یورپ اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں دائیں بازو کی قوتیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ کئی ایک دانشور اس کا مقابلہ بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی سے کر رہے ہیں۔ فرانس میں کل تک لفظ فاشزم ایک ناپسندیدہ بلکہ قابلِ نفرت لفظ تھا۔ یہ لفظ ایک کلنک کی مانند تھا۔ یورپ کی تاریخ کے تناظر میں یہ لفظ ظلم، جبر اور نسل پرستی کی علامت سمجھا جاتا تھا مگر فرانس کے باضمیر شہریوں کو ایسا وقت بھی دیکھنا پڑا کہ گزشتہ سال اس کی ایک عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ فرانس میں سیاستدان قانونی طور پر اپنے آپ کو فاشسٹ کہہ اور کہلوا سکتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے، جس کے دور رس اثرات ہوں گے۔ یورپ کے بیشتر ممالک میں تاریخی طور پر فاشسٹ پارٹی بنانے یا فاشزم کا پرچار کرنا جرم رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یورپ میں دائیں بازو کے شدت پسند رہنما فاشزم کا لفظ استعمال کیے بغیر فاشزم کے نظریات کا پرچار کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود لوگوں کی نفرت کا شکار ہونے کے بجائے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ مختلف ممالک میں پائے جانے والے فاشسٹوں کے درمیان کئی باتوں پر اختلاف رہا ہے لیکن ان میں ایک قدر مشترک یہ رہی ہے کہ یہ سب جمہوریت کے سخت دشمن رہے ہیں۔ دوسری قدر مشترک یہ رہی ہے کہ یہ لوگ لبرل ازم کے کٹر دشمن رہے ہیں اور تیسری قدر مشترک یہ ہے کہ اپنے وقت کے مروجہ معاشی نظام کو بطور نظام شک و شبے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ خواہ یہ سرمایہ داری نظام ہو، فلاحی ریاست ہو یا پھر اشتراکیت، ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ قوم کو مذہبی یا نسلی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور قوم کو تمام شہریوں کی شناخت کی علامت قرار دیتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے عوام سے ایک مختلف قسم کے انقلاب کا وعدہ کیا۔ ان کے نزدیک یہ ایک ایسا انقلاب تھا، جس نے لبرل جمہوریت کو ان کی مرضی کے ایک مخصوص مطلق العنان نظام میں بدلنا تھا۔ اس نظام کا مقصد نسلی اعتبار سے ایک خالص و برتر قوم کی بھلائی کرنا تھا، جو ایک عظیم لیڈر کے تحت متحد ہو۔
معاشی اور سماجی نا آسودگی کا جو عمل یورپ میں موجود تھا، اس کو پہلی جنگ عظیم نے مکمل کیا۔ جنگ نے لاکھوں یورپی لوگوں کو معذورکیا، ذہنی صدمات پہنچائے‘ ہلاک کیا اور پورے بر اعظم کو معاشی اور جسمانی طور پر تباہ و برباد کر دیا۔ جب جنگ اپنے خوفناک اختتام کو پہنچی تو ایک پورا طرزِ زندگی اس کے ساتھ غائب ہو گیا۔ جنگ کے بطن سے ہولناک تباہی نے جنم لیا، جس نے دنیا کا سیاسی نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ اس عمل میں بڑی بڑی ریاستیں اور سلطنتیں تباہ ہو گئیں۔ ان عظیم سلطنتوں میں یورپ کی آسٹرو اینگیرین، جرمن ایمپائر، سلطنت عثمانیہ اور روس کی سلطنت شامل تھیں۔ اس تباہی کے بطن سے نئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں نے جنم لیا۔ ان چھوٹی چھوٹی نوزائیدہ ریاستوں کے کئی گمبھیر مسائل تھے۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان کو جمہوریت کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ان کے اندر تکثریت تھی مگر جنگ کے خوفناک تجربے کے نتیجے میں یہ مل جل کر رہنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے تھے۔ ان حالات میں جنگ عظیم کے خاتمے سے امن و ترقی کے بجائے معاشی و سماجی مسائل کا طوفان امڈ آیا۔ لاکھوں فوجیوں کو سماج میں دوبارہ ضم کرنے سے لے کر‘ دائیں اور بائیں بازو کے جنگجو گروہوں کے درمیان تصادم‘ فیکٹریوں پر مزدوروں کے جبری قبضے، آسٹریا اور جرمنی کی شکست کی ذلت کے مقابلے جیسے مسائل تک کے باوجود ابتدا میں فاشزم کوئی مقبولیت حاصل نہ کر سکا۔ اٹلی میں جنگ کے بعد پہلے الیکشن میں ان کو کوئی ووٹ نہ ملے۔ جرمنی میں ہٹلر بیئر ہال سازش میں جیل چلا گیا لیکن مسائل کے حل میں بڑے پیمانے پر ناکامی کی وجہ سے لوگوں کا جمہوریت پر اعتماد متزلزل ہو چکا تھا۔ بیسویں صدی کے تیسرے عشرے تک بر اعظم یورپ میں رہنما عوام کے مصائب کے ازالے کیلئے کوئی ٹھوس پروگرام پیش کرنے میں ناکام رہے۔ یورپ کے علاوہ امریکہ میں بھی حالات کوئی زیادہ بہتر نہ تھے مگر صدر فرینکلن روزویلٹ نے ایک جدید فلاحی ریاست کے قیام کا وعدہ کر کے فاشزم کا راستہ روک دیا۔ روزویلٹ کی برعکس یورپی لیڈر کوئی قابل عمل اور قابل بھروسہ اعلان کرنے میں ناکام رہے۔ یورپ کی بیشتر سوشلسٹ پارٹیوں نے عوام کو بتانا شروع کیا کہ ان کے مسائل اس وقت حل ہوں گے جب سرمایہ داری نظام پوری طرح تباہ ہو جائے گا، اس وقت تک ان کے مصائب کا کوئی مداوا نہیں ہے جبکہ سکینڈے نیویا کی سوشلسٹ پارٹیوں نے مختلف اور حقیقت پسندانہ راستہ اختیار کیا اور قدرے کامیاب رہیں۔ کمیونسٹوں نے ایک مضبوط متبادل ضرور پیش کیا لیکن ان کی توجہ کا مرکز صرف مزدور طبقہ تھا؛ چنانچہ ڈپریشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات سے کسی نے اگر فائدہ اٹھایا تو وہ فاشسٹ ہی تھے۔ انہوں نے جمہوریت کو کمزور اور غیر موثر قرار دے کر ختم کرنے کا وعدہ کیا اور سرمایہ داری کی تباہیوں سے بچانے کیلئے ایک فلاحی ریاست تک کی بات کی۔
اِس دور کے نئے ابھرتے ہوئے فاشسٹوں اور پہلی دوسری جنگ عظیم کے زمانے کے دوران ابھرتے ہوئے فاشسٹوں میں فرق ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے آج کی دائیں بازو کی پاپولسٹ سیاسی جماعتوں کے نظریات و خیالات کا تجزیہ ہی کافی نہیں بلکہ وہ وسیع سیاسی تناظر بھی سامنے رکھنا ضروری ہے، جس میں یہ جماعتیں مقبول ہوئی ہیں۔ اس تناظر میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا آج کے حالات اور بیسویں صدی کے دوسرے اور تیسرے عشرے کے حالات میں کوئی قدرِ مشترک موجود ہے، جس نے اس وقت دائیں بازو کی عام سی پارٹیوں کو باقاعدہ منظم اور خوفناک فاشسٹ پارٹیوں میں بدل کر رکھ دیا تھا؟ اس پس منظر کا تجزیہ کرتے ہوئے کئی ایک مشترکہ عوامل نظر آتے ہیں۔ ایک بڑا عنصر یہ تھا کہ اس عرصے میں جمہوری اشرافیہ اور ادارے اس وقت کے گمبھیر مسائل کا حل ڈھونڈنے میں ناکام رہے تھے۔ بالکل اسی طرح آج کے ابھرتے ہوئے فاشسٹ رجحانات اور تنگ نظر قوم پرستی کے پس منظر میں ایک بڑی وجہ آج کے گمبھیر مسائل بھی ہیں، لیکن آج کا فاشزم کا تناظر گلوبلائزیشن ہے۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں سرمایہ داری نے مغربی سماج کی از سر نو تشکیل کی۔ اس عمل کے دوران یہاں کی روایتی ثقافتی اقدار اور پیشے ختم ہو گئے۔ اس دوران غربت کی وجہ سے کسانوں اور کاشتکاروں کو زمینیں چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑا۔ دوسری طرف انہی وجوہ کی بنیاد پر بڑی تعداد میں مزدوروں اور پیشہ ور افراد کو ترکِ وطن کر کے دوسرے خوشحال ممالک کا رخ کرنا پڑا۔ وسیع پیمانے پر ہجرت اور نقل مکانی کے اس عمل نے مغرب میں کئی مقامی لوگوں کو ایک انجانے خوف میں مبتلا کر دیا۔ اس کے رد عمل میں نئے نسل پرست سیاستدان سامنے آئے، جن کا خیال تھا کہ ان کے پاس نقل مکانی اور ہجرت کا توڑ موجود ہے اور وہ مقامی لوگوں کے خوف کا مداوا کر سکتے ہیں۔ سب سے آگے دائیں بازو کی قوتیں تھیں، جنہوں نے اپنے لوگوں کو غیر ملکی اور اجنبی لوگوں کی یلغار اور منڈیوں کے غلبے سے بچانے کا وعدہ کیا۔ اس وعدے کے نتیجے میں یہ قوتیں لوگوں کی قابل لحاظ تعداد کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ یہ حمایت کچھ ملکوں میں دبائوکی صورت میں پالیسی سازی پر اثر انداز ہوئی۔ کئی ملکوں میں یہ انتشار اور شکستگی کی قوت بن گئی۔
اس پوری بحث کا سبق یہ ہے کہ جمہوریت ایک کامیاب اور آزمودہ نظام ہے لیکن اگر جمہوریت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلی جائے جو اس کو انسانی مسائل کے حل کے لیے ایک ترقی پسند نظام کے طور پر استعمال کرنے میں ناکام رہیں تو اس نظام سے لوگوں کا بھروسہ اور اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ یہ ایک خطرناک صورت ہوتی ہے، جس کے بطن سے فاشسٹ نظریات اور رجحانات جنم لیتے ہیں۔ ان رجحانات کو وطن، قوم اور مذہب کے نام پر ذاتی اور پارٹی مفادات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