پاکستان میں دانش ور تو بے شمار ہیں مگرجب عام آدمی کی بھلائی کے لیے دانش کو بروئے کار لانے کی ضرورت پڑے تو یہ دانش ور اور ان کی دانش‘ دونوں کہیں نظر نہیں آتے۔
عوام کو درست سمت میں رہنمائی فراہم کرنے کے لیے دانش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں‘ مگر یہ بھی نا قابل تردید حقیقت ہے کہ عوام سے بھی زیادہ حکومتوں کو اس دانش کی ضرورت ہوتی ہے، جو مفاد عامہ کے حوالے سے مفید فیصلے کرنے میں ان کے لئے مدد گار ثابت ہو سکے۔ حکمران طبقات کو اس دانش اور رہنمائی کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ جو فیصلے کرتے ہیں، وہ عوام کی زندگیوں پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ فیصلے عام لوگوں کے لیے موت و حیات کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اشرافیہ کے نزدیک حکومت کے چھوٹے موٹے فیصلوں کی شاید چنداں اہمیت نہ ہو، لیکن عام لوگوں کے لیے یہ زندگی بدل کر رکھ دینے والے فیصلے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آٹے اور چینی کی قیمت کیا ہونی چاہیے۔ ادویات کس بھائو بکتی ہیں۔ شہر میں قانون کرایہ داری کیا ہے، اور کرایہ کے نرخوں کا تعین کیسے کیا جاتا ہے۔ ان سارے فیصلوں کا تعلق روٹی، کپڑے اور مکان سے ہوتا ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان خوشحال اور مراعات یافتہ طبقات کے نزدیک مسائل میں شامل نہیں، لیکن کم خوش قسمت لوگوں کے لیے یہ بسا اوقات زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ غریب کے لیے اس لیے اہم ہوتا ہے کہ بعض اوقات اسے زندگی بچانے کے لیے دوائی خریدنے اور بچوں کے لیے آٹا خریدنے میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑ سکتا ہے، اور عموماً کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں حکومت کے بظاہر چھوٹے موٹے فیصلے عوام کے لیے واقعی موت و حیات کے فیصلے ٹھہرتے ہیں۔ حکومت کو اس باب میں درست فیصلے کرنے کے لیے دانش وروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں ہر قسم کے دانش ور شامل ہوتے ہیں، وہ جن کو معاشیات کی باریکیوں کی خبر ہے یا وہ جو علم سماجیات کی شدبد رکھتے ہیں، اور معاشرے کی سماجی تشکیل کے اندر پائی جانے والی ناگزیر ضروریات کا ادراک رکھتے ہیں۔ دانش وروں کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ارباب اختیار کو تب ہی مشورہ دیں، جب وہ باضابطہ طور پر مشاورت کے منصب پر فائز کیے جا چکے ہوں۔ حقیقت میں مشورہ دینے اور لینے کا یہ طریقہ کافی پرانا ہے، اور تقریباً متروک ہو رہا ہے۔
یہ بات نہیں کہ حکمران اپنے مشیر اور معاون خصوصی مقرر کرنا بند کر چکے ہیں، لیکن وہ اب ان دانشوروں کے خیالات سے بھی استفادہ کرتے ہیں، جن کا حکومت سے کوئی با ضابطہ یا سرکاری تعلق نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں یہ تصور نہیں ہے۔ ہمارے ہاں عموماً مشیر وہ مقرر کیے جاتے ہیں، جو آپ کے ہم خیال ہوں، آپ کی پارٹی کے کارکن ہوں، یا کم از کم آپ کی شخصیت اور قابلیت کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مختلف خیالات اور آرا رکھنے والوں کو اپنا مخالف بلکہ دشمن تصور کیا جاتا ہے، جیسا کہ قدیم بادشاہوں کے زمانے میں ہوتا تھا۔ آج کل اگر آپ انتخاب جیت کر ایوان اقتدار میں قلعہ بند ہو جائیں گے، عوام اور آپ کے درمیان سکیورٹی کے نام پر ایک اونچی اور نا قابل عبور دیوار کھڑی ہو جائے گی‘ آپ باہر کے اصل حالات و واقعات سے یکسر بے خبر ہوں گے‘ اور اوپر سے آپ اپنے ارد گرد ایسے مشیرجمع کر لیں گے، جن کا مطمح نظر آپ کو خوش کرنا اور آپ کی ہاں میں ہاں ملانا ہو، تو پھر آپ کا سچ وہ سچ ہوتا ہے جو صرف آپ کے دماغ میں یا آپ کی قلعے کی چار دیواری کے اندر گردش کر رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عموماً ایسے منصوبے پیش کر رہے ہوتے ہیں، جو دنیا میں متروک ہو چکے ہوتے ہیں۔ ہم ایسے نظریات کا پرچار کر رہے ہوتے ہیں جو ہزاروں سال پرانے ہیں۔ ہم انسانی مسائل کے حل کے لیے ایسے فارمولے پیش کر رہے ہوتے ہیں، جن کو دنیا آزما کر مسترد کر چکی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آج کل ہمارے ہاں فلاحی ریاست کی بات ہو رہی ہے جبکہ دنیا اب فلاحی ریاست سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ مغرب میں فلاحی ریاست کا تجربہ انیسویں صدی کے اواخر میں شروع ہوا تھا۔ اب دنیا اس سے ''آئوٹ گرو‘‘ (Out-Grow) کر چکی ہے۔ فلاحی ریاست کا تصور اس سے آگے بڑھ کر اشتراکیت کی شکل میں واضح ہوا، جس کا مطلب یہ تھا کہ ریاست مرض کی علامات کے بجائے اس کی وجوہات پر توجہ دے۔ یہ تصور آگے بڑھ کر یورپ کی جدید سوشلسٹ جمہوری ریاستوں میں شکل پذیر ہوا، سوشل ڈیموکریسی بھی اب ویلفیئر سے ذرا آگے بڑھ کر ذمہ داری لینے کی بات کرتی ہے۔ ہم فلاحی ریاست کے بنیادی تصور پر اس وقت بات کا محض آغاز کر رہے ہیں، جب دنیا اس سے آگے نکل کر ایک یونیورسل بنیادی آمدنی کی بات کر رہی ہے؛ اگرچہ اس تصور کے پُر جوش حامیوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جن کو ہم کھرب پتی کہتے ہیں، لیکن کئی معنوں میں یہ ایک سوشلسٹ آئیڈیا ہے، جس کے کئی مارکسسٹ اور سوشلسٹ حامی بھی موجود ہیں۔ اس کے حامیوں کا خیال ہے کہ ریاست کو اپنے ہر شہری کو ہر مہینے باقاعدگی سے ایک کم از کم رقم ادا کرنی چاہیے۔ یہ اتنی رقم ہو کہ وہ اس شخص کی تمام بنیادی ضروریات کے لیے کافی ہو۔ یہ رقم ہر شہری کو اس کی آمدن اور روزگار کی حیثیت کا خیال کیے بغیر ادا کی جائے۔ لیکن یہ سوال ابھی زیر بحث ہے کہ کیا اس طرح کی ادائیگی ہمارے زمانے کے مسائل حل کر سکتی ہے؟ ہمارے وقت کے مسائل میں عدم مساوات، دولت کی از سر نو تقسیم، روزگار کی بے یقینی، اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اثرات ہیں۔ اس حوالے سے دنیا کے کئی ممالک میں اس پر تجربات ہو چکے ہیں۔ ان تجربات کے نتائج سامنے آنا ابھی باقی ہیں‘ لیکن جو نتائج سامنے آ چکے ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کی طرف سے اس طرح کی ادائیگیوں کی وجہ سے عدم مساوات کم ہوتی ہے، اور عام لوگوں کی زندگی میں آسودگی آتی ہے۔ یونیورسل آمدن کے نظام کی کامیابی یا ناکامی کا درست اندازہ اس نظام کے عملی تجربے سے ہی ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ اس طرح کا نظام اپنانے والے ممالک کے پاس خاطر خواہ وسائل موجود ہوں۔ عالمی مزدور تنظیم آئی ایل او نے اس باب میں اعداد و شمار کی مدد سے اخراجات کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس تخمینے کے مطابق اس نظام کو کامیابی سے چلانے کے لیے دنیا کو کل جی ڈی پی کا بتیس اعشاریہ سات فیصد خرچ کرنا پڑے گا۔
یہ ایک شاندار خیال ہے مگرکم از کم آمدن فراہم کر کے حکومت صحت و تعلیم جیسے بنیادی فرائض سے دست بردار نہیں ہو سکتی۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دنیا میں عدم مساوات کے خلاف ایک طاقت ور ترین ہتھیار مفت تعلیم اور مفت صحت کی سہولیات کی فراہمی ہے۔ ان سہولیات کو برقرار رکھتے ہوئے کم از کم آمدن کی فراہمی ایک ترقی پسندانہ قدم ہو سکتا ہے، جس سے پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں عدم مساوات ختم تو نہیں ہو گی مگر اس میں نمایاں کمی ممکن ہے۔