پاکستان میں جمہوریت کا سفر بڑے ناہموار راستوں سے ہو کرگزرا ہے۔ ستر سال میں کئی بار جمہوریت کی بساط بچھائی اور لپیٹی گئی مگر گزشتہ بارہ تیرہ سال سے یہ سفر ہموار ہے۔ لگتا ہے جمہوریت کو بطور نظام سماج اور طاقتور حلقوں میں شرف قبولیت مل رہا ہے۔ یہ خوش آئند ہے مگر تصویرکا دوسرا رخ بھی ہے اور یہ رخ دیکھنے کیلئے کچھ عالمی رپورٹوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
عالمی رپورٹوں کے بارے میں ہمارا رد عمل عموماً دو طرح کا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات ہم رپورٹ تیار کرنے والے ادارے کو جانب دار اور متعصب قرار دے کر نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر ہم ایسی رپورٹوں کو کسی دشمن ملک کی سازش قرار دے کر مسترد کر دیتے ہیں۔ دشمن ملک کی سازش میں اکثر اوقات امریکہ، اسرائیل یا بھارت کا نام آتا ہے اور جو رپورٹ ناپسند ہو وہ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی کارستانی قرار پاتی ہے۔ ہم فریڈم ہائوس جیسے ادارے کی رپورٹ کو اس لیے نظرانداز کر دیتے ہیں کہ یہ امریکہ میں قائم ہے۔ یہی ہم جمہوریت کے انڈیکس کی رپورٹوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ انڈیکس اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ تیار کرتا ہے، جو برطانیہ میں قائم ہے‘ مگر اس ادارے کی 2019 کی رپورٹ کی ترتیب و تشکیل کچھ ایسی ہے کہ ہمارے پاس اس کو مستردکرنے کا کوئی بہانہ نہیں۔ جہاں تک دشمن ممالک کی سازش کی بات ہے تو ان ممالک کو اس انڈیکس میں جو مقام دیا گیا ہے، اس کی وجہ سے وہ خود اپنی فکر میں مبتلا ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ آزاد دنیا کا رہنما اور جمہوریت کا چیمپئن ہونے کا دعویدار رہا ہے مگر 2019 کی رپورٹ میں اس کا نام اس جمہوری انڈیکس کے پہلے دس یا بیس ممالک میں شامل نہیں ہے، بلکہ اس انڈیکس میں اس کا پچیسواں نمبر ہے۔ ہم اس سازش کا سہرا اسرائیل کے سر باندھ سکتے تھے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس فہرست میں خود اسرائیل کا نمبر اٹھائیسواں ہے۔ مسلم دنیا میں ملائیشیا واحد ملک ہے، جو پہلے پچاس ممالک کی فہرست میں شامل ہے، اور تینتالیسویں نمبر پرآتا ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا نمبر ایک سو آٹھ ہے۔ ہماری نسبت باقی دنیا کا رد عمل ایسی رپورٹوں پر مختلف اور مثبت ہوتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اس طرح کی رپوٹوں کو کسی دشمن ملک کی سازش قرار دینے کے بجائے اس سے سبق سیکھتے، رہنمائی حاصل کرتے ہیں، اور اصلاح کیلئے اقدامات کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر غوروفکر کرتے ہیں کہ کوسٹا ریکا اور یوراگوئے جیسے ممالک کیسے پہلے بیس بہترین جمہوریت والے ممالک میں شامل ہوئے۔ اس رپورٹ کی تیاری کیلئے مختلف طریقوں اور ذرائع سے معلومات جمع کی جاتی ہیں۔ ان ذرائع میں ہر ملک کے سرکاری اعدادوشمار، براہ راست عوامی سروے، سوالات جوابات اور ریسرچ شامل ہیں۔ یہ رپورٹ شفاف طریقہ کار کے تحت تیار کی جاتی ہے، جس میں پیش کیے گئے اعدادوشمارکی دیگر ذرائع سے تصدیق یا تردیدکی جا سکتی ہے۔ جمہوریت کا یہ انڈیکس بناتے وقت پانچ عناصر کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کیا ایک جمہوریت میں مختلف طبقات کے درمیان توازن ہے، اور ان کو اجتماعی طور پر ملکی معاملات میں شرکت کے مساوی مواقع حاصل ہیں۔ اکثر ممالک میں سیاست اور فیصلہ سازی عموماً حکومتی یا سرکاری حلقوں تک محدود ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی غیرحکومتی حلقے، تنظیمیں اور گروہ اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ حکومت کے فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
2019 کے جمہوریت انڈیکس میں جو پہلے دس ممالک ہیں، ان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ان ممالک میں سماجی و معاشی عدم مساوات نسبتاً کم ہے۔ ان ممالک میں دولت اور طاقت کے زور پر عام لوگوں کو ہانک کر اپنی مرضی پر چلانے کے امکانات کم ہیں۔ اس کے برعکس جو ممالک اس انڈیکس میں بہت ہی نچلی سطح پر آتے ہیں، ان میں قدر مشترک یہ ہوتی ہے کہ ان کے اندر سماجی اور معاشی انصاف نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے بہت زیادہ معاشی اور سماجی نا ہمواریاں ہوتی ہیں۔
انڈیکس میں دوسرا عنصر شہری آزادیاں ہیں۔ جن ممالک میں شہری آزادیاں محفوظ ہوتی ہیں، وہاں اس بات کی آئینی ضمانت ہوتی ہے کہ وہاں کی حکومتیں شہری آزادیوں کو سلب نہیں کر سکتیں۔ کسی بھی طریقے سے شہری آزادیوں کو محدود نہیں کر سکتیں۔ شہری آزادیاں ایک وسیع اصطلاح ہے، جس میں ضمیر کی آزادی، میڈیا کی آزادی، اظہارِ رائے کی آزادی، اجتماع کی آزادی، قانون کے تحت مساوی سلوک، جان و مال کے تحفظ کی ضمانت جیسے حقوق اور آزادیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ جمہوریت کے انڈیکس میں پہلے دس یا بیس نمبروں پر آنے والے ملکوں میں آئینی، قانونی اور عملی طور عوام کو یہ تمام حقوق اور آزادیاں حاصل ہوتی ہیں۔ ان آزادیوں کا شفاف انتخابات اور سچی جمہوریت سے گہرا تعلق ہے۔ جس ملک میں جتنی زیادہ اظہار رائے کی آزادی ہے، لوگوں کے جان و مال کو تحفظ حاصل ہے، خوف سے پاک فضا ہے، وہاں لوگ اتنا ہی زیادہ آزادی سے اپنے ضمیر کے مطابق حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں۔ شہری آزادیوں کی عدم موجودگی میں جمہوریت طاقتور، بااثر اور مراعات یافتہ طبقات کے درمیان ایک ایسا میچ ہوتا ہے، جس میں عوام کا کردار تماش بین سے زیادہ نہیں ہوتا حالانکہ جمہوریت میں اصل اور بنیادی کردار عوام کا ہوتا ہے، جس کے بغیر کسی بھی نظام یا بندوبست کو حقیقی جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔
جمہوریت کے انڈیکس کا تیسرا عنصر عوام کی سیاست میں دلچسپی اور اس میں سرگرمی سے حصہ لینا ہے۔ بہت سارے ممالک میں عوام بظاہر ایسا کرتے نظر آتے ہیں، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ محض انتخابات میں ووٹ دینا سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینا نہیں ہوتا۔ جن ممالک میں عوام بہت زیادہ غربت اور جہالت کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں، وہاں ان کی سیاسی سوچ یا سرگرمی بھی آزاد نہیں ہوتی۔ جمہوریت کا انڈیکس ترتیب دیتے وقت کسی ملک کے سیاسی کلچر کو بھی بطور عنصر ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔
جمہوریت کے انڈیکس میں ایک فیصلہ کن عنصر حکومتی کارکردگی بھی ہوتی ہے۔ ایک جمہوری حکومت ہی انتخابی عمل کے شفاف ہونے اور اس کے نتیجے میں ایک سچی جمہوریت قائم ہونے کی ضمانت دے سکتی ہے۔ جمہوریت کے اپنے چار بنیادی عناصر ہوتے ہیں۔ آزاد اور شفاف انتخابات کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا آئینی عمل، عوام کی سیاسی اور سماجی زندگی میں سرگرم شرکت، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی۔ ان سارے عناصر کا بیک وقت ہونا ایک سچی جمہوریت کیلئے ناگزیر ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال میں گزشتہ تیرہ سال سے انتخابی عمل میں حکومت منتقل ہو رہی ہے، عوام کی سماجی و سیاسی عمل میں شرکت اگرچہ اس پیمانے پر نہیں، لیکن کسی حد تک موجود ہے۔ پاکستان کے جمہوریت انڈیکس لسٹ میں پہلے سو نمبروں میں بھی نہ آنے کی ایک وجہ شہری آزادیوں کی کمی اور دوسرا بڑا عنصر قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے۔ تیسرا عنصر سماجی و معاشی ناہمواری ہے۔ ان تین محاذوں پر بنیادی تبدیلیوں اور انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ارسطو نے صدیوں پہلے کہا تھا: جمہوریت میں غریب امیروں سے زیادہ طاقتور ہوں گے، چونکہ وہ ان سے تعداد میں زیادہ ہیں، اور جمہوریت میں جن کی تعداد زیادہ ہے، ان کی مرضی مقدم ہو گی۔ یہ بات آج بھی اصولی طور پر درست ہے۔ جمہوریت کا فی الحال کوئی معلوم متبادل نہیں ہے۔ یہ واحد نظام ہے، جس میں غریب کی آواز سنی یا سنائی جا سکتی ہے‘ مگر ارسطو کی جمہوریت سے مراد حقیقی اور سچی جمہوریت ہے۔ جمہوریت کے نام پر محض ڈرامہ بازی اور فریب کاری ہو رہی ہو تو وہاں غریب کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ جمہوریت کا انڈیکس ایک اچھی دستاویز ہے، جس پر غوروفکر کیا جائے تو سیکھنے کیلئے کئی اسباق ہیں۔