"FBC" (space) message & send to 7575

یورپ میں نسل پرستی اور مذہبی منافرت

یورپ میں نسلی اور مذہبی منافرت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہولوکاسٹ جیسے خوفناک واقعات اس نفرت کا اظہار ہیں۔ نو ستمبر کے واقعات کے بعد اس نفرت کا رخ مسلمان تارکین ِوطن کی طرف بھی مڑا ہے۔ اس نفرت کو ہوا دینے میں بنیادی کردار یورپ کی دائیں بازو کی قدامت پرست اور شدت پسند قوتوں کا ہے‘ لیکن اس سے تارکینِ وطن کو بھی کلی طور پر بری الذمہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ بیشتر تارکین وطن نئے لوگ ہیں، جو یورپ کی تاریخ، اس کی سماجی و معاشی تشکیل اور نفسیاتی ساخت سے ناواقف ہیں؛ چنانچہ وہ جانے انجانے ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں، جن سے نفرت کو بڑھاوا ملتا ہے۔ مثال کے طور پر تارکینِ وطن کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ یورپ ان کے ساتھ نسلی اور مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک کرتا ہے۔ عام مباحثوں میں وہ اس کی ایک بڑی مثال یہ دیتے ہیں کہ اگر یورپ میں ہولوکاسٹ سے انکار کرنا جرم قرار دیا جا سکتا ہے، اور اس سے حقِ اظہارِ رائے متاثر نہیں ہوتا تو دوسرے نظریات کے خلاف مواد روکنے سے اظہار کی آزادی کیسے متاثر ہوتی ہے؟ یہ ایک جائز سوال ہے، مگر اس کے درست جواب جاننے کے لیے ہولوکاسٹ اور یورپ کی تاریخ اور اس سے جڑے سماجی و معاشی حالات کا ادراک ضروری ہے۔
یورپ میں ہولوکاسٹ کے بارے میں سوال اٹھانا غیر قانونی نہیں ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ محض چند ایک یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ کے واقعے سے انکار کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ ان میں جزوی طور پر آسٹریا اور جرمنی جیسے ممالک شامل ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جن میں نسلی اور مذہبی بنیادوں پر یہودیوں کے قتل عام کے واقعات بڑی شدت سے رونما ہوئے۔ ان ممالک میں ایسے واقعات کی دوبارہ رونمائی سے بچنے اور نسل کشی کے حامی لوگوں کو دوبارہ اقتدار پر قابض ہونے سے روکنے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے۔ گویا اس قانون کا ایک ٹھوس پس منظر ہے، جس سے اس قانون سازی کو علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ 
اس مسئلے کا درست جائزہ لینے کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہولوکاسٹ کے دوران چھ ملین سے زائد یہودیوں کا قتل کیا گیا۔ یورپ میں نازی جرمنی، ہنگری اور رومانیہ جیسے ممالک میں یہ واقعات زیادہ شدت سے پیش آئے۔ ان واقعات کی ہولناکی اور شدت کے پیش نظر ہولوکاسٹ کے حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسے قوانین بنانے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں، ان میں امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک شامل ہیں‘ لیکن ان ممالک میں ایسی تجاویز کے خلاف سخت قسم کا رد عمل سامنے آیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں آزادیٔ اظہارِ رائے کو غیر مشروط حیثیت حاصل رہی ہے، اور دوسر ا یہ کہ ان ممالک میں ہولوکاسٹ جیسے واقعات نہیں رونما ہوئے تھے۔اس بات پر قانونی ماہرین اور دانشوروں کا اتفاق ہے کہ جن ممالک میں ہولوکاسٹ کے انکار پر پابندی لگائی گئی ہے، ان ممالک کا قانونی نظام ہولوکاسٹ سے ہٹ کر بھی تحریر اور تقریر کی آزادیوں کو مختلف انداز میں محدود کرنے کی روایت رکھتا ہے۔ اس باب میں چند ایک مغربی ممالک کا بطورِ مثال انفرادی طور پر جائزہ لینا ضروری ہے۔
