ہمارے خطے سمیت دنیا کے بیشتر حصوں میں تاریخ کے کسی نہ کسی دور میں بادشاہتیں رہی ہیں۔ دنیا کے کچھ حصوں میں شاہی نظام ہمارے اس خطے سے کئی زیادہ طویل رہا ہے۔
فرانس اور انگلستان جیسی جمہوریتیں طویل اور جابرانہ شاہی نظاموں سے گزری ہیں۔ ماضی کی یادگارکے طور پرآج بھی کئی یورپی ممالک میں علامتی بادشاہتیں موجود ہیں‘ لیکن عملی طور پر ان ملکوں نے بادشاہتوں کا نظام اور اس کی باقیات کو مٹا کر رکھ دیا۔ ہمارا مسئلہ اس کے برعکس ہے۔ ہمارے ہاں علامتی بادشاہ تو نہیں، لیکن حکمرانوں کے مزاج اور طرزِ عمل آج بھی بادشاہوں جیسے ہیں۔ جمہوری نظام کے اندر بسا اوقات منتخب حکمران بھی قدیم بادشاہوں کی طرح کے شاہی اعلانات یا اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے کچھ قیدیوں کی رہائی کا اعلان کر کے ان نیک دل بادشاہوں کی یاد تازہ کر دی۔ اس سے کچھ قیدیوں اور خصوصاً ان قیدی عورتوں کے دکھ ضرور کچھ کم ہوئے ہوں گے، جن کو معمولی جرائم کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ یہ ایک احسن اقدام ضرور ہے، مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلے کا حل نظام انصاف اور جیلوں کے نظام میں بنیادی تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں دن بدن جیلوں کی حالت بد سے بدتر اور قیدیوں کے مسائل سنگین سے سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو مجرموں کے بارے میں ایک متعصبانہ سوچ پائی جاتی ہے۔ مجرم سے ہمدردی کے بجائے نفرت کا رجحان غالب ہے۔ اس رجحان کی وجہ سے قیدی کے جائز مسئلے پر بھی ہمدردانہ غور نہیں ہوتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جیلوں کی آبادی کے پاس ووٹ کی طاقت، لابی یا اثرورسوخ نہیں ہے، جس کے بغیر ہمارے ہاں کوئی کام نہیں ہوتا۔ تیسرا‘ ہمارے ہاں یہ بات واضح نہیں کہ قید کی سزا کا مطلب یا مقصد کیا ہے؟ قانون اور فلسفے میں قید کی سزا کا مقصد مجرم کو آزادی سے محروم کرنا ہے‘ مجرم سے غیر انسانی سلوک کرنا نہیں ہے۔
پاکستان کی جیلیں قید خانے نہیں، عقوبت گاہیں ہیں۔ ان عقوبت خانوں کو جیل خانوں میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے فرسودہ سوچ میں تبدیلی ضروری ہے۔ جرم و سزا کے بارے میں ہماری سوچ صدیوں پرانی ہے۔ اس باب میں ہمارے ارد گرد کی دنیا ہم سے کوسوں میل آگے ہے۔ ہم تاریخ کے تعزیراتی دور میں کھڑے ہیں جب حکمران یہ سمجھتے تھے کہ سماج سے جرائم کو ختم کرنے کا واحد راستہ سخت اور عبرت ناک سزائیں ہیں۔ یہ بہت پرانا تصور ہے۔ جرم و سزا کے جدید تصور‘ جو آج بیشتر ترقی یافتہ دنیا میں مقبول ہو رہا ہے، میں سزا پر زور دینے کے بجائے مجرم کی اصلاح پر زور دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک کامیاب مثال ناروے ہے۔ ناروے میں بھی ایک زمانے میں ہماری طرح فرسودگی پر مبنی جرم و سزا کا نظام رائج تھا۔ 1970 سے ناروے نے اپنے نظام میں تبدیلی کا آغاز کیا، اورآہستہ آہستہ سخت تعزیراتی نظام کو اصلاحی یا بحالی کے نظام میں بدل دیا۔ اس اصلاحی نظام کی برکت سے اس وقت ناروے میں مجرم کی طرف سے دوبارہ جرم کرنے کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ اس وقت ناروے کی جیلوں میں قیدیوں کی کل تعداد چار ہزار سے کم ہے۔ ان میں بھی بیس فیصد وہ لوگ ہیں، جو ناروے سے باہر پیدا ہوئے اور ہجرت کرکے یہاں آباد ہو گئے۔ ناروے میں سزائے موت یا عمرقید کی سزا نہیں ہے۔ کسی جرم میں قید کی زیادہ سے زیادہ سزا اکیس سال ہے، جس میں جج بوقت ضرورت اضافہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس وقت سزا اور جیلوں کا ''ناروے ماڈل‘‘ دنیا میں سب سے بہترین مانا جاتا ہے۔ یہ ماڈل اس قدر مقبول ہے کہ پوری ترقی یافتہ دنیا میں اس کی تقلید کی کوشش ہو رہی ہے۔ تعزیراتی کی جگہ اصلاحی تصور کو اپناتے ہوئے ناروے میں معمولی جرائم والے مجرم کو جیل کی سزا کے بجائے ''کمیونٹی سروس‘‘ یعنی معاشرے میں رہ کر سزا کاٹنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
