دانشور کہتے ہیں‘ اکیسویں صدی ایشیا کی صدی ہے۔ اس صدی میں ایشیا کے کئی ممالک غربت اور پسماندگی سے نکل کر خوشحال ممالک کی صفوں میں شامل ہو جائیں گے‘ اور کچھ ملک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ بن جائیں گے۔ ان معنوں میں یہ صدی ایشیا کی صدی ہے مگر سب سے بڑھ کر یہ چین کی صدی ہے۔ اس وقت پوری دنیا کی نظریں چین پر لگی ہیں۔ دنیا چین کو بڑی تیزی سے ایک سپر پاور بنتے دیکھ رہی ہے۔ دانشور حلقوں میں اب یہ بحث نہیں کہ چین سپر پاور بن جائے گا یا نہیں، بلکہ بحث اس بات پر ہے کہ چین کتنے عرصے میں سپر پاور بن جائے گا۔
دوسری طرف چین بھی اپنی عظمت رفتہ کی بحالی اور ایک سپر طاقت بننے کے بارے میں پُرعزم ہے۔ خود چین کے دانشور حلقوں میں اس پر بحث جاری ہے۔ ایک حلقہ ایسا ہے جس کا خیال ہے کہ چین ایک سپر پاور بن چکا ہے‘ اب صرف اس امر کے اعلان اور چینی رہنمائوں کی آگے بڑھ کر اپنا کردار متعارف کرانے کی دیر ہے‘ لیکن چین میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو بہت زیادہ محتاط ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چین میں ایک سپر پاور بننے کا ایک پوٹینشل تو موجود ہے، مگر اس پوٹینشل کو بروئے کار لانے کے لیے بہت طویل عرصہ درکار ہے اور اس باب میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ چینیوں کی طرح عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے دنیا بھر کے دانشور بھی اس سوال پر تقسیم ہیں۔ ایک دانشور حلقے کی رائے ہے کہ حالیہ برسوں میں امریکہ کے عالمی کردار میں بنیادی تبدیلی کی وجہ سے اب امریکہ دنیا کا واحد لیڈر نہیں رہا۔ صدر ٹرمپ کی پالیسیوں نے دنیا کی سیاست میں امریکی کردار محدود کر دیا ہے۔ اس سے عالمی سیاست میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ چین اس خلا کو بھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بشرطیکہ چینی رہنما اس ضرورت کا ادراک کر سکیں، اور عالمی سٹیج پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
جن لوگوں کا خیال ہے کہ چین کو سپر پاور بننے کے لیے طویل وقت درکار ہے، ان میں کئی نمایاں چینی دانشور شامل ہیں۔ یہ لوگ چین کے نظام اور حکمران اشرافیہ کا حصہ رہے ہیں۔ وہ اس نظام کو گہرائی تک سمجھتے اور اندر کی خبر اور معلومات رکھتے ہیں۔ ان میں ایک لیومنگ فو بھی ہیں۔ کرنل لیو ایک چینی پروفیسر ہے۔ وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں۔ یہ چینی فوجی اشرافیہ کی اکیڈمی ہے، جس میں پیپلز لبریشن آرمی کے بڑے افسروں کو تربیت دی جاتی ہے۔ کرنل لیومنگ فو نے کئی برس پہلے ''چین کا خواب‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس کتاب میں چین کے سپر پاور بننے کی خواہش، ضرورت اور امکانات پر بحث کی گئی ہے۔ لیو کا خیال ہے کہ امریکہ کے برابر آنے کے لیے چین کو نوے سال کا عرصہ درکار ہے۔ چین نے گزشتہ چند دہائیوں کے دوران بے مثال ترقی کی ہے‘ اس کے باوجود چین اور امریکہ کی جی ڈی پی میں بڑا فرق ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے چین ایک طرح سے دنیا کی فیکٹری رہا ہے۔ اس کی وجہ سے اس کی مینوفیکچرنگ اور ایکسپورٹ بہت بڑھی ہے۔ تیز رفتار ترقی کی وجہ سے چین اور امریکہ کی جی ڈی پی کے فرق میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ کورونا سے پہلے 2018 میں چین کی جی ڈی پی 13.27 ٹریلین ڈالر تھی، جو امریکہ سے سات ٹریلین ڈالر کم تھی۔ لیو کے خیال میں امریکہ کے برابر آنے کے لیے چین کو تیس سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ یہ کورونا سے پہلے کی بات ہے۔ کورونا کے بعد کی صورتحال اور نتائج اس سے قطعی مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔
لیو کے خیال میں فوجی طاقت کے اعتبار سے چین اور امریکہ میں بہت بڑا فرق ہے۔ کورونا سے پہلے امریکہ کا سالانہ فوجی بجٹ چھ سو دس ارب ڈالر تھا۔ یہ بجٹ امریکہ کی کل جی ڈی پی کا 3.1 فیصد ہے۔ دوسری طرف چین کا کل فوجی بجٹ 228 بلین تھا، جو چین کی کل جی ڈی پی کا ایک اعشاریہ نو فیصد ہے۔ ضرورت اور خواہش کے باوجود چین اس بجٹ میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں لا سکتا۔ چینی لیڈر شعوری طور پر ایسا کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس معاملے میں انہوں نے سوویت یونین سے سبق سیکھا ہے۔ کئی چینی ماہرین کا خیال ہے کہ فوجی طاقت کی کمزوری سے ان کا کچھ زیادہ نہیں بگڑ سکتا، لیکن اگر معاشی حالات خراب ہوں اور عوام مسائل کا شکار ہوں تو نظام کو خطرہ ہے۔ سوویت یونین کی تباہی کی ایک وجہ بے تحاشا فوجی اخراجات بھی تھے۔ چینی لیڈر اس غلط تجربے سے بچنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ اپنی فوجی طاقت بڑھانے یا فوج کو جدید بنانے کا کام بھی آہستگی اور سلیقے سے کر رہے ہیں۔ اس سست رفتار اور محتاط سلسلۂ عمل میں لیو کے خیال میں امریکہ کے برابر ہونے کیلئے ان کومزید تیس سال درکار ہوں گے۔ کرنل لیو کی یہ رائے ہے کہ ثقافتی لحاظ سے امریکہ کے برابر ہونے کیلئے بھی چین کو کم از کم تیس سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ گویا تیس سال میں چین جی ڈی پی بڑھائے گا، جس کے بعد وہ اس قابل ہو گا کہ فوج پر امریکہ کے برابر خرچ کر سکے، جس کے بعد اسے اپنی فوج کو جدید بنانے کیلئے اتنا ہی عرصہ درکار ہو گا۔ ان دو چیزوں میں امریکہ کی ہمسری کے بعد کلچر، زبان اور دنیا میں اپنی ساکھ بنانے کا عمل شروع ہو گا، جو تیس سال سے کم عرصے میں نتائج نہیں دے سکتا۔ لیو کا کہنا ہے کہ پانچ سو برسوں میں مختلف عالمی طاقتیں ابھرتی رہی ہیں۔ سولہویں صدی میں پرتگال، اس کے بعد ہالینڈ، اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برطانیہ، بیسویں صدی میں امریکہ اور اکیسویں صدی میں چین کی باری ہے، مگر یہ صبر آزما کام ہے۔
پروفیسر لیو اگرچہ فوجی پس منظر رکھتے ہیں، لیکن ان کی رائے کو زیادہ بڑے فوجی حلقوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ کئی ایک بڑے فوجی تجزیہ کاروں نے لیو کے تجزیے اور نتائج سے اختلاف کیا ہے‘ لیکن اگر اس باب میں فوجی حلقوں میں اتفاق ہو پھر بھی چین میں اس طرح کے اہم معاملات میں فیصلہ سازی کا اختیار سویلین کے پاس ہے۔ چین کے سویلین رہنما ان مسائل اور مشکلات سے آگاہ ہیں، جو ان کو داخلی محاذ پر درپیش ہیں۔ ان مشکلات کے مقابلے کیلئے ان کو داخلی فوکس اور عالمی استحکام کی ضرورت ہے تاکہ ترقی کا عمل آگے بڑھتا رہے۔ بیرونی سطح پر ایک سخت گیر اور جارحانہ مؤقف ان کو اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے پر مجبور کر سکتا ہے، جس کی خطرناکیوں سے حکمران اشرافیہ آگاہ ہے۔ لیو نے تین چیزوں کی نشاندہی کی، مگر کچھ دوسرے فیصلہ کن عناصر بھی ہیں، جن کو لیو نے نظر انداز کیا ہے۔ ان میں ایک بڑا عنصر عالمی برادری میں چین کی بطور سپر طاقت قبولیت اور اثرورسوخ ہے، جس میں امریکہ کے مقابلے کیلئے اسے کئی پاپڑ بیلنے ہوں گے۔ امریکہ کے سپر پاور بننے، اور بطور سپر پاوردنیا میں بالا دستی قائم کرنے کا ایک ذریعہ اس کے عالمی اتحاد تھے۔ ان عالمی اتحادوں کی ایک مثال نیٹو ہے، جس میں29ممالک ہیں۔ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ ‘جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ دفاعی معاہدے ہیں۔ کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اور انگلینڈ کے ساتھ ''فائیو آئیز انٹیلی جنس‘‘ کی شراکت کا معاہدہ اور بندوبست ہے۔ کسی ملک کے سپر پاور بننے کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک وقت میں کئی خطوں اور براعظموں پر اپنا معاشی اور فوجی غلبہ قائم کرے اور برقرار رکھے۔ امریکہ نے سینکڑوں فوجی اڈے قائم کرکے اس ضرورت کو پورا کیا۔ اس کیلئے چین کو لمبا عرصہ درکار ہوں گے۔
ایک سپر پاورکے لیے داخلی استحکام بنیادی شرط ہے۔ چین کے لیے اندرونی سیاسی حالات، جمہوری حقوق اور شہری آزادیاں ایک بہت بڑا چیلنج ہیں۔ چین کو داخلی محاذ پر جن گمبھیر مسائل کا سامنا ہے، ان میں ایک کرپشن بھی ہے۔ اگرچہ کرپشن کی روک تھام کے لیے سخت سزائوں کا رواج ہے، لیکن اس پر اس طرح قابو نہیں پایا جا رہا، جس کی ضرورت ہے۔ آزاد پریس کے بغیر کسی بھی ملک میں کرپشن کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔ ان چیزوں کے علاوہ قانون کی حکمرانی، آزاد عدلیہ اور معاشی انصاف بھی ایک ایسے ملک کے لیے لازم ہے، جو دنیا پر بطور سپر پاور حاکمیت کا خواہش مند ہو۔