یورپی یونین کے مختلف ممالک میں چالیس کے دہائی سے ہولوکاسٹ کے حوالے سے قانون سازی ہوتی رہی ہے۔ یورپ کے ایک اہم ملک بلجیم میں 1995 ء میں ہولوکاسٹ سے انکار کے خلاف قانون بنایا گیا تھا‘ لیکن انیس سو نناوے میں اس قانون کے اندر ترمیم کی گئی۔ اس ترمیم میں یہ لکھا گیا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن نیشنل سوشلسٹ حکومت کی طرف سے کیے گئے قتل عام سے انکار کرنا، یا اسے درست فعل قرار دینا جرم ہے۔ اور اس ''قتل عام‘‘ کی تعریف کے لیے اس قانون میں باقاعدہ انٹرنیشنل ٹریٹی کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کا مقصد دنیا میں انسانیت کا قتل عام روکنا تھا۔
اس قانون کے حوالے سے آج کل فرانس کو لے کر بہت بحث ہو رہی ہے۔ فرانس میں اس سلسلے میں 13 جولائی 1990ء میں قانون بنایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم کے وجود سے انکار کو جرم قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ انسانیت کے خلاف جرائم سے مراد وہ جرائم ہیں، جن کی انیس سو پینتالیس کے لندن چارٹر میں تعریف کی گئی ہے‘ اور ان کی تعریف انہی بنیادوں پر کی گئی ہے، جن پر نازی رہنماؤں کو انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم میں سزا دی گئی تھی۔ 
فرانس کے بعد اس کی ایک مثال یونان بھی ہے۔ یونان میں دو ہزار چودہ میں ہولوکاسٹ سے متعلق قانون میں ترمیم کی گئی‘ جس کے مطابق کسی بھی شخص کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم یا ہولوکاسٹ سے انکار کرنا‘ جس کا مقصد معاشرے میں امتیازی سلوک، تشدد یا نفرت پھیلانا ہو‘ جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح کچھ دوسرے یورپی ممالک کی نسبت یونان میں ہولوکاسٹ سے انکار پر پابندی نہیں ہے، بلکہ اس میں اضافی طور پر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس انکار کا مقصد کیا ہے۔ کہیں اس انکار کا مقصد تشدد یا نفرت کو ہوا دینا تو نہیں۔
یونان میں اس قانون کی اتنے بڑے پیمانے پر وضاحت کے باوجود اس پر زبردست قسم کی تنقید کی گئی۔ دانشوروں اور انسانی حقوق کے علم برداروں کے بہت بڑے طبقے نے اس کے خلاف بیان دیے۔ نئے قانون کے تحت جو پہلا کیس سامنے لایا گیا تھا‘ وہ ایک جرمن تاریخ دان کا تھا۔ اس کے خلاف اس کی عدم موجودگی میں مقدمہ چلایا گیا کہ وہ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں پر کیے گئے مظالم اور جرائم سے انکار کرتا ہے۔ عدالت نے اس کو بے گناہ قرار دیا۔ عدالت نے لکھا کہ اگرچہ اس تاریخ دان کے کام میں کچھ تاریخی غلطیاں ہو سکتی ہیں، لیکن اس بات کی کوئی شہادت نہیں ہے کہ اس نے اپنے کام کے ذریعے تشدد یا نفرت کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد گویا یہ قانون خود بخود بے کار ہو گیا۔ اس قانون کے اطلاق کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہو گا کہ ہولوکاسٹ سے انکار کرنے والے کا مقصد نفرت اور تشدد پھیلانا ہے۔ 
ہنگری کی نیشنل اسمبلی نے ابتدائی طور پرہولوکاسٹ سے انکار کی سزا تین سال کی قید مقرر کی تھی۔ دو ہزار دس میں نئی پارلیمنٹ نے اس قانون میں ترمیم کر دی۔ اب ہنگری کے قانون میں ہولوکاسٹ کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں ہے‘ لیکن دوسرے یورپی ممالک کی طرح مذہبی یا نسلی بنیادوں پر نفرت اور تشدد پھیلانے کے خلاف قوانین موجود ہیں، جو کسی بھی مہذب سماج کی بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ یورپ کے ان معدودے چند ممالک میں ہولوکاسٹ کے خلاف قانون سازی کے لیے مخصوص تاریخی اور سماجی حالات کو گہرائی تک سمجھنا ضروری ہے۔ ان حالات اور اس پس منظر کو سمجھے بغیر ہولوکاسٹ کے خلاف قانون سازی کا ہمارے دور کی نسلی نفرت سے تقابلی جائزہ کرنا درست نہ ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں