کیا صدر ٹرمپ کی ہار یا جیت سے امریکہ کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں کسی قابل ذکر تبدیلی کے امکانات ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جو تین نومبر کے انتخابات کے تناظر میں بہت لوگوں کے ذہن میں آ رہا ہے۔اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک امریکی دانشور بیٹسے ہارٹمین نے لکھا ہے کہ جب صدر ٹرمپ پہلی بار منتخب ہوئے تو کچھ لوگوں نے امریکہ میں فاشزم کے فروغ کے خطرات کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت میں نے جرمنی اور اٹلی کی تاریخ پر دوبارہ ایک نظر ڈالی۔ ہٹلر اور مسولینی تقریباً ایک صدی پہلے ابھرے تھے۔ اس وقت کے حالات کی آج سے کافی مشابہت تھی، اس کے باوجود اس وقت کے حالات میں اور آج کے حالات میں کافی فرق بھی ہے۔ جن چیزوں میں مشابہت ہے، ان پر ایک نظر دلچسپی سی خالی نہیں ہو گی۔ دونوں میں ایک مشترکہ چیز خوف اور ڈر کو ایک سٹریٹیجک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ فاشزم کا بنیادی دعویٰ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بیک وقت اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف تیار کرتا ہے‘ اور فاشزم کے نزدیک دشمن وہ ہے جو ان کی نسل کی خالص شکل کے لیے خطرہ ہے۔ فاشزم اس خطرے کے تدارک کے لئے تیاری کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے فاشزم جھوٹے پروپیگنڈے اور بے بنیاد اطلاعات کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کرتا ہے، جس میں دوسروں کے خلاف نفرت پھیلا کر ان کے خلاف تشدد کو جواز مہیا کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں فاشزم کی کانسپریسی تھیوریز ایک طرح کی شوریدگی اور ذہنی انتشار پیدا کرتی ہیں۔ نفرت اور تشدد کو خوراک مہیا کرتی ہے۔ ہم نے تاریخ میں دیکھا کہ یورپ میں فاشزم کو آگے بڑھانے کے لئے یورپی فاشسٹوں نے یورپ میں کمیونسٹوں کو ایک بہت بڑے خطرے کے طور پر پیش کیا تھا‘ اور اس خطرے کے نام پر ہر قسم کے ہتھکنڈوں کو جائز قرار دیا تھا۔ اس سے ملتے جلتے واقعات اب امریکہ میں بھی ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے نیو یارک شہر، پورٹ لینڈ اور سی ایٹل کو انارکسٹ علاقے قرار دیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان علاقوں کو وفاقی مالی امداد سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ دوسری بڑی مشابہت جمہوری اداروں پر حملہ اور ان کو کمزور کرنا ہے۔ جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں‘ ان میں ان اداروں کو کھوکھلا اور بے اثر کرنا، اداروں کے اندر اپنے ہم خیال داخل کرنا، ان کے مشن کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا اور ایسے ہی کئی دوسرے اقدامات شامل ہیں۔ اور ان اقدامات سے آئینی جمہوریت کو کمزور کرنا مقصود ہے۔
نازی جرمنی اور مسولینی کے اٹلی میں کیا ہوا تھا کہ اس وقت یورپی قدامت پسندوں کا آپس میں تصادم تھا، جو فاشسٹ غلبے کی ایک وجہ بنا تھا۔ امریکہ میں ایسا نہیں ہے۔ اس وقت امریکہ میں ریپبلکن پارٹی چند استثنائوں کے علاوہ ہر معاملے میں ٹرمپ کے ساتھ کھڑی ہے، اور آثار بتاتے ہیں کہ پارٹی اور دیگر قدامت پسند اپنی یہ حمایت جاری رکھیں گے۔
