پولیس میں سیاسی مداخلت عام ہو چکی ہے۔ پنجاب پولیس میں ہونے والے تبادلے اس بات کی علامت ہیں کہ پولیس کے محکمے میں کس قدر سیاسی مداخلت ہے، جس کے نتیجے میں عوام کے جان و مال محفوظ نہیں رہے۔
موٹروے پر خاتون سے زیادتی کا واقعہ انتہائی شرمناک ہے۔ ہائی وے پر شہریوں کی حفاظت کا موثر نظام ہی موجود نہیں ہے۔ معصوم مسافروں کو سنگین جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت محکمہ پولیس کی ساکھ بحال کرے‘ اس میں کسی بھی مداخلت کا راستہ روکے۔ امن و امان حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ پولیس کا شفاف نظام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پولیس فورس نظم و ضبط کے بغیرکام نہیں کر سکتی۔ اس وقت تک عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا، جب تک پولیس فورس میں پیشہ ورانہ مہارت نہ ہو۔ مذکورہ بالا خیالات حزب اختلاف کے کسی رہنما کے نہیں، پاکستان کے معزز و محترم چیف جسٹس کے ہیں، جن کا اظہار انہوں نے گزشتہ ہفتے جوڈیشل اکیڈمی میں کیا۔ ان کی تقریر کا خلاصہ اگر اپنے الفاظ میں پیش کیا جائے تو انہوں نے جن مسائل کا ذکرکیا‘ ان میں پہلے نمبر پر پولیس میں سیاسی مداخلت ہے‘ دوسرے نمبر پر پولیس فورس میں تربیت اور نظم و ضبط کی کمی ہے‘ تیسرا بڑا مسئلہ شفافیت کی کمی ہے، اور چوتھا مسئلہ نااہلیت ہے۔
چیف جسٹس صاحب کا یہ فرمان دیکھ کر 2016 کی ایک رپورٹ یاد آتی ہے‘ جس کو ''ورلڈ انٹرنل سکیورٹی اینڈ پولیس انڈکس 2016‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ انڈکس انٹرنیشنل سائنس ایسوسی ایشن، اور انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔ اس رپورٹ میں دنیا کے ایک سو ستائیس ممالک میں اندرونی سکیورٹی کی صورتحال اور پولیس فورس کی ساکھ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے کے دوران جن سوالات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے‘ ان میں پہلا یہ ہے کہ کوئی ملک اپنی اندرونی سکیورٹی یعنی عوام کے جان و مال کے تحفظ، اور جرائم کی روک تھام کیلئے کتنے وسائل مختص کرتا ہے۔ سالانہ بجٹ میں پولیس فورس اور داخلی سکیورٹی کیلئے کتنی رقم رکھی جاتی ہے۔ دوسرا سوال: کیا ان وسائل کو موثر اور مناسب انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اور تیسرا سوال:کیا اس ملک کا عام آدمی اپنی پولیس کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے، اور اسے پولیس پر اعتماد ہے۔ چوتھا سوال یہ ہے کہ کسی ملک کی اندرونی سکیورٹی کی کیا کیفیت ہے اور اس کو کس قسم کے خطرات لاحق ہیں۔ داخلی سکیورٹی کے لحاظ سے شمالی امریکہ اور یورپ کے ممالک پہلے دس بہترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں جبکہ افریقہ کے سب صحارن ممالک سب سے نیچے آتے ہیں۔ دنیا میں بدترین پولیس کے اعتبار سے پہلے پانچ ممالک نائیجیریا، کانگو، کینیا، یوگنڈا اور پاکستان ہیں۔ فہرست میں نائیجیریا سب سے نیچے ہے جس کی وجہ اس ملک میں دہشتگردی، بغاوتوں کا عنصر ہے، لیکن اصل اور بڑی وجہ پولیس میں سیاسی مداخلت اور وسائل کی کمی یا وسائل کا ناجائز استعمال ہے۔ نائیجیریا میں ہر ایک لاکھ شہری کیلئے صرف 219 پولیس والے ہیں۔ فہرست میں سب سے نیچے آنے والے ان پانچ ملکوں کی پولیس میں قدر مشترک یہ ہے کہ اس میں سیاسی مداخلت ہے۔ پولیس میں کرپشن اور رشوت عام ہے، اور ڈسپلن اور تربیت ناقص ہے۔ ان ملکوں کے سروے کے مطابق اسی فیصد شہریوں نے تسلیم کیاکہ وہ گزشتہ ایک سال کے دوران پولیس کو مختلف وجوہ کی بناپررشوت دینے پرمجبورہوئے یا ان کے سامنے پولیس نے اپنے ذاتی مفادکیلئے سرکاری حیثیت کاغلط استعمال کیا ہے ۔ انڈیکس میں پولیس سروس کے اعتبار سے جن ممالک کوسب سے بہترین قراردیا گیا ہے ، ان میں فن لینڈ، ڈنمارک، آسٹریا اورجرمنی وغیرہ شامل ہیں۔
