عالمی وبا کی ابتدا میں ہی دنیا اس بات پر متفق ہو گئی تھی کہ کورونا معیشت کے لیے تاریخ کا ایک ڈرائونا ترین خواب ہے۔ کورونا کی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا کے امیر و غریب ممالک نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اخراجات کا تخمینہ لگایا۔ کینیڈا کا ابتدائی تخمینہ یہ تھا کہ اس ملک کو اپنے شہریوں کی انفرادی و اجتماعی مالی مدد کے لیے تقریباً نو سو تیس بلین ڈالر درکار ہوں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تخمینے میں ردوبدل ہوتا رہا۔ آخری اعداد و شمار کا آنا باقی ہے مگر کینیڈا نے انتہائی فیاضی سے بہت بڑے وسائل اپنے شہریوں اور کاروباری اداروں پر خرچ کیے‘ مگر اس قابل رشک منصفانہ تقسیم کے باوجود ملک کے کئی کم خوش قسمت طبقات کی ضروریات اور تکالیف کا تسلی بخش ازالہ نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ کورونا سے پہلے سے موجود معاشی عدم مساوات ہے۔
اس معاشی عدم مساوات کی ایک جھلک کینیڈا کے سب سے بڑے شہر ٹورانٹو کی تازہ ترین رپورٹس میں دکھائی دیتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس شہر میں جن لوگوں کی سالانہ آمدن تیس ہزار کینیڈین ڈالر سے کم ہے، ان کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے خطرات خوشحال لوگوں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ ان کم آمدنی والے لوگوں کا کورونا سے متاثر ہونے اور بیمار پڑنے کا رسک ان لوگوں کی نسبت پانچ اعشاریہ تین فیصد زیادہ ہے، جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ پچاس ہزار کینیڈین ڈالر یا اس سے زیادہ ہے۔
کورونا وائرس کے حوالے سے سامنے آنے والی مختلف رپورٹس کی تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ 7 نومبر 2020ء تک ٹورانٹو شہر میں 29 ہزار سات سو ایسے کیس شناخت کئے گئے تھے، جو کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے اور اس وقت تک مرنے والوں کی کل تعداد 14 ہزار تھی۔ جن لوگوں کی اس وائرس سے اموات واقع ہوئی ہیں ان کی عمر زیادہ تر 70 سال اور اس سے اوپر تھی، اکثریت اسّی سال سے اوپر کے لوگوں کی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان شہریوں کے زیادہ متاثر ہونے کی وجہ زیادہ عمر تھی۔ زیادہ عمر میں انسان کی قوتِ مدافعت کم ہو جاتی ہے‘ لیکن سماجی دوری کی وجہ سے تنہائی اور ڈپریشن بھی ان اموات کا ایک سبب ہو سکتی ہے؛ تاہم عمر اور تنہائی ہی دو عناصر نہیں ہیں‘ عمر کے علاوہ اس عمل میں دو دوسرے بڑے عناصر بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ ان میں ایک عنصر نسل ہے اور دوسرا آمدنی ہے۔ اور یہ دونوں عناصر وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ناقابل شکست طور پر جڑے ہوئے ہیں۔
ستمبر کے مہینے تک جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس شہر میں کورونا سے متاثر ہونے والے سیاہ فام، مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیا کے لوگوں کی تعداد سفید فام لوگوں کی نسبت سات گنا زیادہ تھی۔ اس شاکنگ فرق کی وضاحت یہ پیش کی جاتی ہے کہ زیادہ آمدنی والے لوگوں کو اپنے گھروں سے کام کرنے کی سہولت حاصل تھی۔ ان کو معاشی خوشحالی کی وجہ سے یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لئے دوسرے لوگوں کی خدمات معاوضے پر حاصل کر سکیں۔ ان کو یہ بھی سہولت حاصل تھی کہ اگر ان کو شہر میں نقل و حرکت کی ضرورت پڑے تو وہ پبلک ٹرانسپورٹ کی جگہ ذاتی گاڑی استعمال کر سکتے تھے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ آسانی سے سماجی دوری کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے وائرس کے خطرے سے دور رہ کر معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں۔
کم آمدنی والے لوگوں کو یہ سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ گھر بیٹھ کر آن لائن کام نہیں کر سکتے۔ ان لوگوں کا زیاہ تر کام محنت مزدوری ہے، جس کے لیے کام کی جگہ پر ان کی موجودگی ضروری ہے‘ خواہ وہ ایک فیکٹری ہو، کارخانہ ہو، ہوٹل یا ریستوران ہو، یا پھر اسی نوعیت کے دوسرے کام ہوں۔ کام کے دوران ان کو دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جل کر کام کرنا ہوتا تھا، جس کی وجہ سے یہ لوگ سماجی دوری کے اصولوں کی پاس داری نہیں کر سکتے تھے، جو وائرس کے پھیلائو کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہے۔ کورونا کی روک تھام کے لیے جب پہلی بار شہر کو بند کیا گیا تو اس کے بعد فوری طور پر زیادہ آمدنی والے اور سفید فام نسل کے لوگوں میں وائرس کے پھیلاؤ کو کم ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یہاں کے ایک بڑے اور معتبر اخبار ٹورانٹو سٹار نے لکھا کہ شہر کو بند کرنے کا عمل امیروں کے لیے تو کام کرتا ہے، مگر غریبوں کے لیے بالکل نہیں۔ شہر کے بہت سارے کمیونٹی ہیلتھ سینٹرز اور دوسرے خیراتی اداروں کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ جہاں تک رنگ دار نسل کے شہریوں اور نئے آنے والے تارکین وطن کا تعلق ہے، تو ان لوگوں کے حالات وائرس کے پھیلائو سے پہلے بھی زیادہ خوش گوار نہیں تھے۔ ذہنی صحت‘ جسمانی صحت، سوشل نیٹ ورک اور تعلیم کے میدان میں یہ لوگ پہلے سے سیڑھی کے پہلے زینے پر تھے، وائرس نے ان لوگوں کو مزید نیچے دھکیل دیا ہے۔
کورونا کی وجہ سے خوراک تک رسائی کا مسئلہ بھی خوفناک شکل اختیار کر گیا ہے۔ وائرس بحران سے پہلے فوڈ بینک پر انحصار کرنے والے لوگوں میں سفید فام لوگوں کی تعداد صرف دس فیصد تھی جبکہ اس کے مقابلے میں سیاہ فام لوگوں کی تعداد 28 فیصد تھی۔ بچوں میں یہ صورت حال اور بھی خراب تھی۔ اپنی خوراک کی ضروریات کے لیے فوڈ بینک کی طرف دیکھنے والے سفید فام گھروں میں رہنے والے بچوں کی تعداد 12 فیصد تھی جبکہ سیاہ فام بچوں کی تعداد 30.6 فیصد تھی۔ وائرس کی وجہ سے یہ بحران گہرا ہوا ہے۔ اس بحران کے دوران خوراک کے لیے فوڈ بینک پر انحصار کرنے والوں کی تعداد میں25 فیصد اضافہ ہوا‘ اور حیرت انگیز طور پر وہ نئے لوگ جنہوں نے فوڈ بینک کو استعمال کرنا شروع کیا، ان میں دو سو فیصد کا اضافہ ہوا‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً دس ہزار نئے لوگ ایسے سامنے آئے جن کو اپنی خوراک کی ضروریات کے لیے فوڈ بینک اور بریڈ بینک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
فوڈ شیئر ٹورانٹو کے ڈائریکٹر پال ٹیلر کے بقول غربت، خوراک کی کمی اور بے گھری کے مسائل کے لیے طویل عرصے سے خیراتی اداروں پر بھروسہ کیا جاتا رہا ہے، جن کے پاس اس مسئلے کو حل کرنے کی سکت نہیں ہے۔ شہر میں غریب اور کم آمدنی والے ضرورت مند افراد کی رہائش و خوراک کی ضروریات سے جڑے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ وائرس کے اس بحران میں جو تنظیمیں خوراک ا ور رہائش میں مدد کا کام کرتی ہیں، ان کے پاس مستقبل قریب میں اتنے فنڈز نہیں ہوں گے کہ وہ اپنے امدادی کام کاج جاری رکھ سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ خیراتی ادارے اپنے آپریشن بند کرنے پر مجبور ہوں گی۔ گویا موجودہ نظام اس شکل میں کورونا کی نئی لہر کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ یہ کینیڈا جیسے خوشحال ملک کی صورت حال ہے، جس میں معاشی عدم مساوات نسبتاً کم ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گہری طبقاتی تقسیم والے تیسری دنیا کے غریب ممالک کی صورت حال کس قدر تشویش ناک ہو گی۔