تیسرا بڑا عنصر جو یورپی فاشزم اور نازی ازم سے مشابہت رکھتا ہے وہ ''کریٹیکل سوچ‘‘ کو ختم کرنا ہے۔ مشہور اٹالین ناول نویس ایمبرٹو ایکو نے کریٹیکل سوچ کو فاشزم کے تناظر میں موضوع بحث بنایا ہے۔ ایمبرٹو مسولینی کے دور میں بڑا ہوا۔ اس نے دیکھا کہ کس طرح فاشزم کے فروغ کے لیے زبان کو استعمال کیا گیا۔ اس نے لکھا ہے کہ نازی اور فاشسٹوں نے سکولوں کی کتابوں میں کمزور لغت کا استعمال شروع کیا تھا تاکہ کریٹیکل سوچ کو روکا جا سکے۔ اسی تناظر میں آج انگریز دانشور سٹیفن کنلنگ مین نے لکھا کہ کس طرح ٹرمپ جان بوجھ کر اس موضوع پر ہونے والی گفتگو اور مکالمے کی اہمیت کو گھٹانے اور اس کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ فاشزم کی پالیسیوں کا اگلا قدم ایک متوازی پیرا ملٹری اور متوازی پولیس کا قیام ہے، جو مروجہ قانون کے آگے جواب دہ نہ ہو۔ ان خطوط پر تشکیل کردہ نازی جرمنی کی خاکی شرٹس اور مسولینی کی کالی شرٹس نے دشمنوں کو مٹانے کے نام پر قانون کے آگے کسی قسم کی جواب دہی کے بغیر دہشت کا بازار گرم کیا تھا۔ سیاسی مخالفین کا قتل عام کیا تھا۔ ریاست کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد فاشسٹوں نے اپنے گندے کاموں اور انتقامی اقدامات کے لیے خاص قسم کی پولیس تشکیل دی تھی۔ یہ پولیس عام پولیس کے دائرہ سے باہر تھی۔ گسٹاپو کا قیام اس کی ایک اہم مثال تھی۔ اس میدان میں امریکہ ابھی تک اس سٹیج تک نہیں پہنچا ہے، اور شاید کبھی نہ پہنچ سکے‘ مگر ٹرمپ کی نسل پرست مسلح گروہوں سے قریبی دوستی ہے۔ یہ دوستی سفید فام قوم پرستی کو ہری بتی دکھاتی ہے، اور دائیں بازو کی شدت پسندی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اسی وجہ سے دائیں بازو کا میڈیا ان لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کر رہا ہے، جنہوں نے اقلیتوں پر حملے کیے ہیں، اور عام لوگوں پر گولیاں چلائی ہیں۔ سرحدوں پر پٹرول اور متوازی پولیس اس کی ایک اور خوفناک مثال ہے۔ سرحدوں پر ایسے یونٹس تعینات ہیں، جن کا نسل پرستی کی طرف رجحان رہا ہے۔ اس طرح امیگریشن اور کسٹم بھی بغیر کاغذات کے مہاجرین کی تلاش اور گرفتاری میں ضرورت سے زیادہ سرگرم ہے۔
لیکن کیا ان سب باتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ٹرمپ فاشسٹ ہیں۔ فاشزم کے ماہر جیسن سٹینلے کا خیال مختلف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگرچہ ٹرمپ کی وجہ سے فاشسٹ قوتیں زور پکڑ رہی ہیں مگر ان قوتوں کا وجود ٹرمپ سے پہلے بھی تھا، اور اس کے بعد بھی ان کا وجود رہے گا۔ فاشزم کی موجودہ طاقت کا الزام تاریخی طور پر قدامت پرست اور ڈیموکریٹ‘ دونوں کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ امیگریشن اور نسل پرستی پر دونوں کی پالیسیوں میں معمولی فرق رہا ہے۔
جہاں تک صدر ٹرمپ کا تعلق ہے، تو ان کے قریبی لوگوں میں جو شخص بہت زیادہ فاشزم کے قریب ر جحانات کا حامی رہا ہے وہ سنیئر مشیر سٹیفن ملر ہے‘ جس نے 2018 میں بارڈر پر آنے والے خاندانوں سے بچے الگ کر کے پنجروں میں ڈال دیے تھے۔ اس وقت تین ہزار بچوں کو الگ کر دیا گیا تھا، اور ملر کا ٹارگٹ پچیس ہزار بچوں کو الگ کرنا تھا۔ اس طرح کے اقدامات فاشسٹ رجحانات کی واضح عکاسی کرتے ہیں‘ مگر ان اقدامت کی وجہ سے امریکی رائے عامہ میں صدر ٹرمپ اور ان کے رفقا کے خلاف کوئی قابل ذکر ردِ عمل نہیں ہوا، جو افسوس ناک بات ہے۔ جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو امریکیوں کی ایک قابل لحاظ تعداد صدر ٹرمپ کی موجودہ پالیسیوں سے زیادہ خوش نہیں ہے‘ لیکن اس کے خلاف وہ کسی بڑے رد عمل کے لیے بھی تیار نہیں، اور نہ ہی ان پالیسیوں میں کسی بنیادی نوعیت کی تبدیلی کی خواہش مند ہے۔ ڈیموکریٹس نے بھی ان پالیسیوں میں کسی بنیادی یا انقلابی تبدیلی کا عندیہ نہیں دیا۔ ان حالات میں صدر ٹرمپ کی ہار یا جیت سے امریکہ کی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں کسی بہت بڑی تبدیلی کے زیادہ امکانات نہیں ہیں۔ یہ تو امریکہ کے داخلی معاملات ہو گئے‘ اگر بات کی جائے خارجہ تعلقات کی تو یہ بالکل واضح ہے کہ اگر ٹرمپ اگلی مدت کے لئے بھی منتخب ہو گئے تو اپنی ان پالیسیوں پر عمل درآمد کا سوچیں گے‘ جن پر وہ بوجوہ ابھی تک نہیں عمل درآمد نہیں کر سکے ہیں۔