بد ترین پولیس سروس کے باب میں پاکستان کوچارافریقی ممالک کے ساتھ پانچویں نمبرپردکھانے پرپاکستان میں کچھ لوگوں نے حیرت اورکچھ نے غصے کا اظہارکیا تھا حالانکہ انڈیکس بنانے والوں نے اپنی رپورٹ میں بڑی تفصیل سے اعدادوشمارپیش کیے ہیں، اوروہ وجوہ بیان کی ہیں، جن کی بنیاد پریہ درجہ بندی کی جاتی ہے۔ یہ رپورٹ چارسال پہلے آئی تھی۔ اگراس پرناک بھوں چڑھانے یا اسے نظراندازکرنے کے بجائے مثبت سوچ کے تحت استفادہ کیاجاتا، اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت گواراکی جاتی اوراصلاح احوال کی کوئی سبیل نکالی جاتی توآج صورتحال شایدمختلف ہوتی۔ اگرافق تھوڑاساوسیع کیاجائے اوردنیا کے ان بیس ممالک کاجائزہ لیاجائے ، جن کی پولیس سروس کودنیا کی بہترین سروس سمجھاجاتا ہے توبہت سارے واضح سبق ملتے ہیں۔ ان ممالک میں کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا وغیرہ کوشامل کیاجاسکتا ہے ۔ ان ممالک کی پولیس تھوڑے فرق کے ساتھ برطانوی ماڈل پرچلتی ہے ۔ ان میں قدرمشترک یہ ہے کہ پولیس میں سیاسی مداخلت نہیں ہے جس کامطلب یہ ہے کہ پولیس کے معاملات میں سیاستدان، حکومتی وزرا، سرکاری اہلکاریا بیوروکریٹ کوئی مداخلت نہیں کر سکتے۔ دوسری چیزیہ ہے کہ ان ممالک میں پولیس خودمختارہے ۔ پولیس کے نظم ونسق کیلئے پولیس بورڈز، پولیس کمیشنز، ٹریبونلزاور سویلین پولیس کمیشنزہوتے ہیں۔ شہریوں کی شکایات کی فوری سماعت اورازالے کے لیے میکنزم موجود ہیں۔ ان ملکوں کے کامیاب پولیسنگ نظام سے دوسرے ممالک فائدہ اٹھارہے ہیں۔ امریکہ کا لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ اپنے افسروں کی تربیت کیلئے کینیڈاکے پولیس آفیسرز کی خدمات لیتا ہے ۔ پولیس کی کارکردگی کے لیے تربیت کے طریقہ کاراورماڈل کابہت اہم کردارہوتا ہے ۔
پاکستان میں کسی بھی شعبے میں جب اصلاح کی بات ہوتوارباب اختیاروسائل کی کمی کارونا شروع کردیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ وسائل کے اندررہ کرمناسب قانون سازی سے بہت سارے معاملات درست کیے جاسکتے ہیں۔ ہرمسئلہ مالی وسائل سے حل نہیں ہوتا‘ اس کیلئے بسا اوقات عقل ودانش اورمناسب منصوبہ بندی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ کے پاس فن لینڈ سے کہیں زیادہ مالی وسائل ہیں‘اورامریکہ اپنی پولیسنگ پرفن لینڈ سے کہیں زیادہ خرچ بھی کررہا ہے مگرامریکہ کے مقابلے میں فن لینڈ کی پولیس کہیں زیادہ بہترہے ۔ مثال کے طور پرامریکہ میں آئے دن پولیس کی طرف سے عام شہری کوگولی مارنے کی خبریں آتی رہتی ہیں، جس سے عوام میں پولیس کی ساکھ اور اعتماد میں کمی آتی ہے ۔ فن لینڈ میں برسوں ایسی کوئی خبرنہیں آتی۔ اس کی وجہ وہاں پولیس کی تربیت کاماڈل ہے ، جس کے تحت پولیس آفیسرزکومشکل صورت حال سے گولی چلائے بغیرنمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔
پاکستان میں پولیس فورسز میں اصلاح احوال کے کئی طریقے موجود ہیں۔ لیکن اس باب میں کئی دفعہ ایسی صورت بھی درپیش ہوسکتی ہے، جب اصلاح احوال کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ اس صورت میں کسی ادارے یا محکمے کوجڑسے اکھاڑکرازسرنوتعمیرکرنے کا آپشن سب سے اچھاآپشن ہوتا ہے ۔ یعنی جہاں آوے کا آوا ہی بگڑاہوا ہو وہاں کبھی کبھارانقلابی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ یہ کام روس کی ایک پڑوسی ریاست جارجیامیں ہواتھا۔ بیس سال پہلے جارجیا کی پولیس کودنیا کی کرپٹ اورنااہل ترین پولیس سمجھاجاتا تھا۔ 2004میں وہاں نئی حکومت آئی تواس نے فیصلہ کیا کہ پولیس اس قدربدعنوان ہوچکی ہے کہ اس میں اصلاح ایک ناممکن کام ہے ؛ چنانچہ انہوں نے پوری پولیس فورس کوہی ختم کرکے ازسرنوبنانے کا فیصلہ کیا۔ نئی بھرتی کے تین سالہ پروگرام کے تحت تیس ہزارآفیسرزکوبرخاست کرکے ان کی جگہ نئی بھرتی کا عمل شروع کیاگیا اورنسبتاًچھوٹی، اعلی تعلیم یافتہ، بہترتربیت یافتہ اورکرپشن سے پاک فورس تیارکی گئی۔ پولیس میں مکمل اصلاح کے دس سال منصوبے کے تحت تین اقدامات کرکے اس کودنیا کی بہترین پولیس میں تبدیل کیاجاسکتا ہے ۔