی، اس میں کئی ممالک یک زبان ہو کر چین پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔ اس کو دنیا میں معاشی اور انسانی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ جیسے لیڈر مسلمہ سفارتی آداب کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے کورونا کو چینی اور ووہان وائرس کا نام دے کر چین کو سزا دینے کی بات کر رہے ہیں۔ کئی مغربی لیڈر اس وائرس کے یوں پھیلائو کی وجہ چینی حکام کی غفلت یا مجرمانہ سازش کو قرار دے رہے ہیں۔ چین کے خلاف تحقیقات کرنے اور اس کو سزا دینے کے مطالبے ہو رہے ہیں۔ دنیا میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کئی مغربی ممالک میں چینی لوگوں پرحملے ہو رہے ہیں۔ ایسے مشکل وقت اور ناسازگار حالات میں چین نے حیرت انگیز طور پر ہانگ کانگ کی خود مختاری پر ایسا سخت موقف اختیار کر لیا جو ناصرف پوری دنیا میں بلکہ خود ہانگ کانگ کے عوام کے ایک بڑے حصے کے لیے بھی پریشان کن تھا۔ ہانگ کانگ پر یہ نیا سخت گیر موقف اور کارروائی خود چین کی اپنی ماضی کی پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ روایتی طور پر چین عالمی معاہدوں کی پاسداری کا حامی بلکہ پرچارک رہا ہے‘ لیکن اس کیس میں ہانگ کانگ کے سوال پر چین نے جو اقدامات کیے وہ برطانیہ سے کیے گئے تاریخی معاہدے سے متصادم ہیں‘ اور اس سے بڑھ کر امریکہ نے رد عمل کے طور پر ہانگ کانگ کو دی گئی تجارتی مراعات واپس لینے کی جو دھمکی دی‘ اس کو بھی کوئی اہمیت نہ دی گئی۔ چین کی نئی پالیسی کا ایک اور مظہر چین بھارت سرحدی تنائو اور اس پر چین کا سخت اور بے لچک رویہ ہے۔ بھارت کے ساتھ سرحد پر طاقت کا استعمال پیپلز لبریشن آرمی کا گزشتہ تیس سال کے دوران طاقت کا پہلا مظاہرہ تھا۔ اس محاذ پر اگرچہ چین نے مکالمے اور گفت و شنید سے انکار نہیں کیا، لیکن موقف بدلنے یا اپنی فوجیں ایک انچ بھی پیچھے ہٹانے سے صاف انکار کر دیا۔
بھوٹان اور چین کے درمیان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں چین کی نئی سرحدی پالیسی کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ چین اور بھوٹان کے درمیان رسمی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ لیکن سرحدی تنازع پر دونوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈوکلام کے متنازعہ علاقے پر 2017 سے ان کے درمیان دو درجن اجلاس ہو چکے ہیں۔ چین نے سائوتھ چائنا سمندر میں اپنی سرگرمیوں میں تیزی پیدا کی اور اپنی مشرقی سمندری حدود میں اپنی سرگرمیوں کا دائرہ سنکاکو آئی لینڈ تک بڑھا دیا ہے اور انڈونیشیا، ملائیشیا، اور ویت نام کے ساحلوں پر اپنے وجود میں اضافہ کیا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کو اگر بیجنگ میں بیٹھے ہوئے حکومتی ترجمانوں کے بیانات اور چینی اخبارات میں چھپنے والے مضامین کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو چین میں ایک نئی عسکری اور خارجہ پالیسی کے خدوخال ابھر رہے ہیں، جس کے آنے والے وقتوں میں دنیا کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