جہاں تک جیلوں کا تعلق ہے تو ان کا انتظام وانصرام بھی مثالی اور قابل رشک ہے۔ جیل میں موجود آبادی کو وہی حقوق ومراعات دی جاتی ہیں، جو جیل سے باہر عام لوگوں کو مہیا کی جاتی ہیں۔ قیدیوں کوصحت و تعلیم کے حقوق حاصل ہیں۔ قیدی کے چال چلن کے پیش نظر قیدی کو بتدریج سخت پابندیوں سے نرم پابندیوں کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ جیلوں میں تشدد اور غیرانسانی سلوک کا کوئی تصور تک نہیں کر سکتا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور عام شہریوں کو جیلوں کا جائزہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے۔ تعزیراتی نظام سے اصلاحی نظام کی طرف پیش قدمی اور قیدیوں سے انسانی سلوک کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج ناروے میں جرائم کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ یہ ایک قابل رشک اورکامیاب تجربہ ہے، جس سے پوری دنیا استفادہ کر سکتی ہے۔
امریکہ ایک جدید اور ترقی یافتہ ملک ہے، لیکن اس کی جیلوں کی حالت کوئی زیادہ قابل رشک نہیں ہے۔ آج امریکی سیاست دان اور نظام انصاف سے منسلک دوسرے اہل کار ناروے کے نظام کو بڑی دلچسپی اور رشک سے دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ ناروے میں اپنے قانون سازوں اور جیل کے نظام سے وابستہ افراد کو مطالعاتی دوروں اور تربیت کیلئے بھیج رہا ہے تاکہ اس کے قابل رشک اور مثالی نظام سے استفادہ کرکے امریکی جیلوں کی حالت بہتر بنائی جائے۔ ناروے کی ہیلڈن جیل کو دنیا کی بہترین جیل کہا جاتا ہے۔ اس جیل میں ناروے ایک قیدی پر سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر خرچ کرتا ہے۔ امریکہ کی بدنام زمانہ پنسلوینیا جیل میں ایک قیدی پر سالانہ بیالیس ہزار سات سو ستائیس ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ناروے جیسے جیلوں کے نظام کو کامیابی سے چلانے کیلئے وسائل کی ضرورت ہے جبکہ یہ ہماری حکمران اشرافیہ کا پسندیدہ ڈائیلاگ ہے کہ جناب ہم تو غریب ملک ہیں۔ ہمارے عوام کو روٹی، کپڑے اور مکان جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں ہیں۔ ہمارے پاس یہ گنجائش کہاں کہ قیدیوں کے نخرے اٹھاتے پھریں، اور ان پر وسائل خرچ کریں۔ یہ ایک معقول بہانہ ہے، مگر ہے محض بہانہ ہی، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے مسائل حل کرنے کیلئے وسائل سے زیادہ ارادے و عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ ناروے سے کئی گنا زیادہ امیر ملک ہے۔ اگر امریکیوں کو ناروے کی جیلیں ڈزنی ورلڈ کی طرح لگتی ہیں، تو اس کی وجہ پالیسی کا فرق ہے، جس کے تحت ناروے کے سیاستدانوں نے یہ طے کیا کہ جیلوں پر کتنا پیسہ خرچ کرنا ہے، اور قیدی کو کیسے انسانی ماحول مہیا کرنا ہے‘ لیکن اگر کچھ دیر کیلئے حکمرانوں کے وسائل کی کمی کے روایتی بہانے کو درست مان بھی لیا جائے تو اس کے متبادل اور سستے طریقے بھی موجود ہیں، جو ایک غریب ترین ملک بھی اپنا سکتا ہے۔
اس انتہائی سستے اور کامیاب طریقے کی ایک مثال بھارت کے شہر جے پورمیں قائم سنگانر جیل ہے ۔ یہ جیل 1950 میں قائم ہوئی اور اس میں وہ قیدی رکھے جاتے ہیں، جو کچھ عرصہ عام جیلوں میں قید کاٹ چکے ہوتے ہیں اور اچھے چال چلن کا ثبوت دے چکے ہوتے ہیں۔ اس جیل میں قیدیوں کو صرف رہائش دی جاتی ہے۔ اپنی ضروریات اور گزر اوقات کے لیے قیدیوں کو دن کے وقت جیل سے باہر جاکر عام لوگوں کے ساتھ کام کاج کرنا پڑتا ہے۔ اس جیل میں واحد پابندی یہ ہے کہ ہر شام قیدیوں کی حاضری لگتی ہے۔ اس جیل میں قیدی کے لیے کوئی سلاخیں یا دیواریں نہیں ہیں۔ یہ دنیا کی واحد جیل ہے، جس سے کئی قیدی باہر نکلنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا ''کسی قوم کے بارے میں صحیح اندازہ اس کی جیلیں دیکھ کر ہوتا ہے، اور کسی قوم کو اس بات پر جج نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے بڑے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے، دیکھنے کی بات یہ ہے اس کا اپنے چھوٹے لوگوں سے سلوک کیسا ہے‘‘۔